اکثر مجھے سننا پڑتا ہے کہ آپ جن سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں‘ ان کو ذاتی طور پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؟
پاکستان میں سیاستدانوں پر تنقید کرنا مشکل کام ہے۔ آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا جہاں کی بھد آپ پر اڑائی جاتی ہے۔ لوگوں نے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو بادشاہ کا درجہ دے رکھا ہے جو کبھی غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔ غلطیاں وہ کرتے ہیں اور ان کا دفاع یا وجوہات یہ فالورز تلاش کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سے لے کر تحریک انصاف تک‘ یہ کلچر اب عام نظرآتا ہے۔ اگرچہ ان فالورز کا اکثر یہ گلہ رہتا ہے کہ بہت سے صحافی جو تنقید کرتے ہیں‘ اس کے پیچھے لیڈر کی بہتری کارفرما نہیں ہوتی بلکہ اس پارٹی کو گندا کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تاکہ ان کی اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی یا لیڈر کو دوسروں پر برتری ہو۔ ہم صحافیوں پر بھی کئی الزامات لگتے رہتے ہیں۔ یقینا ہم بھی نہ تو عقلِ کُل ہیں اور نہ ہی فرشتے۔
پاکستانی سیاسی ورکرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ان کے لیڈروں یا ان کی پالیسوں پر تنقید ہو رہی ہے تو اس میں ان کا ہی بھلا ہے۔ لیڈروں کو جواب دینے دیں۔ سوال و جواب کا عمل انہیں بہتر لیڈر شپ فراہم کرے گا اور لیڈرز بھی بہت ساری غلطیوں سے بچ پائیں گے۔ اگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو یہ احساس ہو کہ وہ جو چاہیں‘ کرگزریں، ان کا ووٹ بینک یا ان کا سیاسی و ذاتی امیج خراب نہیں ہو گا تو پھر تسلی رکھیں‘ وہ آپ کو کسی بہت بڑی مصیبت میں ڈالیں گے۔ ہم ایسے کئی لیڈروں کو بھگت چکے ہیں۔
جب بھی‘ میں اور عامر متین کسی پروگرام میں عمران خان پر تنقید کریں تو ان کے حامیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ آپ خود بنی گالہ جا کر خان صاحب کو مشورہ کیوں نہیں دیتے؟ جب لندن میں ارشد شریف اور میں رپورٹنگ کرتے تھے تو اکثر آکسفورڈ سٹریٹ پر واقع دفتر میں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ نواز شریف اُن دنوں ہر ایک کو عزت اور احترام سے ملتے تھے‘ میں اور ارشد شریف میاں برادران کے پسندیدہ صحافی تھے کیونکہ ہم فوجی حکومت کی پالیسوں کے شدید ناقد تھے اور یہ بات ان دونوں بھائیوں کو سوٹ کرتی تھی۔ ہم جو لکھتے تھے‘ وہ اپنے پروفیشنلزم کوسامنے رکھ کر لکھتے تھے نہ کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو خوش کرنے کے لیے۔ لیکن ہماری رپورٹنگ کا سارا فائدہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو ہوتا تھا، جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ صحافی ویسے بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ نواز شریف کا خوبصورت طریقۂ واردات ہے صحافیوں اور کالم نگاروں کو گھیرنے کا۔ وہ معصومیت سے صحافیوں سے پوچھیں گے کہ ''تسی دسو سانوں کی کرنا چاہیدا ایہہ‘‘۔ بس اس کے بعد وہ صحافی اور کالم نگار گھنٹوں میاں صاحب کو سیاست سمجھائیں گے، دنیا جہان کے مشورے دیں گے اور نواز شریف بھی ایسے ظاہر کریں گے کہ اس سے زیادہ سیانی گفتگو انہوں نے زندگی بھر نہیں سنی بلکہ بس چلے تو وہ خود سیاست چھوڑ کر اپنی کرسی اُس صحافی کو دے دیں جو انہیں گھنٹوں سے سمجھا رہا ہے کہ سیاست کیسے کرنی ہے۔ ہم صحافی اور کالم نگار‘ اکثر دیہات سے آئے ہیں یا لوئر مڈل بیک گرائونڈ رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے ایک سپاہی جان پہچان والا نکل آئے تو ہم پورے گائوں کو آگے لگا لیتے ہیں اور یہاں آپ سے وزیراعظم مشورہ مانگ رہا ہو تو پھر آپ خود سوچ لیں کہ ہمارا احساسِ برتری کہاں پہنچ جائے گا۔
ایک دفعہ لندن میں یہ طریقہ مجھ پر نواز شریف صاحب نے آزمانے کی کوشش کی۔ دفتر کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ بولے: آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں ہنس پڑا اور بولا: سر جی! میں رپورٹر ہوں، کیا سیاسی مشورے دے سکتا ہوں۔ وہ بولے: نہیں آپ بتائیں۔ میں نے کہا: سر جی! پہلی بات یہ ہے کہ میرا کام آپ لوگوں کے فیصلوں کو رپورٹ کرنا ہے، تنقید کرنا ہے یا اسے سراہنا ہے۔ اگر مشورے دینے لگ جائوں تو پھر کل کو میں اس فیصلے میں شریک ہوں گا جو آپ کریں گے، پھر میں آپ پر تنقید کیسے کر سکوں گا؟دوسرا یہ کہ جس بات کا مشورہ آپ لوگ مانگ رہے ہوتے ہیں، اس کی پوری بات اور بیک گرائونڈ آپ کبھی شیئر نہیں کرتے۔ آپ کا مقصد کوئی مشورہ لینا نہیں ہوتا، بس ہمارے جیسے لوئر مڈل کلاس کے صحافیوں اور کالم نگاروں کو اہمیت دینے کی اداکاری کرنا ہوتی ہے اور ہم بے قابو ہوکر ساری عمر آپ کے گیت گاتے ہیں۔ نواز شریف کی مہربانی پھر بھی بولے کہ کچھ تو بتائیں۔
