چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بات ہی ایسی کہہ دی‘ یوں لگا‘ سیدھی دل پر لگی ہے۔ ہفتہ کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا: کیا ہم دھرتی ماں کا حق ادا کر رہے ہیں؟
کتنا بڑا سوال۔ کتنی گہری بات۔
کیا ماں صرف وہی ہوتی ہے جو آپ کو جنم دیتی ہے، دودھ پلاتی ہے یا زمین کا وہ ٹکڑا بھی آپ کے لیے ماں کی طرح ہوتا ہے جو کھیت سے کھلا پلا کر بڑا کرتا ہے۔
حیران ہوتا ہوں یہ سوچ کر کہ اگر انگریز اس دھرتی پر نہ آتے تو کیا ہوتا؟ ملا واحدی کی کتاب 'میرے زمانے کی دلی‘ پڑھیں‘ غالب کے دور کی دلی پڑھیں یا پھر ابھی میں نے ڈاکٹر عبارت بریلوی کی میر تقی میر پر لکھی گئی بائیوگرافی پڑھی ہے‘ تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ خطہ کیسا ہوتا تھا؟ میر تقی میر کے حالات پڑھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ہندوستان میں اتنی قتل و غارت‘ جنگ و جدل اور لوٹ مار ہو رہی تھی کہ جس کے پاس چند ہزار لوگوں کا جتھہ ہوتا‘ جن کے پاس کچھ تلواریں، کچھ گھوڑے یا بندوقیں یا پھر توپ خانہ ہوتا‘ وہ کہیں بھی جا گھستے۔ انسانوںکو مارتے، عورتوں‘ بچوں کو قتل کرتے، سب کچھ لوٹ لیتے، شہروں کو آگ لگا کر کسی اور انسانی بستی کا رخ کر لیتے‘ اور بے چارے لٹے پٹے لوگ بچوں سمیت پورے ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے دربدر ہو جاتے۔ بس ایک مسلح گروہ کافی ہوتا۔ انگریزوں نے بھی بربریت کی‘ لیکن جب وہ سیٹل ہوئے تو انہوں نے اس خطے میں کچھ ادارے بنانے شروع کیے۔ بادشاہوں کا خوف مقامیوں کے دلوں سے نکالا۔ انگریز اپنے ساتھ انصاف اور احتساب کے جدید ادارے لائے۔ سب کو قانون کے سامنے لا کھڑا کرنے کا نظام لائے۔ یہ خطہ کب اس بات کا عادی تھا کہ یہاں کوئی بادشاہ سے سوال کر سکے؟ ہندوستانی تاریخ میں کوئی شاعر‘ ادیب یا قلم کار نظر نہیں آتا جو ہزاروں برسوں میں اس وقت کی بادشاہت یا بادشاہوں کے خلاف لکھنے یا بولنے کی جرات کرتا۔ سینکڑوں سال پہلے امیر خسرو بادشاہوں کے دربار میں بیٹھ کر شاعری کر رہے تھے تو یہ کام بعد میں غالب، میر تقی میر، ذوق بھی کرتے رہے۔
آج کے پاکستان کے بادشاہوں نے اپنے اپنے درباری رکھ لیے ہیں‘ جو ہمیں روزانہ اخباری کالموں یا ٹی وی شوز میں بادشاہ کی عظمت کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ ان کا قصور نہیں‘ کیونکہ درباری کلچر ہندوستان میں ہمیشہ پاپولر رہا ہے۔ اس میں آپ اس دور کے ادیبوں یا شاعروں کو الزام بھی نہیں دے سکتے کیونکہ اگر آپ نے زندہ رہنا ہے، گھر چلانا ہے‘ معاشرے میں کچھ مقام حاصل کرنا ہے تو پھر آپ کو ہر دور کے بادشاہ کے دربار، دیوان یا جنگجو سے جڑا ہونا چاہیے‘ جو آپ کو ہر روز بخشش کے نام پر دان کر سکے۔
