سوچتا ہوں اس ملک میں غریب طبقات کے ساتھ کھڑا ہونا یا ان کے لیے بات کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ آپ طاقتور طبقات کے خلاف سٹینڈ لے لیں تو پھر دیکھیں کیسے آپ پر سب پل پڑتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ جن محروم طبقات کے مفادات اور تحفظ کے لیے لوگ سٹینڈ لیتے ہیں‘ ان طبقات کی ہمدردیاں بھی انہی ظالموں کے ساتھ ہوتی ہیں جو ان کو لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنا رہے ہوتے ہیں۔
میں نے بیورو کریسی، عدالت اور صحافت تک میں دیکھا ہے‘ جن افسران، ججوں یا صحافیوں نے عام لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کی‘ وہ انہی طبقات کی تنقید کا شکار ہوئے ہیں جن کی جنگ وہ لڑ رہے تھے۔ کئی بیورو کریٹس نے عوام کا ساتھ دینے کی کوشش کی اور انہیں نشانۂ عبرت بنا دیا گیا لیکن عوام ان کے لیے کھڑے نہیں ہوئے۔ میں نے اپنی زندگی میں اگر کسی بیورو کریٹ کو عوام کے لیے لڑتے اور سزائیں بھگتتے دیکھا ہے تو وہ ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ کمال انسان اور اس سے بھی بڑے فائٹر۔ نواز شریف ہوں یا جنرل مشرف‘ سب سے ٹکرائے اور سزائیں بھگتیں۔ آخری عمر میں وہ حکومتِ پنجاب کے عتاب کا شکار ہوئے۔ گستاخی یہ کر بیٹھے کہ شریف بچوں نے دودھ‘ دہی اور انڈوں کا کاروبار کرنا تھا اور راستے سے ادارہ کسان کو ہٹانا ضروری تھا جس کے ڈاکٹر ظفرالطاف آنریری چیئرمین تھے۔ چھبیس ہزار افراد سے روزانہ دودھ لے کر‘ لاہور میں پراسیس کر کے سستے داموں بیچا جاتا تھا۔ جب مہنگے برانڈ ایک سو بیس روپے لٹر دودھ بیچتے تھے‘ ہلہ فریش دودھ پچاس روپے میں بکا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب آخری عمر میں اینٹی کرپشن لاہور میں پیشیاں بھگتتے رہے۔ شریفوں کیساتھ ٹکر لینے کا کچھ صلہ تو ملنا تھا۔ جب فوت ہوئے تو ضمانت پر تھے۔ جرم‘ عوام اور عام انسانوں کے لیے لڑنا تھا۔
ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی یاد آتے ہیں۔ کبھی اس نوجوان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن کیا کمال کا کام کیا۔ انسان پر نام بھی اثر رکھتے ہیں۔ تختِ لاہور سے حکم جاری ہوا کہ فوراً عالم داد لالیکا کے ڈیرے پر جا کر کھانا کھائو‘ اسے منائو‘ کل اس کے ڈیرے پر پولیس نے ملزمان گرفتار کرنے کے لیے چھاپہ مارا تھا۔ حکم وزیراعظم (اب سابق) نواز شریف نے جاری کیا تھا۔ ایم این اے نے جا کر شکایت کی تھی۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے آپشن دیا کہ تین گھنٹوں میں ڈیرے پر جا کر کھانا کھائو یا پھر صوبہ بدر ہونے کے لیے تیار رہو۔ نوجوان افسر نے عزت کا راستہ چنا اور عہدہ چھوڑ دیا۔مشتاق سکھیراصاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد محتسب لگا دیا گیا کہ جائو اس عوام کو انصاف دو جو تمہارے دور میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہو رہے تھے۔
محمد علی نیکو کارا جو ہارورڈ سے پڑھ کر آئے تھے‘ کو بھی عبرت کا نشان بنا دیا گیا جب انہوں نے بچوں اور عورتوں پر گولیاں چلانے سے انکار کیا۔ نوکری سے برطرف ہوئے‘ انکوائری فارن سیکرٹری اعزاز چوہدری نے کی‘ جو فارن آفس کی بیگمات کی این جی او کے پلاٹ سکینڈل میں مرکزی کردار تھے۔ ایک اچھے پولیس افسر کو برطرف کر دیا گیا۔ اس انکوائری کے عوض اعزاز چوہدری صاحب کو امریکہ میں سفیر لگا دیا گیا۔ سب خاموش رہے۔ کوئی نوجوان پولیس افسر کے لیے کھڑا نہ ہوا۔ عدالتوں سے بھی مدد نہ ملی۔ قصور‘ اسلام آباد دھرنے میں بچوں اور عورتوں پر گولیاں کیوں نہ چلائیں۔ آفتاب چیمہ جو آئی جی اسلام آباد تھے‘ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ قصور‘ یہ کیوں کہا کہ پولیس کو مجمع ہینڈل کرنے دیں۔طارق کھوسہ سے لے کر میر زبیر محمود تک کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جنہوں نے حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی بجائے اصولوں اور عزت پر نوکری کی۔
