"RKC" (space) message & send to 7575

ہے کوئی جو بتائے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد ایک دوڑ لگ گئی ہے کہ کون حب الوطنی کا مقابلہ جیتے گا۔ ایسے ایسے بیانات سننے کو مل رہے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ سب سے اچھا بیان خواجہ آصف کا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر اردو زبان میں صدر ٹرمپ کی کلاس لی ہے۔ انگریزی میں ٹویٹ نہیں لکھے کہ کہیں ٹرمپ پڑھ ہی نہ لیں یا پھر کوئی شرارتی خواجہ آصف کے ٹویٹس ٹرمپ کو ٹیگ ہی نہ کر دے۔ خواجہ آصف وہی ہیں جو پچھلے دنوں اپنے بچوں کا ولیمہ امریکہ میں کرکے آئے‘ اور جنہوں نے چند لوگوں کو امریکی سفارت خانے سے ذاتی درخواست کرکے ویزہ دلوا کر ولیمے میں شرکت بھی کرائی۔ امریکی بھی ہنستے ہوں گے کہ جو وزیرخارجہ اپنے بچوں کا ولیمہ اپنے ملک میں نہیں کرتا وہ بھی ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔ نیویارک میں رہائش پذیر مشہور پاکستانی صحافی آفاق فاروقی نے تصدیق کی ہے کہ خواجہ آصف نے اپنے بچوں کا ولیمہ نیویارک میں ہی کیا۔
پاکستان میں ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ باپ اور بچے بڑے سمجھدار ہو گئے ہیں۔ باپ نے اپنے بچوں کو سمجھا دیا ہے کہ بیٹا میں نے پاکستان میں رہنا ہے اور یہیں حکمرانی کرنی ہے کیونکہ ایسے عوام اور لوگ آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے جنہیں آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ بچے امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں اور ان کے والدین ہمارے ہاں حکمران بن کر مال بناتے ہیں۔ باپ بچوں کے امریکی ولیمے سے لوٹ کر رات کو ٹی وی پروگرام میں امریکہ کو کھری کھری سناتا ہے۔
ایک امریکی ڈپلومیٹ سے کسی تقریب میں ملاقات ہوگئی تو میں نے پوچھا: آپ کو کیسا لگتا ہے جب چوہدری نثار خان‘ خواجہ آصف جیسے لوگ امریکہ کی کلاس لیتے ہیں حالانکہ ان کے بچے امریکی شہری ہیں‘ یا جنرل مشرف کا بیان سن کر کیسا لگتا ہے کہ حافظ سعید میرا ہیرو ہے‘ جبکہ ان کے بیٹے بلال مشرف کے ملک‘ امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ وہ نچلے لیول کا ڈپلومیٹ ہنس کر بولا: ایسے لوگ ہمیں دنیا کے ہر کونے سے سوٹ کرتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟ وہ بولا: رہنے دیں۔ میرے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھ کر بولا: آپ کچھ لے نہیں رہے‘ اور آگے بڑھ گیا۔
اور سنیں شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں‘ کشکول اور مانگے تانگے سے عزت نہیں ملتی‘ جبکہ کچھ دن پہلے نئے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک ٹویٹ کرکے پوری قوم سے داد طلب کی تھی کہ میں ڈھائی ارب ڈالرز کا قرضہ لے آیا ہوں۔ انہوں نے اس ٹویٹ میں اسحاق ڈار کو طعنہ بھی دیا تھا کہ آپ دو سال قبل یورو بانڈز سوا آٹھ فیصد مارک اپ پر لائے تھے جبکہ میں ڈھائی ارب ڈالرز ساڑھے چھ فیصد پر لے آیا ہوں۔ اندازہ کریں‘ اسحاق ڈار اور مفتاح میں مقابلہ اس بات پر ہورہا ہے کہ کون دو تین فیصد کم پر قرضہ لے کر آیا ہے۔ انہوں نے یہ بڑھک تو مار دی کہ میں اسحاق ڈار کی نسبت سستا قرضہ لے آیا ہوں‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس دن جب مفتاح اسماعیل ساڑھے چھ فیصد مارک اپ پر قرضہ لے کر آئے‘ اسی دن بھارتی کمپنی ریلائنس نے آٹھ سو ملین ڈالر بانڈز سوا تین فیصد پر فلوٹ کیے۔ یوں ایک بھارتی پرائیویٹ کمپنی کی ساکھ پورے پاکستان سے بہتر ہے‘ جسے پاکستان سے تین فیصد کم سود پر قرضہ ملا۔ دنیا کو امید ہے کہ ریلائنس کمپنی قرضہ واپس کردے گی لہٰذا ریٹ کم رکھا گیا ہے‘ جبکہ پاکستان کے بارے میں شکوک ہیں‘ اس لیے سود کی شرح زیادہ رکھی گئی ہے۔ یقینا اس میں انشورنس شامل ہو گی۔ 