ایک دفعہ یہی مشورہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم ہائوس بلا کر مانگا۔ پریس سیکرٹری اکرم شہیدی بھی موجود تھے۔ بولے: مشورے دیں۔ میں بولا: آپ نے عزت دی، مشورہ مانگا، لیکن اگر میں سیاسی طور پر اتنا قابل ہوتا تو آپ کی جگہ وزیراعظم ہوتا۔ راجہ پرویز اشرف نے خوبصورت جواب دیا کہ وزیراعظم بننے کا تعلق قابلیت سے زیادہ اللہ کی مہربانی اور قسمت پر ہے۔ ان کی بات پر لاجواب ہو کر میں نے انہیں تین باتیں بتائیں۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔ ایک ہفتے بعد انہوں نے وہ تینوں کام کیے جو میں نے کہے تھے کہ آپ کو وزیراعظم کے طورپر نہیں کرنے چاہئیں۔ میں مسکرا پڑا۔
اب تحریک انصاف کے فالورز کہتے ہیں کہ عمران خان پر تنقید نہ کریں، انہیں مشورہ دیا کریں۔ ان کے لیے یہی عرض ہے کہ دنیا میں کامیاب اور ہیرو ٹائپ لوگوں کو مشورے دینا بیوقوفی ہوتی ہے۔ عمران خان ہیرو رہے ہیں اور سیاسی طور پر کامیاب بھی۔ کامیاب لوگ اور ہیرو ٹائپ لوگ احتراماً آپ کا مشورہ سن بھی لیں گے لیکن عمل نہیں کریں گے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ آپ ان سے کم کامیاب ہیں، وہ آپ کے رول ماڈل ہو سکتے ہیں، آپ ان کے نہیں۔
ہمارے کالم نگار دوست ہارون الرشید سے زیادہ کس نے عمران خان بارے لکھا؟ اٹھارہ برس تک‘ اور مخالفتیں مول لے کر بھی پروموٹ کیا۔ کتنے شاندار مشورے انہوں نے لکھ کر دیئے، ذاتی ملاقاتوں میں دیئے۔ کیا ہوا؟ ایک الیکشن ٹکٹ تک ان کے مشورے پر نہ دی کہ فلاں جیت جائے گا۔ سب سیٹیں ہاریں۔ عمران خان نے مان لیا ان کا مشورہ؟ وجہ صاف تھی کہ عمران خان اپنے دوست ہارون الرشید کی عزت کرتے ہیں لیکن وہ ان کے مشوروں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیں گے کیونکہ وہ اب ایک کامیاب سیاستدان ہیں‘ جن کی لاکھوں میں فالوونگ ہے۔ ایک وقت تھا کہ عمران خان ہارون الرشید کو رات گئے ان کے گھر چھوڑنے جاتے تھے، جب ابھی سیاست میں جدوجہد کر رہے تھے اور اب ہارون الرشید نے خود چند دن پہلے لکھا کہ کئی دن تک ان کے فون کا جواب نہیں دیتے۔ یہ فرق ہوتا ہے جب آپ کامیاب ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے نعیم بھائی سے گائوں کے لوگ بہت مشورہ کرنے آتے تھے۔ ان کا انتظار ہوتا تھا کہ وہ کب بہاولپور سے آئیں اور مشورے کریں۔ بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد سب ان سے مشورے کرتے۔ میں نے نعیم بھائی سے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے۔ مجھ سے کوئی مشورہ نہیں مانگتا حالانکہ میں بھی خود کو بڑا سیانا سمجھتا ہوں۔ ہنس کر بولے: تمہارا سیانا پن ہی تمہارا دشمن ہے۔ تم واقعی سنجیدگی سے انہیں مشورہ دینے بیٹھ جاتے ہو۔ تو میں نے کہا: آپ بھی تو یہی کام کرتے ہیں۔ بولے‘ نہیں، بہت فرق ہے۔ جب تمہارے پاس کوئی آتا ہے تو تم کہتے ہو ایسے کرو‘ ویسے کرو۔ وہ چپ کر کے چلا جاتا ہے، جبکہ میں اس سے پوچھتا ہوں تم بتائو تمہارے ذہن میں کیا حل ہے؟ ہر انسان کے پاس اپنے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے۔ وہ آپ سے مشورہ کرنے نہیں آتا بلکہ وہ جو حل سوچ چکا ہوتا ہے‘ آپ سے اس کی حمایت چاہتا ہے۔ آپ سے سننا چاہتا ہے کہ وہی مسئلے کا حل ہے۔ میں مسئلہ سن کر اس بندے سے ہی حل پوچھتا ہوں اور وہ مجھے جھجکتے ہوئے بتاتا ہے، میں اس کے حل کی تعریف کر کے کہتا ہوں‘ بالکل یہی کرو۔ یوں اس کی خود اعتمادی بڑھتی ہے کہ اب تو ڈاکٹر نعیم نے بھی میری ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ آپ سیانے صحافی صاحب‘ اتنی آسان انسانی نفسیات بھی نہ سمجھ سکے۔
میں گائوں کے گھر میں بیٹھ کر ہکا بکا نعیم بھائی کو بیٹھا دیکھتا رہا اور وہ مسکراتے ہوئے کسی اور کو مشورہ دینے کے لئے اٹھ گئے اور میں نے اس دن کے بعد سے گائوں کا سیانا بن کر مشورہ دینے سے توبہ کر لی۔