اس کے برعکس جن افسران نے طاقتور لوگوں کا ساتھ دیا انہوں نے انعام پائے۔ آج چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے ساتھی ججوں پر فارن کوالیفائڈ اور پڑھی لکھی ایلیٹ تبرے پڑھ رہی ہے کیونکہ وہ طاقتوروں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔ یہ پڑھی لکھی ایلیٹ اور کرائے کے لبرلز خود ایک بڑا مافیا بن چکے ہیں۔ اب کرائے کے لبرلز مافیا کو حکومت میں بیٹھے مافیاز ہی سوٹ کرتے ہیں۔ یہ ایلیٹ ڈر گئی ہے‘ انہیں خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ اگر عام انسان اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہوا تو ان کی جائیدادیں اور لوٹ مار خطرے میں ہے۔ ہمیں سوٹ کرتا ہے کہ ہم سب مل کر غریب اور کچلے ہوئے طبقات کا استحصال کرتے رہیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہوں یا موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ یہ انہیں چبھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے قابو نہیں آ رہے۔ ایک اور اعتراض جڑ دیا جاتا ہے کہ یہ جج پہلے تو ایسے نہ تھے۔ مطلب اعتراض اس پر ہے کہ اب کیوں ایسے ہو گئے ہیں‘ وہ کیوں بدل گئے ہیں۔ جب عدالتیں چودہ چودہ سال تک شریف خاندان کو چار ارب روپے بینک قرضے کی ادائیگی کے خلاف سٹے دیا کرتی تھیں تو وہ ٹھیک تھیں لیکن اگر وہ اب کوئی سوال و جواب کرنا شروع کر دیں تو بری بن جاتی ہیں۔ یہی چیف جسٹس ثاقب نثار اگر اورنج لائن ٹرین پر حکومت کے حق میں فیصلہ دیں، یا لاہور درختوں کی کٹائی کی اجازت دیں یا پھر تلور کے شکار پر بین کو ختم کر دیں تو اچھے ہیں لیکن اگر وہ چیف جسٹس بن کر ان کی نالائقیاں ایکسپوز کریں تو وہ برے بن جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں، آصف سعید کھوسہ جیسے جج ہوں، ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے بیوروکریٹ ہوں یا طارق کھوسہ، میر زبیر محمود، محمد علی نیکوکارا، شارق کمال اور آفتاب چیمہ جیسے پولیس افسران‘ یہ ایسا مشکل راستہ کیوں چنتے ہیں جو انہیں حکمرانوں کے عذاب کا شکار کرتا ہے؟ پنجاب کمپنی سکینڈل اس بات کا ثبوت ہے کہ بیورو کریٹس اگر کرپٹ حکومت کا ساتھ دیں گے‘ انہیں لوٹ مار میں مدد دیں گے تو جواباً بہت کچھ ملے گا۔ پنجاب میں کمپنیاں اسی لیے بنائی گئی تھیں کہ بیورو کریٹس‘ جو لوٹ مار میں شریک تھے‘ کو اربوں روپے کے فنڈز دے کر وفاداری کا انعام دیا جائے۔ اس وقت راشد لنگڑیال ہوں،کیپٹن عثمان ہوں یا احد چیمہ‘ یہ سب کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ ان کمپنیوں کے سربراہ لگنے سے پہلے ان کی تنخواہیں ستر‘ اسی ہزار تھیں، آج یہ سب پندرہ بیس لاکھ روپے ماہوار لے رہے ہیں۔ اب آشیانہ سکیم سکینڈل سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان بیورو کریٹس کو کیوں نوازا گیا تھا۔ پہلے احد چیمہ تو اب فواد حسن فواد کو نیب نے بلایا ہے۔
اس طرح ہم نے صحافت میں دیکھا ہے۔ آپ طاقتور حکمرانوں کے کاسہ لیس بن جائیں۔ ان کے دربار کے درباری لگ جائیں۔ ان کے ہر غلط درست کام کی حمایت کریں، جواز ڈھونڈیں تو آپ کامیاب ہیں۔ آپ کا کام یہ ہے کہ صبح شام طبلہ پیٹا جائے اور حکومت مخالفین کا ناطقہ بند کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر آپ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کریں گے تو آپ کا جینا حرام کر دیا جائے گا۔ اب کالم نگار اور صحافی بھی سیاسی کھلاڑی بن گئے ہیں۔ دربار سجتا ہے‘ جس میں میرے جیسے سب درباری اکٹھے ہوتے ہیں اور بادشاہ سلامت کو مشورے دیئے جاتے ہیں۔ شام کو ان مشوروں کا ٹی وی چینلز پر دفاع کیا جاتا ہے۔ میرے جیسے دیہاتی اور لوئر مڈل سے آئے صحافی اور کالم نگار اس پر خوش رہتے ہیں کہ ہمارا مشورہ سن لیا گیا، ہماری بات کو اہمیت دی گئی حالانکہ ہماری تو گھر میں کوئی نہیں سنتا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کو یقینا مشکلات درپیش ہوں گی کیونکہ یہ سب طبقات جنہوں نے اس نظام سے فائدہ اٹھایا ہے‘ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اسے الٹ دیا جائے۔ ان کی دیہاڑیاں ختم ہوں۔ یہ مشکل کام ہے جو چیف جسٹس کر رہے ہیں۔ آسان کام وہی ہے‘ جو بادشاہ کے دربار میں درباری کرتے ہیں!
ان پاکستان میڈ بنارسی ٹھگوں کو داد دیں کہ جو عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ان کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت کو لوٹ کر لندن، دبئی سمیت دنیا کے پانچ براعظموں میں بچوں کے نام پر جائیدادیں بنانا خود اس ملک، جمہوریت اور ان پڑھ عوام اور ان کی غلام نسلوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔ عوام بھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کا لٹنا ہی اس ملک کے مفاد میں ہے۔ مجھے اس پر غصہ کے ساتھ حیرانی بھی ہوتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ عوام لٹ کر بھی ان لٹیروں کی دیوانے ہیں۔ ان لٹیروں، ٹھگوں اور لٹنے والوں کا تو صدیوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پھرحیرانی کس بات کی؟ اب تو ہمارا وہی حال ہے‘ بقول رازؔ الٰہ آبادی:
آشیاں جل گیا‘ گلستاں لٹ گیا‘ ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے‘ اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے