لگتا ہے ہم سب نے طے کر لیا ہے کہ ایک بندے کے لئے ملک، معاشرہ اور ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔ نواز شریف کے عدلیہ پر بڑھتے ہوئے حملوں سے جو نقصان ہو رہا ہے اس کا اندازہ شاید چیف جسٹں ثاقب نثار کو ہوگیا تھا لہٰذا وہ بول پڑے۔
اس میں شک نہیں کہ نواز شریف اور ان کے حامیوں نے بڑے طریقے سے عدالت اور ججوں کو گھیرا ہے۔ یہ بات وہ سمجھتے ہیں ہر انسان کی قیمت ہوتی ہے اور اگر بندہ ملک کا تین دفعہ وزیراعظم رہا ہو تو پھر آپ کو پتا ہوتا ہے کس کی کیا قیمت ہے۔ آپ کے سامنے لوگ ننگے ہوتے رہتے ہیں۔ اپنا دامن اور جھولی آپ کے سامنے پھیلا کر گڑگڑاتے رہتے ہیں اور آپ بھی‘ کچھ نہ کچھ اس خالی دامن میں ڈالتے رہتے ہیں۔آپ کو یہ بھی پتا ہوتا ہے آپ کی جیب سے ایک روپیہ بھی نہیں جا رہا۔ سب عوام کی ٹیکسوں سے ہی جائے گا لیکن وفاداری آپ کے حصے میں آئے گی۔ جب آپ جیون خان کی کتاب ''جیون دھارا‘‘ پڑھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ خرید و فروخت کا کاروبار پرانا ہے اور جب سے سیاست ان شریف سیاستدانوں کے ہاتھ لگی ہے اس کے بعد سے یہ معاشرہ اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھا ہے۔
ہمیں کہا جاتا ہے اگر پاکستان میں سب تعلیم یافتہ ہو جائیں تو ملک بدل جائے گا۔ میں اس تھیوری کو ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ اَن پڑھ اور تعلیم یافتہ میں بس قیمت کا فرق ہے۔ ان پڑھ بے چارے کو پتا نہیں ہوتا کہ اس نے کتنے میں خود کو فروخت کرنا ہے، لہٰذا اس کی سوچ ووٹ دیتے وقت بریانی کی پلیٹ پر اٹک جاتی ہے۔ جس نے بریانی کھلا دی‘ وہی ووٹ کا حقدار۔ اس کی ایک مثال میں لیّہ سے دے سکتا ہوں جہاں ایک موصوف عرب ملک سے آئے، انہیں اُس عرب ملک سے امیر لوگوں نے زکوٰۃ کے پیسے دیئے کہ اپنے ملک کے غریب لوگوں کی مدد کریں۔ ان کو کسی سمجھدار نے مشورہ دیا زکوٰۃ کا پیسہ چند سو لوگوں میں بانٹنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ غریبوں کو رمضان کے مہینے میں افطاری کروا دیں۔ اس طرح سیاست بھی ہو گی اور نام بھی ہوگا۔ گزشتہ رمضان ضلع میں اعلان ہوا کہ فلاں صاحب ایک بڑی شاندار افطاری کروا رہے ہیں۔ پورا ضلع اُمڈ آیا کہ کھل کر کھائیں پئیں گے۔ ان صاحب نے ضلع میں چند جگہوں پر افطاری کا بندوبست کیا اور ہزاروں لوگوں کو خوب کھلایا پلایا۔ ساتھ ہی ان سب لوگوں کی افطار پارٹی کی ویڈیو بھی بنتی رہی جو اُس ملک کے لوگوں کو بھیجی گئی کہ دیکھیں آپ کے پیسے سے یہ افطاریاں ہو رہی ہیں۔ میں لیّہ گیا تو ہر طرف افطاری کی دھوم تھی۔ آپ یقین جانیں‘ ابھی سے لوگ رمضان کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ پھر سے افطاری کر سکیں۔ بڑے بڑے معززین کو افطاری میں جاتے دیکھا تو حیران ہوا کہ ایک وقت کے کھانے میں اتنی طاقت ہے؟ ایک ہی ہلّے میں ان موصوف نے ہزاروں لوگ اکٹھے کر لیے۔ آج کل وہ لیّہ میں افطاری والا بابا بن چکا ہے اور ابھی سے ووٹ مانگنے نکلا ہواہے۔ امکان ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی ٹکٹ دیدے گی۔ یہ ہے ووٹ کی قیمت۔ سال میں ایک افطاری کرا دو‘ ووٹ لے لو۔ اب جو افطاری کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے انہیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ افطاری بیرون ملک سے موصول ہونے والے زکوٰۃ کے پیسے سے کروائی گئی۔ یہ صاحب اگر ایم این اے بن گئے تو پھر تو آگے چل سو چل۔
جو ہمارے جیسے پڑھ لکھ جاتے ہیں‘انہیں پتا ہوتا ہے کہ جو سیاستدان ان سے ووٹ لے کر جا رہا ہے اور اتنی تکلیفیں اٹھا رہا ہے وہ ضرور لمبا ہاتھ مارے گا۔ لہٰذا ہم اپنی قیمت سوچ کر رکھتے ہیں۔ جناب ایک بریانی اور افطاری پر تو ہم بکنے کے لیے تیار نہیں۔ آپ ملک کے وزیراعظم بنیں، وزیر بنیں، ایم این اے یا کسی اور بڑے عہدے پر بیٹھ جائیں اور میں ایک پلیٹ بریانی لے کر گھر چلا جائوں؟ ان سیاسی لیڈروں کو بھی پتا ہوتا ہے کہ سب کی ایک قیمت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ پیکیج تیار کیا جاتا ہے۔ ایک فہرست بنتی ہے کہ کون کتنے میں قلم بیچے گا۔ کچھ لوگوں کو محض بڑے صاحب کی صحبت درکار ہوتی ہے۔ کسی کی ٹرانسفر‘ پوسٹنگ تو کسی کی پروموشن۔ یہ سب کام چپکے سے ہوتے ہیں۔ کوئی زیادہ طاقت کا شوقین ہوتا ہے تو اسے وزیر، مشیر،سفیر یا کسی محکمے کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے۔ پھر ایک اور طریقہ نکالا گیا ہے کہ میڈیا ہائوسز کو بھی جیب میں ڈالا جائے۔ پھر باری وکلا برادری کی آئی۔ افتخار چوہدری دور سے یہ قیمت کا راز سمجھ میں آ گیا تھا کہ وکلاء اگر آپ کے ساتھ مل جائیں تو پھر جج آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ان ججوں کو اکیلا کر کے مارنا آسان ہو گا۔ بڑے بڑے وکیل جو ٹی وی پر بیٹھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نواز شریف کی کرپشن پر بات کرتے تھے‘ انہیں کروڑں روپے کی فیسیں دے کر حکومت نے اپنے دفاع پر لگا دیا۔ بار ایسوسی ایشنز کو بھی کروڑوں روپے ملنا شروع ہو گئے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار بھی بول پڑے کہ ہم کوئی سوموٹو بھی لیں جس سے عوام کا فائدہ ہو تو بھی وکیلوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جو چند لاکھ روپے معاوضہ لیتے تھے‘ اچانک انہیں حکومت اور بڑے کاروباری کروڑوں دینے لگے۔ ان سب کے نام پڑھیں جو اس وقت مرکز اور پنجاب حکومت کے وکیل ہیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ انصاف کس بھائو بک رہا ہے۔ یوں جب عدالت نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تو ان سب وفاداروں کو ایکٹو کیا گیا اور انہوں نے عدالت پر حملے شروع کر دیئے۔ کچھ قلم کے محافظوں نے نواز شریف کومشورے دیئے کہ میاں صاحب ڈٹ جائو۔ موٹروے نہیں‘ جی ٹی روڈ سے جانا۔ کچھ نے ٹی وی پر بیٹھ کر عدالت اور ججوں کو ادھیڑنا شروع کیا۔ ان میں وہ وکیل بھی شامل ہیں جو حکومت سے فی کیس کروڑ وں روپے کی فیس لیتے ہیں۔ یوں وکیل جنہیں عدلیہ اور ججوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا وہ بالکل اُسی طرح حکومت سے مل گئے جیسے ایک بربانی کی پلیٹ پر اَن پڑھ ووٹر بک جاتا ہے۔
یہ ماحول بنا کر‘ عدالت اور ججوں کو اکیلا کر کے‘ میڈیا اور وکلا کو جیب میں ڈال کر‘ نواز شریف نے حملے تیز کردیئے۔ عدالت بھی دبائو میں آتی گئی کیونکہ عدالت کو جو سپورٹ ملنا تھی وہ وکلاء اور میڈیا سے ہی ملنی تھی اور حکومت پہلے ہی سب اپنی جیب میں ڈال چکی تھی۔ یوں ایک ایک کر کے ایم این ایز عدالت اور ججوں پر حملے کرتے گئے اور انعام کے طور پر وزارتیں پاتے گئے۔ اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس ''بابا رحمتے‘‘ کی مثال دے رہے ہیں جس کی‘ ان کے بقول، پورا گائوں عزت کرتا ہے لیکن بابا رحمتے جب گائوں کی پنچایت کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے چھ جوان بیٹے اس کے ساتھ چار پائیوں پر بیٹھے‘ باقیوں کو گھوریاں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس کے جوان بھتیجے‘ بھانجے بھی دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں اور جو بندہ بابا رحمتے کی بات سے انکاری ہونے کا سوچتا ہے، اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ جوان اس کا کیا حشر کریں گے۔ محض باتوں سے بات نہیں بنتی۔
بابا رحمتے بھی جانتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ یہ لوگ بابا رحمتے کی مثالوں سے سبق نہیں سیکھیں گے۔ یہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں غریب کی طرح بریانی نہیں بلکہ کروڑوں روپوں کی فیسیں اور اعلیٰ عہدے نظر آتے ہیں۔یہ فرق ہے اَن پڑھ اور پڑھے لکھے میں۔ ان پڑھ ایک بریانی اور سال میں ایک افطاری پر ووٹ بیچتا ہے، آکسفورڈ، کیمبرج، ہاورڈ اور بیرونی یونیورسٹیوں سے پڑھے اعلیٰ عہدوں اور کروڑوں کی فیسوں پر اپنا ضمیر بیچتے ہیں۔
اس معاشرے میں تعلیم عام کرنے کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ اَن پڑھ اپنی غربت دور کر سکیں اورمحض بریانی اور افطاری پر نہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں، سفارتوں، وزارتوں اور کروڑوں روپے کی فیسوں پر بکیں تاکہ ٹی وی پر بیٹھ کر کرپشن اور شریف خاندان کی پانچ براعظموں میں پھیلی دولت کے فوائد پر لیکچر دے سکیں۔۔!