اس دور میں اگر کہیں مزاحمت ہوتی تھی تو وہ کچھ صوفی بزرگ کرتے تھے‘ جنہیں سزائیں بھی ملتی تھیں اور بڑی خوفناک۔ سلطنتِ دلی کے ایک ظالم بادشاہ نے ایک صوفی بزرگ کی صرف اس لیے کھال کھنچوا کر اس میں بھوسہ بھروا کر قاضی کی عدالت کے باہر لٹکا دیا تھا کہ اس نے یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ بادشاہ اکیلے ملزم کو سزا نہیں دیتا‘ بلکہ اس کے بیوی بچوں تک کو بھی مار ڈالتا ہے۔ قاضی نے پوچھا: آپ نے ایسا بولا۔ وہ بزرگ بولے: جی بولا۔ اگلے دن اس کی لاش اسی عدالت کے باہر بھوسے سے بھری لٹک رہی تھی۔
وہ صوفی اپنے دور کی طاقتور حکمرانوں کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہی اُس دور کا ٹی وی‘ اخبار یا میڈیا تھے‘ جہاں عام انسان کو تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ جہاں انہیں لگتا کہ ہندوستان کے بادشاہ سے بھی طاقتور لوگ اس دھرتی پر رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے جیسے اہل دانش اس وقت بھی دربار میں بیٹھ کر بادشاہوں کی عظمت کی کہانیاں لکھ رہے ہوتے تھے اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔
جتنی دفعہ یہ دھرتی ماں لوٹی گئی‘ شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ اتنی بار لٹا ہو۔ اس خطے کے لوگ تو لوٹ مار کے عادی ہیں‘ بلکہ لوٹ مار ان کی نفسیات میں ہے۔ پہلے بیرونی حملہ آور افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے آتے‘ یا اس سے بھی آگے یونان و عرب سے‘ اور سب کچھ لوٹ کر لے جاتے۔ وہ دھرتی ماں کو لوٹتے اور مائوں کی بیٹیوں کو بھی۔ بیٹوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جاتے۔ اس لیے اس خطے کے لوگوں کے لیے لوٹ مار کوئی ایسی چیز نہیں‘ جس پر رولا ڈالا جائے۔
ہر روز دلی اجڑتی تھی۔ لہو کا ایک دریا بہتا۔ لٹیرا لوٹ کر مالِ غنیمت اونٹوں اور ہاتھیوں پر لاد کر سرحد عبور کر جاتا۔ اگلے روز پتہ چلتا ہے ایک اور لٹیرا ملتان، لہور اور دلی کے مضافات میں پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ وہ لوٹ کر نکلتا‘ تو ایک اور حملہ آور پانی پت پہنچ جاتا۔ دلی لٹتی رہی ‘ بار بار لٹتی رہی اور آباد ہوتی رہی۔
ہندو کہتے ہیں‘ مسلمان حکمرانوں نے انہیں ٹارگٹ کرکے مارا‘ ان پر ظلم کیے۔ ہندو بھول جاتے ہیں کہ ایران سے آئے ظالم حملہ آور نادر شاہ نے جو دلی کی گلیاں لہو سے بھر دی تھیں وہ سب مسلمانوں کا لہو تھا۔ بابر اور ابراہیم لودھی جب جنگ لڑ رہے تھے تو دونوں اطراف مسلمان تھے۔ لوٹ مار اور لہو بہانے میں ان لٹیروں نے مسلمان‘ ہندو کا فرق نہیں کیا۔ انگریزوں نے لوٹ مار کے لیے جدید طریقے اپنائے تاکہ دور دراز کے علاقوں سے ہندوستان کا مال برطانیہ پہنچانے کے لیے آسانی رہے‘ جہاں صنعتی انقلاب انگڑائیاں لے رہا تھا۔ جہاں ریلوے سے لے کر سڑکیں‘ جہاز، بندرگاہیں بنائی جا رہی تھیں۔ ادھر ہم نے کب کا لوٹ مار کو دل سے تسلیم کر رکھا ہے۔
اسی لیے آج کے پاکستان کے بادشاہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ پاکستانیوں کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ گستاخ کون ہوتے ہیں‘ حساب کتاب مانگنے والے۔ یہ تو صدیوں سے لٹتے چلے آئے ہیں۔ ہم نے کچھ لوٹ لیا تو اتنا شور کیوں؟ یہ خطہ تو صدیوں سے سونے کی چڑیا ہے‘ جسے دنیا بھر کے حملہ آوروں نے رج کے لوٹا۔ خدا نے اس خطے کو اتنا کچھ دے رکھا ہے کہ ہزاروں سال کی لوٹ مار کے بعد بھی یہ دھرتی ماں کروڑوں انسانوں کو پال رہی ہے۔ اس دھرتی سے سکندر سے لے کر تیمور، غزنوی، نادر شاہ، انگریزوں تک سب نے اپنا اپنا حصہ لیا اور پھر بھی دھرتی ماں کی گود خالی نہ ہوئی۔ اس دھرتی ماں کی ہری بھری گود میں پھر بھی کچھ نہ کچھ بچا رہا۔
حملہ آوروں نے جہاں اس دھرتی کو لوٹا‘ وہیں اس کو بہتر شکل دینے میں بھی ان کا رول تھا۔ حملہ آور فوجیں جہاں اپنے ساتھ بربادی لاتی ہیں‘ غلامی لاتی ہیں‘ وہیں وہ اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی اور رہن سہن کے نئے طور طریقے بھی لاتی ہیں‘ کیونکہ اس ٹیکنالوجی، مہارت اور قابلیت کی مدد سے ہی وہ کسی خطے کو فتح کرتی ہیں۔ حملہ آوروں کے ساتھ آئے ہوئے لوگ جب یہاں رچ بس گئے تو انہوں نے ہندوستان کو ایک نیا رنگ دیا۔ نئی سوچ اورنئے طور طریقوں نے پرانے اور قدیم رسوم و رواج کو چیلنج کیا‘ جس سے ہندوستان آگے بڑھا۔ وہی ہندوستان‘ جسے بیرونی حملہ تاراج کرتے رہے‘ لیکن اب اس خطے پر حملے کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس میں کچھ کمال ان بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کا بھی ہے‘ جنہوں نے اس دھرتی کو اپنا سمجھا اور اس کے لیے خون بھی بہایا۔ کسی بھی خطے کی ترقی میں‘ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ امریکہ کو امریکہ دنیا بھر سے گئے ہوئے تارکین وطن نے بنایا ہے‘ جو اپنے ساتھ ہنر، تعلیم اور قابلیت لے کر گئے اور اسے بدل کر رکھ دیا۔
سوال یہ ہے‘ کیا فرق پڑا؟ لوٹ مار تو آج بھی جاری ہے۔ بس شکلیں بدل گئی ہیں۔ یونان، سینٹرل ایشیا اور افغانستان سے آئے حملہ آور مقامیوں کو غلام بنانے کے بعد ان سے لوٹا ہوا مال اونٹوں اور ہاتھیوں پر لے جاتے تھے۔ انگریز سمجھدار تھے۔ اونٹ اور ہاتھی مال لے کر نہیں جا سکتے تھے‘ کیونکہ راستے میں سات سمندر پڑتے ہیں‘ لہٰذا انہوں نے ریلوے‘ بندرگاہیں اور بحری جہاز استعمال کیے‘ جبکہ ہمارے آج کے پاکستان کے بادشاہ اور لٹیرے ان سب سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔ اب لٹیرے بادشاہ اس کام کے لیے منی لانڈرنگ اور بینک استعمال کرتے ہیں یا پھر ایان علی کو۔ لوٹ مار کا پیسہ پہلے بھی باہر جاتا تھا۔ اب بھی باہر جا رہا ہے۔
اس دھرتی ماں کو لوٹ کر اس کا پیسہ باہر بھیجنے کے طریقے بدلے ہیں‘ ورنہ ہماری یہ دھرتی ماں غالب، ذوق، میرتقی میر کی بد نصیب دلی کی طرح ہزاروں سال سے لٹتی رہی ہے اور لٹتی رہے گی۔ اور میرے جیسے درباری اور طبلچی ان شاہی لٹیروں کی شان میں اسی طرح قصیدے لکھتے رہیں گے!!