پچھلے دنوں امریکی چینل فاکس نیوز کی دس سال پرانی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک امریکی دفاعی مبصر کی چند منٹ کی گفتگو پر مشتمل تھی۔ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں قتل ہوئے دوسرا دن تھا۔ پوری دنیا سوگوار تھی۔ توقع کی جارہی تھی یہ امریکی ریٹائرڈ کرنل بھی‘ جو اس خطے کا ماہر ہے‘ بینظیر بھٹو کے بارے میں اچھی باتیں کرے گا؛ تاہم پروگرام کا میزبان ششدر رہ گیا جب اس نے بینظیر بھٹو کی کرپشن پر گفتگو شروع کر دی اور کہا: انسان کے طور پر اسے بینظیر بھٹو کی موت کا دکھ ہے لیکن ایک سیاستدان یا لیڈر کے طور پر اس سے ہمددری نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس نے بھی کرپشن کی تھی اور ڈٹ کر کی تھی۔ کرنل بتاتا رہا تھا کہ کیسے کیسے بینظیر بھٹو اور ان کے خاوند نے پاکستان سے دولت لوٹی اور اسے باہر لے گئے۔ فاکس نیوز کے اینکر نے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: دیکھیں انہیں فوت ہوئے دوسرا دن ہے‘ لہٰذا ایسی باتیں کرنا کچھ زیب نہیں دیتا۔ وہ کرنل گھبرائے بغیر بولا: آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن کیا کریں جو حقائق ہیں‘ وہ بتا رہا ہوں کہ وہ کوئی بڑی لیڈر نہیں تھیں۔ انہوں نے بھی جمہوریت سے پیسہ ہی کمایا۔ اپنے انہی لوگوں کا مال باہر لے گئیں جو ان کی موت پر رو رہے ہیں۔
''جن طالبان کے ہاتھوں وہ ماری گئیں‘ انہی طالبان کو انہوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں سپورٹ کیا اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا‘‘۔ آخری بات بہت اہم تھی جو اس دفاعی مبصر نے کی‘ یہ کہ ''جمہوریت اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جن معاشروں میں کرپشن حد سے زیادہ بڑھ جائے‘ وہاں جمہوریت ہمیشہ خطرے کا شکار رہے گی۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ اگر جمہوریت رہے گی تو پھر کرپشن نہیں ہوگی‘‘۔ فاکس نیوز کے اینکر نے اپنی جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھی اور دو تین منٹ بعد گفتگو ختم کر دی۔
سوال یہ ہے کہ لیڈرز کرپشن کرتے کیوں ہیں؟ انہیں اتنی دولت اکٹھی کرنے کا جنون کیوں ہے۔ جس جمہوریت کے فوائد لوگوں کو بتا کر وہ اقتدار میں آتے ہیں، اس کو خود ہی تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت صرف پاکستان جیسے ملکوں میں ناکام ہے یا پھر پوری دنیا میں اس کا یہی حشر ہو رہا ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب کمزور لوگوں کو مالی، معاشی اور سماجی طور پر مضبوط کرنا تھا نہ کہ چند خاندانوں کو۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کے بعد یہ لیڈرز ایک نئے سرے سے جمہوریت کے چیمپئن بن جاتے ہیں۔
اگر کرپشن اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ دیکھنا ہو تو پھر پاکستان کو کیس سٹڈی بنا لیں۔ یہ بات مجھے اب سمجھ آرہی ہے کہ جس ملک میں پچاس فیصد اَن پڑھ اور اتنے ہی غریب ہوں گے‘ وہاں جمہوریت کمزور ہو گی۔ وہاں سیاستدان یا لیڈرز نہیں بلکہ وار لارڈز ہی پیدا ہوں گے جو اپنے اپنے علاقوں کو تقسیم کر کے ان پر حکمرانی کریں گے۔ فوجی آمریت میں چند آمر پیدا ہوتے ہیں تو جمہوریت ہزاروں کی تعداد میں ڈکٹیٹر پیدا کر دیتی ہے‘ جو اپنا اپنا حصہ مانگنے لگ جاتے ہیں۔ یہ سب جمہوریت کا نام استعمال کر کے فوجی بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں ان کی فرعونیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک ایم پی اے اور ایم این اے اس طرح علاقے کو اپنے کنٹرول میں کرتا ہے کہ لوگوں کی چیخیں نکلوا دیتا ہے۔ اکثریت سیاست دانوں کی اَن پڑھ یانیم خواندہ ہوتی ہے۔ ہمارے ضلع لیّہ میں تو جعلی ڈگریاں لے کر بھی لوگ ایم پی اے اور وزیر تک بن گئے ہیں۔ ہمارے اپنے ضلع میں جیسل کلاسرا گائوں کے قریب ایک پٹرول پمپ کا مالک‘ کچھ عرصہ پہلے ملاوٹ شدہ اور جعلی پٹرول بیچتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ پہلے لیہ جیل تو پھر ڈیرہ غازی خان جیل میں رہا۔ اب وہ ضمانت کے بعد گائوں کا کونسلر ہے۔ ایسے کردار آپ کو ہر گائوں‘ ہر بستی میں ملیں گے‘ جو فراڈ کرتے ہوں گے، چوریاں کرکے‘ ڈاکے ڈال کے‘ اپنے سے بڑے لیول پر سیاستدانوں کی گاڑی سے لٹک کر‘ اسے الیکشن کے موقع پر چند ہزار یا چند لاکھ روپے چندہ دیتے ہیں کہ پورے علاقے کی بدمعاشی کا ٹھیکہ انہیں مل جائے۔ ایم پی اے یا ایم این اے ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسروں کے ساتھ مل کر ایک پلان ترتیب دے گا کہ اس نے کیسے پورے ضلع کو اپنی جیب میں رکھنا ہے۔ اب ضلع میں ایس ایس پی یا ڈپٹی کمشنر کون لگے گا اس کا فیصلہ لاہور ہوتا ہے۔ ضلع میں تعیناتی کے لیے یہ بابوز ایسے بے چین ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! ایک آدھ کو میں جانتا ہوں جو ضلع میں ڈپٹی کمشنر لگنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔ حیران ہوتا ہوں کہ جو ہزاروں منتوں‘ ترلوں اور سفارشوںسے کسی ضلع میں ڈی سی لگتے ہیں‘ کیا ان میں اتنی جرأت ہوتی ہے کہ وہ ایک اَن پڑھ ایم پی اے یا وزیر کے سامنے سر اٹھا سکیں؟
یوں ایک تعیناتی کے لیے یہ سب پڑھے لکھے افسران ہر ضلع میں جا کر کمپرومائز کرتے ہیں۔ اب ان کا مقصد سیاستدانوں کو کرپشن سے روکنا نہیں رہا بلکہ مدد دینا ہے۔ اب بابوئوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ کافی ہوگیا رعب و دبدبہ، اب ڈٹ کر مال بنائو۔ بیورو کریسی میں چونکہ اب نچلے طبقات سے لوگ زیادہ آ رہے ہیں لہٰذا اخلاقیات اور کردار کی اہمیت وہ نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ اب سب کچھ پیسہ ہی ہے۔ اپنے سے طاقتور کے پائوں پکڑو اور اپنے سے کمزور کو کہو کہ وہ آپ کے پائوں پڑ جائے۔ یقین نہیں آتا تو احد چیمہ کی مثال لے لیں کہ کیسے ایک عام بیک گرائونڈسے آنے والے بیورو کریٹ نے کتنا لمبا مال بنایا ہے۔ ابھی تو یہ شروعات ہے۔
اب چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب کی ان ساٹھ کے قریب کمپنیوں کے سربراہوں کی لاکھوں روپے کی تنخواہوں کا نوٹس لے لیا ہے‘ جنہیں شہباز شریف کے قریبی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حکمران خاندان کے ہر فرد کو درجنوں کمانڈوز، گاڑیوں کے قافلے اور سرکاری خرچ سے ان کے گھر کے اخراجات ادا کرنے میں یہ سب مدد دیتے ہیں۔ قانون کے تحت چیف منسٹر یا وزیر ان بیورو کریٹس کے دستخط کے بغیر چائے تک نہیں پی سکتا اور یہاں یہ اربوں ڈکار گئے۔ کسی منصوبے پر ہونے والے پیسے کے ضیاع کو روکنے کی کسی نے کوشش تک نہیں کی۔
ابھی چیف جسٹس کی لاہور میں ان افسران کے پندرہ سے بیس لاکھ روپے تک تنخواہوں کے بارے میں دیئے گئے ریمارکس پڑھ رہا ہوں کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ٹھیکیداروں کے سپرد نہ کیا جائے۔ میرا خیال ہے یہ سیاسی لٹیرے پہلے ہی اس جمہوریت کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر چکے ہیں۔ ہر کوئی دائو لگانے کے چکر میں ہے۔ اب تو سب اس کھیل میں شامل ہیںاور کوئی انکاری ہو جائے اور یا سوال وجواب پوچھنا شروع کر دے تو سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔
لاکھوں روپے کی تنخواہوں کا پڑھ کر قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک اور دستاویز یاد آئی جس میں وفاقی وزیر ڈاکٹر فضل چوہدری نے بتایا تھا کہ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال پمز میں ایک سال سے جگر کے آپریشن کا وارڈ اس لیے کام نہیں کر پا رہا کیونکہ حکومت کے پاس اس مرض کے ماہر ڈاکٹر کو اٹھارہ لاکھ روپے تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس وارڈ میں نوے ملازمین کو ایک سال سے تنخواہ مل رہی تھی لیکن وہ وارڈ بند تھا کیونکہ اٹھارہ لاکھ روپے تنخواہ نہیں تھی جبکہ پرائیویٹ ہسپتال اٹھارہ لاکھ روپے دے کر ڈاکٹر کو لے گئے تھے اور وہ آگے سے پچاس ساٹھ لاکھ روپے تک ایک آپریشن کی فیس لے کر کروڑوں کما رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر احد چیمہ، ارشد لنگڑیال جیسے بیوروکریٹس کو ساٹھ ستر ہزار روپے تنخواہ سے اٹھا کر پندرہ سے بیس لاکھ روپے دئیے جا سکتے ہیں تو اٹھارہ لاکھ روپے پمز میں جگر کے ماہر ڈاکٹر کو تنخواہ کیوں نہیں دی جا سکتی؟
اپنی ماں بیمار ہو جائے تو پورا آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے لیکن یہاں عام انسانوں کے جگر آپریشن کے لیے پمز ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر اس لیے تعینات نہیں کیے جاتے کیونکہ وہ اٹھارہ لاکھ روپے تنخواہ مانگتے ہیں۔ نواز شریف‘ جو دنیا بھر میں ایک سو سے زائد دوروں پر ڈیڑھ ارب روپے کے قریب خرچ کر چکے تھے‘ کی حکومت پاس ڈاکٹر کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
پاکستان بھی کیسے کیسے لطیفوں سے بھرا ہوا ہے‘ باس!