لیکن اب شہباز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ جو کشکول لے کر جاتے ہیں‘ ان کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ حالانکہ خود شہباز شریف بتا چکے ہیں کہ لاہور کی اورنج ٹرین چین کی طرف سے دو ارب ڈالرز کے قرضے سے بنائی جارہی ہے۔ ویسے میں تو یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ حفیظ پاشا کہہ رہے تھے‘ اس سال پاکستان کو بتیس ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی‘ جبکہ مفتاح اسماعیل فرما رہے تھے کہ چین نے پاکستان کو جو قرضہ دیا ہوا ہے‘ اس کی ادائیگی کا گریس پریڈ پانچ سال ہے‘ اس کے بعد ادائیگیاں شروع ہوں گی۔ دو تین سال تو یقینا گزر گئے ہیں اس گریس پریڈ کے۔ اب دو تین برس بعد جہاں نوے ارب ڈالرز کے قرضے پر سود ادا کرنا ہو گا‘ وہیں ہمیں چین کے سی پیک کے تحت ساٹھ ارب ڈالرز کے قریب قرضے پر بھی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ یوں یہ کل قرضہ ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کے قریب بنتا ہے۔ اب بتائیں‘ اصل زر چھوڑیں‘ ہم نے جو ان قرضوں پر سود ادا کرنا ہوگا‘ وہ کہاں سے لائیں گے؟ ایکسپورٹس گر رہی ہیں جبکہ مین پاور کو بیرون ملک نوکری پر بھیجنے پر ہم نے توجہ نہیں دی۔ سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں بحران کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی بیروزگار ہوکر پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں‘ یوں زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ محدود ہوگا۔ ہمارے ہاں ان ایشوز پر کوئی بحث نہیں ہورہی۔ الٹا جو چند سو ملین ڈالرز ہر ماہ امریکی ہمیں کولیشن سپورٹ فنڈز کے نام پر دے رہے تھے‘ وہ بھی بند ہوگئے ہیں‘ کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ ہماری قومی سلامتی کا تعلق ہماری اکانومی سے زیادہ افغانستان میں لڑتے کسی گروپ کی حمایت سے ہے۔ ہم نے اس کو پاکستان کے لیے لازم و ملزوم قرار دے دیا ہے۔ ہم اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مفتاح اسماعیل کی بڑھک سن کر ہم سب ہنس پڑے ہیں کہ امریکہ نے جو ڈھائی ملین ڈالرز کی امداد روکی ہے اس سے کیا فرق پڑے گا کیونکہ حکومت پاکستان کا روزانہ کا خرچ ہی ڈھائی سو ملین ڈالرز ہے۔ یہ وہی مفتاح صاحب ہیں جو میں نے ابھی بتایا‘ ڈھائی ارب ڈالرز کا قرضہ ساڑھے چھ فیصد سود پر لے کر آئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمارا تو روزانہ کا خرچ ہی ڈھائی سو ملین ڈالرز ہے۔
یہ ہیں پاکستان کے پالیسی میکرز جن کے پاس پاکستان کو ڈالروں سے بھر دینے کا ایک ہی حل ہے کہ قرضے لیتے رہو۔ اسحاق ڈار نے چار سالوں میں پینتیس ارب ڈالر قرضہ لیا تو اب مفتاح نے آتے ہی ڈھائی ارب ڈالر کا قرضہ لے لیا ہے۔ دوسری طرف ہماری سنجیدگی کا عالم دیکھیں کہ جہاں ہمیں امریکی دھمکیوں کا سامنا ہے ہم نے اس کے اگلے روز ہی بھارت کے ساتھ کلبھوشن کے معاملے پر نیا محاذ کھول لیا ہے۔ ایک اور ویڈیو ریلیز کی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب ہمیں بڑے خطرے کا سامنا ہے تو اس وقت ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو دوستی نہیں تو دشمنی کے لیول پر بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ سمجھدار لوگ ہوں یا ملک‘ وہ خطرات کو ایک ایک کر کے ڈیل کرتے ہیں۔ ایک ساتھ اتنے خطرات کو ہم نہیں سنبھال پائیں گے۔ میں اسلام آباد میں رہتے ہوئے اگر لاہور کے کسی بندے سے لڑ رہا ہوں تو کم از کم اپنے ہمسایوں سے تو تعلقات مناسب رکھوں تاکہ کل کو بے شک وہ میرے ساتھ مل کر نہ لڑیں‘ لیکن میرے دشمنوں کے ساتھ مل کر اینٹیں تو میرے گھر پر نہ پھینکیں۔
ملک چلانا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے۔ اس میں اپنی ذاتی انا اور غصہ نہیں دیکھا جاتا اور نہ بڑھکیں ماری جاتی ہیں۔ اس وقت آپ کے کندھوں پر بائیس کروڑ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے وہ فیصلے کرنے ہیں جو ملک کی سلامتی سے جڑے مفادات اور بائیس کروڑ لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرسکتے ہیں لہٰذا اس وقت ہوش کی ضرورت ہے نہ کہ بڑھکوں کی۔ 
چلتے چلتے پتہ نہیں کیوں ایک خیال آرہا ہے۔ سوچا آپ سے ہی پوچھ لیا جائے۔ آپ سب لوگ ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ ہے کوئی جو مجھے بتائے کہ اگر امریکہ نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف ، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، جنرل مشرف اور مصدق ملک کے بچے‘ جو امریکہ رہتے ہیں اور جنہوں نے امریکی آئین کے تحت امریکہ کا جان و مال سے دفاع کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے‘ وہ کس ملک کے دفاع کے لیے بندوق اٹھائیں گے۔ پاکستان یا امریکہ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں