شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے‘ خدا بخش قصائی کی بوڑھی بیوی کو مجھے پہچاننے میں کچھ مشکل پیش آئی۔ جونہی اس نے پہچانا‘ مجھ سے لپٹ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔ خدا بخش قصائی کا جوان بیٹا کچھ دن پہلے فوت ہو گیا تھا۔ میں کافی دیر اسے گلے لگا کر کھڑا رہا۔ چچا خدا بخش قصائی سے میری یادوں کا سلسلہ بہت پرانا تھا۔ شاید اتنا پرانا جتنا میرا شعور۔ ہوش سنبھالا تو بابا کے ساتھ کھیتوں پر جانا شروع کیا اور سب سے پہلے انہیں دیکھا۔ میں چھوٹا تھا تو بابا مجھے خدا بخش قصائی کے گھر چھوڑ دیتے‘ جہاں میں ان کے بچوں کے ساتھ شام تک کھیلتا رہتا اور دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھا کر سو جاتا۔ شام کو بھینس اور گائے کا دودھ دوھ کر بابا مجھے بھی گھر واپس لے جاتے۔ بابا کے ساتھ سب زمینیں خدا بخش قصائی نے ہی آباد کرائیں اور برسوں وہ بابا ساتھ کام کرتے رہے۔ جب بابا 1984ء میں فوت ہوئے اور اماں نے زمینیں سنبھال کر خود کاشت کاری شروع کی تو بھی خدا بخش قصائی ساتھ رہے۔ پھر اماں فوت ہو گئیں تو ہم سب پڑھنے باہر نکل گئے۔ پیچھے کوئی نہ تھا جو زمینیں سنبھالتا۔ زمینیں ٹھیکہ پر دے دیں۔ کچھ ایک بھائی نے خود کاشت کرنا شروع کر دیں۔ میں ان تمام باتوں سے بے نیاز زندگی میں اپنی جگہ بنانے کے چکر میں اتنا مصروف رہا کہ گائوں جانا بہت کم ہو گیا۔
نعیم بھائی کی اچانک موت نے مجھے ان معاملات کو دوبارہ دیکھنے پر مجبور کر دیا جن سے میں ہمیشہ دور رہتا تھا۔ میںاتنا سوشل نہیں تھا۔ نعیم بھائی نے سب سے تعلق برقرار رکھا ہوا تھا۔ وہ تمام قصائیوں سے ملنے جاتے۔ بابا کے تمام تعلق دار اور پرانے دوست‘ سب سے نعیم کا رابطہ تھا۔ ان کے دکھ سکھ میں وہ شریک ہوتے۔ نعیم بھائی کے بعد مجھے احساس ہوا کہ پرانے تعلقات اور رشتوں کا بوجھ اب مجھے اٹھانا ہو گا۔
بڑے عرصے بعد عید کے دن‘ چچا خدا بخش قصائی مجھ سے ملنے آئے۔ برسوں بعد میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ انہی کے کندھوں پر سوار ہو کر سکول جاتا تھا۔ وہ بابا کے بہت لاڈلے ملازم تھے۔ اماں بعض اوقات جل کر بابا سے کہتیں کہ یہ تمہارا خدا بخش تو میری سوکن ہے‘ اس کی بات مجھ سے زیادہ مانی جاتی ہے۔ خدا بخش پہ بڑھاپے کے اثرات نمایاں تھے۔ عزت سے انہیں بٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ ایک ریڑھی لے کر نکلتا ہوں‘ اڈہ حافظ آباد سے لکڑیاں لیتا ہوں اور گائوں گائوں جا کر بیچتا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ لنگڑا کر چل رہے ہیں۔ ٹانگ پر چوٹ لگی تھی جو ٹھیک نہ ہو سکی۔
''اس عمر میں بھی آپ مزدوری کر رہے ہیں؟‘‘ مجھے شرمندگی ہوئی کہ شاید ہم نے اماں بابا کے بعد ان کا خیال نہیں رکھا۔ نعیم تھا تو وہ ان سب کا خیال رکھتا تھا‘ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے: میں تم سے ایک مدد لینے آیا ہوں۔ میں نے کہا: جی بتائیں۔ بولے: مجھے دو کنال زمین دے دو‘ جہاں میں اپنے جانوروں کے لیے چارہ کاشت کر سکوں۔ میرے حصے کی خاندانی زمین خدا بخش کے گھر کے قریب ہے۔ میں مسکرایا اور کہا: سب پر آپ کا حق ہے‘ لے لیں۔ بولے: نہیں‘ صرف دو کنال مجھے دے دو جس پر میں چارہ کاشت کروں گا۔ میں نے کہا: آپ کو اپریل سے مل جائے گی۔ اس دفعہ ٹھیکیدار کو کہہ دوں گا کہ دو کنال وہ آپ کو دیدے۔
اگلی دفعہ گیا تو خدا بخش قصائی پھر مجھ سے ملنے آئے۔ بولے: پھر مدد چاہیے۔ میں نے کہا: جی بتائیں۔ بولے: میرے بڑے بیٹے کے گردے فیل ہوگئے ہیں‘ وہی جو بچپن میں تمہارے ساتھ کھیلتا تھا‘ لاہور میں کسی سے بات ہو رہی ہے‘ وہ گردہ تبدیل کر دیں گے‘ آٹھ لاکھ روپے کا خرچہ ہے‘ میں اپنے جانور بیچ چکا ہوں‘ کل ملا کر پانچ لاکھ ہوئے ہیں‘ تین لاکھ کم ہیں‘ خاندان میں ہی ایک عزیز کا گردہ میچ ہوا ہے‘ وہ بھی گردے کے پیسے مانگ رہا ہے‘ اسے بھی پیسے دینے ہیں‘ اب میں کہاں سے اتنے پیسے لائوں؟ تمہاری چچی نے کہا: رئوف سے جا کر بات کرو‘ وہ تو ہمارے ہی گھر پل کر بڑا ہوا ہے۔ اب ہمارا جوان بیٹا موت کی دہلیز پر ہے تو وہ ہمارا ساتھ دے۔ میں چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا۔
چچا خدا بخش کہنے لگے‘ اس کی دو چھوٹی سی بیٹیاں ہیں۔ دونوں کو دیکھتا ہوں تو سینے میں ایک درد سا اٹھتا ہے کہ اگر بیٹے کو کچھ ہوگیا تو یہ یتیم بچیاں کیسے ساری عمر باپ کے بغیر گزاریں گی۔ تم میری مدد کرو‘ جہاں سے بھی ہو‘ تم تین لاکھ روپیہ دو۔ ایک لمحے کے لیے کئی اچھے انسان میری نظروں میں سے گزر گئے جو مدد کر سکتے تھے۔ سب سے زیادہ جارجیا امریکہ سے اعجاز بھائی‘ جو میرے کہنے پر پہلے بھی کئی غریبوں کی مدد کر چکے تھے۔ پھر میں نے سوچا نہیں۔ چچا خدا بخش قصائی کا مجھ پر قرض ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ تم اپنی تنخواہ سے دو اور ڈیڑھ لاکھ روپے میں نے دیے‘ یوں تین لاکھ روپے چچا خدا بخش کو دیئے کہ جائیں بیٹے کا علاج کرائیں۔
خدا بخش قصائی اپنے بیٹے کو لاہور لایا۔ پتا چلا جلدی باری نہیں آئے گی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ابھی لے جائو‘ باری آئے گی تو فون کر دیں گے۔ میں مطمئن تھا کہ چلیں خدا بخش قصائی کا بیٹا بچ جائے گا۔ پھر مجھے پتا چلا کہ آپریشن اور گردہ تبدیل ہوئے بغیر بھی علاج پر بہت خرچہ ہو رہا ہے۔ پھر انہیں مزید کچھ پیسے بھجوا دیئے۔ اب پچھلے ماہ گھر گیا تو کسی نے بتایا کہ خدا بخش قصائی کا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ مجھے شدید دھچکا لگا۔ بتایا گیا کہ اس کا تو چالیسواں بھی ہو گیا ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ کسی نے بتایا تک نہیں کہ خدا بخش قصائی پر یہ قیامت گزر گئی ہے۔
کافی دیر بیٹھا بوڑھے باپ اور بوڑھی ماں کا سوچتا رہا کہ ان پر کیا بیت رہی ہو گی۔ اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے خدا بخش قصائی نے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ بڑھاپے میں مزدوری کی‘ جو کچھ بچا تھا وہ سب بیچ دیا۔ ریڑھی چلا کر اس عمر میں بھی مزدوری کر رہا تھا۔ جانور بیچے‘ لوگوں سے ادھار لیا پھر بھی وہ بیٹا کھو بیٹھا تھا۔
شام کو میں نے منصور اور راشد سے کہا کہ چلیں فاتحہ پڑھ آتے ہیں۔ ہمارے گائوں سے چار پانچ کلومیٹر دور خدا بخش کا کچا سا مکان ہے۔ اب میں ان کے گھر میں بیٹھا تھا۔ شام گہری ہو چکی تھی اور خدا بخش کی بوڑھی بیوی میرے گلے لگ کر رو رہی تھی۔ خدا بخش گھر پر نہ تھا۔
اتنی دیر میں خدا بخش قصائی کی بیوہ بہو اور دو چھوٹی پیاری سی بچیاں آ گئیں۔ ماں اور بیوہ کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بیوہ بتانے لگی کہ اس کے خاوند نے اس کے ہاتھوں میں جان دی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ لیہ ہسپتال والوں نے پیشاب کی نالی لگا دی تھی۔ کچھ دنوں سے وہ نالی ڈھیلی ہو گئی تھی اور تکلیف بھی دے رہی تھی۔ ہسپتال والوں کو بتایا بھی ‘ لیکن انہوں نے جھوٹی تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس شام وہ کمرے میں داخل ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ نالی ڈھیلی ہو کر باہر نکلی ہوئی ہے۔ اس کے خاوند نے خود سے دوبارہ ڈالنے کی کوشش کی تو اس میں سے خون بہہ نکلا۔ بیوی نے خون روکنے کی کوشش کی لیکن خاصا لہو بہہ چکا تھا۔ پورا کمرہ لہو سے بھر گیا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں اپنی بچیوں کے باپ کی لاش تھامے ساکت بیٹھی رہی۔
میں خاموش بیٹھا ایک بوڑھی ماں اور بیوہ کا دکھ محسوس کرتا رہا۔ دونوں چھوٹی بچیاں اس دکھ سے آزاد‘ تجسس بھری نظروں سے مجھے دیکھنے میں مصروف رہیں۔ میں نے انہیں بلایا اور پیار کیا۔ بوڑھی ماں کہنے لگی: اب بیٹے سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ بہو کا باپ اپنی بیٹی اور اس کی بچیاں واپس اپنے گھر لے جانے کا سوچ رہا ہے۔ اب رئوف تم بتائو کہ ہم کیسے رہیں گے؟ پہلے بیٹا گیا اور اب بہو اور ہماری پوتیاں بھی چلی جائیں گی‘ میں اور تمہارا بوڑھا چچا خدا بخش اپنے بیٹے کے بغیر تو رہ لیں گے لیکن ان پوتیوں کے بغیر ہم سے کیسے جیا جائے گا؟ تم ہی ہماری بہو کے باپ سے بات کرو۔ سنا ہے سب تمہاری سنتے ہیں!
مجھے اچانک شدید ڈپریشن محسوس ہوا۔ خود کو لاچار اور بے بس محسوس کیا۔ چارپائی سے اٹھا اور اس روتی بوڑھی دادی کو گلے لگایا اور کمرے سے نکل کر باہر چار سو پھیلے گھپ اندھیرے میں اپنا سارا وجود چھپا لیا۔