چلیں وہ منزل آن پہنچی جس کے لیے ہم نے پچھلی چار دہائیوں میں بہت محنت کی۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد‘ اب بھی آپ پاکستان کی سیاسی ایلیٹ کے بیانات پڑھیں‘ آپ کو یاد آئے گا کہ یہی رویہ اس وقت افغان طالبان حکومت نے اختیار کیا تھا جب گیارہ ستمبر کے بعد‘ امریکہ نے کہا تھا: چونکہ اب اسامہ نے خود حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے،اگر اُسے ہمارے حوالے کر دیا جائے تو ہم حملہ نہیں کریں گے۔ طالبان دنیا کی شاید واحد حکومت تھی جس نے ایک بندے کے لیے پوری ریاست تباہ کرا لی اور خود دربدر ہو گئے۔
ٹرمپ کی دھمکی کے بعد پاکستانی سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ پاگل ہے، اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ کوئی پاگل دھمکی دے رہا ہو تو اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواجہ آصف نے بیان دیا ہے کہ امریکہ نے حملہ کیا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ شیری رحمن نے فرمایا ہے کہ پاکستان معذرت خواہانہ انداز نہ اپنائے۔ باقی سیاسی بیانات کا خلاصہ یہ ہے امریکہ کو بھرپور جواب دینا چاہیے۔
تو کیا جس خطرناک مرحلے سے‘ آج سے سترہ برس پہلے افغانستان گزرا تھا، آج وہ لمحہ ہمارے لیے آن پہنچا ہے؟ ہم نے افغان طالبان کی تاریخ دہرانی ہے یا پھر اس سے سبق سیکھنا ہے؟ ہم نے سمجھداری سے سرپٹ دوڑتے بدمست ہاتھی کا رخ کسی اور طرف موڑنا ہے یا ہم نے اس پاگل بیل کے سینگوں میں اپنا سر دینا ہے کہ آ پہلے مجھے مار؟
سوال یہ ہے کہ ہم سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہیں؟ امریکی کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو بتیس ارب ڈالرز‘ پندرہ برس میں دیئے ہیں۔ چار سالوں میں ہم نے مزید چالیس ارب ڈالرز قرضہ لیا ہے۔ امریکیوں کو جواب بعد میں دیتے رہیں گے‘ ان کے بتیس ارب ڈالرز کا کیا بنا؟ کوئی پاکستانیوں کو بتائے گا کہ ان برسوں میں قرض اور امریکی امداد کے نام پر جو 72 ارب ڈالرز آئے تھے‘ وہ کہاں خرچ ہوئے؟ یہ 72روپے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ 72ارب ڈالرز کی بات ہو رہی ہے۔ ایک ارب ڈالر میں ایک سو ارب روپے ہوتے ہیں۔
امریکہ کو جواب دیا جا رہا ہے کہ آپ نے ہماری سڑکیں استعمال کیں اور انفراسٹرکچر تباہ کیا، اس کے بدلے ہمیں پیسے دیئے۔ چلیں مان لیا۔ کیا وہ پیسے ان سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہوئے؟ نیٹو کنٹینرز کراچی سے چلتے اور پورا سندھ و پنجاب عبور کرنے کے بعد خیبر پختونخوا سے وہ افغانستان چلے جاتے۔ پندرہ برس بعد کیا کسی نے ان سڑکوں پر سفر کیا ہے جن پر یہ کنٹینرز چلتے رہے ہیں؟ آپ مظفرگڑھ سے لیہ، بھکر، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان تک کی طویل سڑکیں دیکھ لیں‘ پتا چل جائے گا کہ یہ بتیس ارب ڈالرز کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ دو ڈھائی ارب ڈالرز میں تو چینی قرضے سے کراچی سے ملتان تک موٹروے بن رہی ہے، دو ڈھائی ارب ڈالرز آپ ملتان میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان روڈ پر لگا سکتے تھے۔ چار سے پانچ ارب ڈالرز میں پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین‘ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل موٹر وے ہوتی۔ آپ ابھی یہ سڑکیں دیکھیں تو آپ کانپ کر رہ جائیں کہ جو سب سے زیادہ مصروف روڈ ہے‘ وہاں شاید سڑک کا نام موجود ہو لیکن آپ اسے معیاری سڑک نہیں کہہ سکتے۔ روزانہ اس طویل روڈ پر بڑے ٹرالرز، بسوں، کنٹینرز کی وجہ سے حادثوں میں لوگ مر رہے ہیں کیونکہ یہ سنگل روڈ ہے۔ جہاں دو رویہ سڑک ہونی چاہیے تھی یا موٹر وے ہونا چاہیے تھی‘ وہاں سڑک کا وجود ہی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ سرائیکی علاقوں کا پورا انفراسڑکچر تباہ ہوا لیکن وہاں ایک روپیہ بھی سڑکیں بنانے پر نہیں خرچ کیا گیا۔ جب آپ لوگوں نے ان علاقوں کی سڑکوں کو تعمیر ہی نہیں کیا جن کے لیے آپ نے اربوں ڈالرز امریکہ سے لیے تھے تو پھر امریکہ کو اس کے ڈالروں کے جواب میں سڑکوں کا جواز کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں کے ساتھ فراڈ کیوں ہو رہا ہے کہ سڑکیں تو ان علاقوں کی تباہ ہوئیں، جس کا آپ نے نقد بل بھی امریکہ سے وصول کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے سڑکیں نہیں بنائیں بلکہ وہ پیسہ کہیں اور لگا دیا؟
سب سے اہم سوال ہے کہ ہمیں افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کیوں چاہیے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وہاں بھارت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکے۔ افغانستان جہاں روس اور امریکہ جیسی سپر پاورز کا گڑھ بن چکا ہے، وہیں بھارت، چین اور پاکستان کے مفادات بھی پہنچ چکے ہیں جس سے افغانوں کی زندگیاں حرام ہو چکی ہیں۔ روزانہ درجنوں معصوم افغان دہشت گرد کارروائیوں میں مارے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر ہم نے بھارت سے لڑنا ہے تو بھارت کی سرحد ہم سے مشرق میں ملتی ہے نہ کہ مغرب میں۔
تو کیا امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل ہونا ہمارے لیے آپشن ہے یا پھر بھارت کے ساتھ تعلقات اس سطح پر لے جائیں کہ دونوں ملک بے شک دوست نہ ہوں لیکن ہر وقت دشمن بھی نہ بنے رہیں؟ امریکہ کے اثرات اور دھمکیوں سے پاکستان اس وقت باہر نکل سکتا ہے جب ہم بھارت کے حوالے سے اپنی سکیورٹی پالیسی میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہوں۔ اس نقطۂ نظر کے مخالفیں کا یہ کہنا ہے کہ بھارت ہمارے اندر گروپوں کو پیسہ دے کر پراکسی جنگ کراتا ہے۔ وہ ہمارا وجود قبول نہیں کرتا۔ یہ الزام بھارت ہم پر بھی لگاتا ہے کہ ہم ان کے ہاں پراکسی جنگ لڑتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دونوں نیوکلیئر ملکوں کو علم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اب جنگوں میں شکست نہیں دے سکتے، ایک دوسرے پر قبضہ نہیں کرسکتے تو پھر دونوں ملک کم از کم اس ایک نکتے پر اتفاق کیوں نہیں کر لیتے وہ ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی نہیں کریں گے یا پراکسی جنگیں نہیں لڑیں گے؟ اس ایک نکتے سے پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ جہاں ہمارا دفاعی بجٹ کم ہو سکتا ہے، وہیں ہمارے افغانستان میں مفادات کو لاحق خدشات‘ جو بھارت کی وجہ سے ہر وقت خطرات قائم ہیں، ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کو اپنے ستر سال پرانے مسائل کا حل اسلام آباد اور نیو دہلی میں تلاش کرنا ہوگا نہ کہ کابل میں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دس برس بعد دورہ کیا اور اس کے بہتر نتائج نکلے ہیں۔ اسی طرح جنرل صاحب کو بھارت کے ساتھ بھی کوئی حل نکالنے کے لیے سیاسی حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ طے ہے کہ کوئی بھی سیاسی حکومت بغیر فوجی قیادت کی مدد کے‘ بھارت کے ساتھ مناسب سطح کے تعلقات استوار نہیں کر سکتی۔
اس وقت پاکستان کو امن کی شدید ضرورت ہے۔ اس وقت ہمیں دشمنوں کو نیوٹرل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت کی بڑھکیں اور دعوے نقصان تو پہنچا سکتے ہیں‘ فائدہ نہیں۔ مشکل حالات میں مشکل فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس وقت پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اور مشکل فیصلہ یہ ہوگا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات مناسب سطح پر لائے۔ دونوں ملک پراکسی جنگوں کو ختم کرنے کا معاہدہ کریں۔ یہ ایک معاہدہ پاکستان کو افغانستان میں فرینڈلی حکومت یا وہاں کے طالبان کو افغان حکومت کے خلاف لڑائی کی ضرورت سے بے نیاز کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم کڑوی گولی کھانے کو تیار ہیں؟ ہمیں امریکہ کے ہاتھوں بلیک میلنگ اور بھارت سے تعلقات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی ریاست کو بچانا ہے۔ ریاست بچ گئی تو دشمنیاں‘ دوستیاں چلتی رہیں گی۔ جب بھی امریکہ میں کوئی ریپبلکن صدر آتا ہے تو وہ 'آدم بو آدم بو‘کرتا پوری دنیا کا چکر لگاتا ہے۔ امریکہ کی حالیہ تاریخ میں عراق و افغانستان پر حملے ریپبلکن ادوار میں کیے گئے۔ آٹھ سالہ ڈیموکریٹ دور کے بعد ریپبلکن صدرایک آدھ ملک کو تباہ کیے بغیر نہیں ٹلے گا۔ اس کا رخ شمالی کوریا کی طرف ہی رہنے دیں۔ اسے مڈل ایسٹ میں ہی مصروف رہنے دیں۔ ہمیں اس ریپبلکن صدر کی ٹارگٹ ڈھونڈنے اور اس کا مشن پورا کرنے میں مدد نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن غیر سنجیدہ بیانات پڑھ کر لگ رہا ہے کہ ہم ٹرمپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
اس خطے کا امن اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی سلامتی کا حل اسلام آباد اور نیو دہلی سے نکلے گا۔ کابل کو فتح کرنے یا امریکہ سے جنگ لڑنے سے نہیں۔ باقی کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے۔ کرتے رہیں ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں