عرصہ ہوا ٹائمز میگزین میں ایک مضمون پڑھا تھا‘ بڑے اور مشہور لوگوں کے سکینڈلز کیوں بنتے ہیں اور وہ کیونکر پکڑے جاتے ہیں؟
جہاں آپ کا مشہور ہونا آپ کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے وہیں آپ کا کامیاب انسان ہونا بھی سکینڈلز سامنے لانے میں مدد کرتا ہے۔ ہر کوئی آپ کو جانتا ہے اور آپ کسی کو نہیں جانتے۔ آپ کی ایک ایک بات نوٹ کی جا رہی ہوتی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ آپ کی طرح بنے اور جب وہ نہیں بن پاتا تو پھر وہ آپ کو نیچے گرتا دیکھ کر سکون محسوس کرتا ہے اور آپ کے سکینڈلز سے اسے احساس ہوتا ہے کہ جتنا بڑا وہ بنتا تھا‘ وہ تھا نہیں۔ لوگوں کو بڑی تسلی ہوتی ہے کہ بڑا بنتا تھا‘ ہمارے جیسا ہی چھوٹا نکلا۔
بڑا اور کامیاب انسان ایک مرحلے پر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے‘ جو اس کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے جہاں بھی ہاتھ ڈالا‘ کامیابی نے قدم چومے، مٹی کو سونا بنا دیا۔ اس کی کامیابیوں کی فہرست اتنی طویل ہوتی چلی جاتی ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ کامیاب انسان بہت کم دوسروں کی بات سنے گا۔ سنے گا تو بھی کرے گا اپنی مرضی‘ کیونکہ اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے مشورہ دینے والے اتنے ہی قابل ہوتے تو آج اس کی جگہ بیٹھے ہوتے۔ یوں کامیاب انسان ان خطرات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتا ہے جو اسے دھیرے دھیرے اپنے گھیرے میں لے رہے ہوتے ہیں۔ دراصل سکینڈلز اس وقت آتے ہیں جب آپ احتیاط کا دامن تھامنا ترک کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ بھی اب کامیابیوں کی طرف چل پڑی ہے۔ وہ اب مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتی ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ عمران خان کے اقتدار کی طرف جاتے سب راستے کلیئر ہو رہے ہیں۔ ان کے سیاسی دشمن ایک ایک کرکے شکست خوردہ ہو رہے ہیں۔ سب سیاست سے نہ صرف آئوٹ ہو رہے ہیں بلکہ بدنام بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف‘ برطرف ہوئے ہیں اور ان پر مقدمات بھی چل رہے ہیں‘ جہاں سے ان کو متوقع طور پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ان کی بیٹی، داماد، بیٹوں اور سمدھی کو بھی جیل ہو سکتی ہے۔ اب اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ نواز شریف کے نورتن تھے‘ جو ہر وقت ان پر تبرا کرتے رہتے تھے انہیں بھی عدالت نے توہینِ عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ نہال ہاشمی کے بعد لگتا ہے کہ اب ان سب کو سزا ہو گی کیونکہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کو بچانا مشکل ہو گا؛ تاہم وہ بچ بھی گئے تو ان کا زہر نکل چکا ہوگا۔ شاید عمران خان کو بھی یہ یقین دلایا گیا کہ قسمت ان کے ساتھ ہے اور وہ انہیں پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے‘ ورنہ دیکھ لیں کہ نواز شریف کے ساتھ سب کچھ اچھا چل رہا تھا، وہ مزے سے دنیا بھر کی سیریں کر رہے تھے‘ آٹھ آٹھ ماہ وہ پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے‘ چھ چھ ماہ تک کیبنٹ کا اجلاس نہ بلایا۔ عمران خان کا 2014ء کا دھرنا بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا تھا۔ عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد کی گلیوں میں ٹکریں مار کر لاہور اور بنی گالہ لوٹ گئے۔ زرداری صاحب نے بھی بڑھک ماری تھی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ مگر انہیں بھی پاکستان سے بھاگنا پڑ گیا تھا۔ یوں نواز شریف کے سب سیاسی دشمن بیٹھے اپنے اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ نواز شریف کی زندگی بڑے سکون اور آرام سے گزر رہی تھی‘ اچانک آسمان سے پاناما ٹپک پڑا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک سال کے اندر نواز شریف خاندان کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ وہ عرش سے فرش پر آن گریں گے اور جہاں چند لوگ دیکھیں گے‘ وہاں صدا لگانا شروع کر دیں گے کہ مجھے کیوں نکالا۔ ملک کا وزیراعظم جو پارلیمنٹ تک نہیں جاتا تھا‘ اب نیب عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ سب مانتے ہیں یہ تقدیر کا کیا دھرا تھا ورنہ عمران خان، طاہر القادری اور زداری صاحب کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ نواز شریف سے ٹکر لے سکتے۔ اب سب کہہ رہے تھے کہ اگلا الیکشن نواز شریف نہیں جیت پائیں گے کیونکہ وہ خود سیاست سے آئوٹ ہو چکے ہیں اور ان کے بچوں کو سزائیں ملنے والی ہیں۔ شہباز شریف کی ٹیم پر بھی کرپشن کے بہت سنگین الزامات لگ چکے ہیں لہٰذا لگ رہا تھا کہ سب کھیل عمران خان کے حق میں جا رہا ہے۔ وہ بھی جی بھر کر سیاسی کچرا پارٹی میں لا رہے تھے کہ بس اب چند ماہ کی بات ہے اور پھر سب کچھ اپنا ہو گا۔ اچانک درمیان میں جہانگیر ترین نااہل ہوئے اور ساتھ ہی وہ لودھراں کا ضمنی الیکشن ہار گئے۔ وہ الیکشن کہ جس کا سب کو یقین تھا کہ علی ترین جیت جائے گا۔ میڈیا میں شاید ہی کسی کو علی ترین کے مدمقابل کے نام کا بھی پتا ہو۔ پھر بھی اس نے چھبیس ہزار ووٹوں سے علی ترین کو شکست دی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں یا پھر ان لیڈرز کے ساتھ کچھ پرابلم ہے؟ الزام تو عوام پر بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دیکھیں انہوں نے سپریم کورٹ سے برطرف اور نااہل ہونے والے شخص کی پارٹی کو جتوا دیا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں اخلاقیات اور کرپشن کوئی اہم ایشوز نہیں ہیں۔اگر لیڈرز کرپٹ ہیں تو عوام کون سے فرشتہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی غلطلیاں ماننے کو تیار ہوں گے یا پھر وہ ابھی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگلا الیکشن ان کا ہے‘ جیسا کہ ان کے تازہ ٹویٹ سے لگ رہا ہے؟ کیا عمران خان کو احساس ہو گا کہ ضروری نہیں جس کی جیب میں دو تین ارب روپے ہوں‘ وہ الیکشن جیت سکتا ہے؟ تو کیا الیکٹ ایبلز ہی الیکشن جیت سکتے ہیں؟ جہانگیر ترین کے بیٹے سے بڑا الیکٹ ایبلز اور کون ہو گا؟ تو پھر کہاں غلطیاں ہوئی ہیں؟
جو بات عمران خان کو سمجھ نہیں آئے گی وہ یہ ہے کہ لوگ میدان میں اترے بندے کو اس کے مدمقابل کے ترازو میں پرکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس دنگل میں کس کو اور کیوں سپورٹ کرنا ہے۔ لوگ جب کسی کو سر پر بٹھاتے ہیں تو یقینا وہ دیکھتے ہوں گے کہ جس بندے نے ان کی زندگیوں کے فیصلے کرنے ہیں‘ اسے اپنے مخالف پر سیاسی، اخلاقی اور مالی طور پر کیا برتری ہے؟ عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین پر بہت سارے ایجز تھے‘ اس لیے وہ 2013ء میں اسّی لاکھ ووٹ لے گئے تھے۔ جب وہ لوگوں کو بتاتے تھے کہ وہ نواز شریف اور زرداری کی طرح کرپٹ نہیں ہیں، ان کی بیرون ملک جائیدادیں نہیں، انہوں نے بینک نہیں لوٹے، انہوں نے سیاسی لوٹوں کو اپنی پارٹی میں جگہ نہیں دی تو لوگ مانتے تھے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں‘ سچ کہہ رہے ہیں۔
کیا آج عمران خان یہ سب باتیں دہرا سکتے ہیں؟ اگر انہوں نے خود قرضے معاف نہیں کرائے تو کیا ان کی پارٹی میں ایسے لوگ نہیں جنہوں نے قرضے معاف کروا رکھے ہیں؟ کیا پارٹی میں اب نیب زدہ لوگ نہیں یا ان کے پاس سیاسی لوٹے نہیں یا انہوں نے ذاتی زندگی کے حوالے سے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولے؟ عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ ایک ایک کرکے وہ سب ایجز لوز کرگئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کے گرد اکٹھے ہوئے تھے اور انہیں لگنے لگا تھا کہ اب عمران خان ہی ان کی امید ہیں۔ عمران خان نے ان کی امیدوں کے ساتھ کیا کیا؟ عمران خان کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان کی ذاتی زندگی‘ ان کی پارٹی اور سیاست کو متاثر کرے گی۔ یہاں کوئی بھی آپ کی زندگی کو ذاتی قرار دے کر چپ نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت ایسے فیصلے کیے‘ جس سے ان کی پارٹی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی۔ ان کے حامی ان کی سیاسی حمایت کرنے کی بجائے‘ ہر وقت ان کی ذاتی زندگی کا دفاع کرتے پائے جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنے اردگرد ارب پتی اکٹھے کر لیے تو لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ عمران خان بھی شاید اسی سیاسی ایلیٹ کا حصہ بن گیا ہے‘ جس کے خلاف وہ کبھی جھنڈا لے کر باہر نکلا تھا۔ اگر نواز شریف پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے تو عمران خان بھی نہیں جاتے۔
عمران خان کا قصور نہیں۔ تاریخ میں ہر بڑا اور کامیاب انسان ایک نہ ایک دن اسی خوداعتمادی کے ہاتھوں مارا جاتا ہے‘ جو کبھی اُس کی کامیابی کی وجہ بنی ہوتی ہے۔ یہ خود اعتمادی بھی عجیب رنگ دکھاتی ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ تلوار کا مناسب استعمال کریں تو دشمن کو کاٹ دے ورنہ خود آپ کو۔ کبھی آپ اس خود اعتمادی کے سہارے آسمان چھو لیتے ہیں تو کبھی یہ تھوڑا سا توازن بگڑنے پر آپ کو عرش سے فرش پر پٹخ دیتی ہے۔