لگتا ہے ہمیں ایک مہذب معاشرے کی ضرورت نہیں ہے۔ شودر اور کھشتری سمجھ کر ہم پر حکمرانی کی جاتی ہے۔ مجھے حکمرانوں سے گلہ نہیں ہے‘ وہ صدیوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں۔ مجھے تو گلہ ان سے ہے جنہیں خدا نے زیادہ عقل اور سمجھ دی۔ خدا کی دیگر نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ذہانت ہے۔ خدا ہر ایک کو آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگ، سٹیو جابز یا بل گیٹس پیدا نہیں کرتا۔ قدرت کا اپنا نظام ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں‘ جو دیگر انسانوں سے زیادہ عقل و شعور رکھتے ہیں اور وہی معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔ میں نے کہیں اکنامکس کی ایک تھیوری میں پڑھا تھا کہ جہاں معاشرے میں ایماندار لوگ ضروری ہوتے ہیں‘ وہیں چند کرپٹ لوگوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ معاشرہ اس طرح ترقی کرتا ہے۔ پہلے مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہوئی‘ معاشرے کی ترقی کے لیے کرپٹ ضروری ہیں؟ جب اس تھیوری کو پڑھا تو احساس ہوا کہ اس میں کچھ جان ہے۔ اس تھیوری کے مطابق کسی بھی معاشرے یا حکومت کے لوگ بیٹھ کر اپنے تئیں ایک سسٹم بناتے ہیں جس میں کرپشن اور ناجائز دولت کمانے کی گنجائش نہیں ہوتی، انٹرنل اور ایکسٹرنل چیکس ہوتے ہیں، ایک فائل پر دس لوگوں کے دستخط ہوتے ہیں، انٹرنل آڈٹ اور ایکسٹرنل آڈٹ۔ سیکشن افسر سے ڈپٹی سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، سیکرٹری سے وزیر تک سب فائل کو دیکھتے ہیں اور اپنے تئیں وہ یہ اطمینان کرتے ہیں کہ اب اس منصوبے میں کرپشن نہیں ہو گی۔ یہ ذہین لوگوں کا بنایا ہوا سسٹم ہوتا ہے؛ تاہم اس دوران ایک اور ذہین انسان اس پورے سسٹم کو سٹڈی کرتا ہے اور سسٹم کو اپنے حق میں مروڑ کر کرپشن کرتا ہے۔ وہ کسی کو پتا نہیں چلنے دیتا۔ یوں اکیلا بندہ ان تمام لوگوں سے ذہین نکلتا ہے جنہوں نے وہ سسٹم بنایا تھا؛ تاہم کچھ عرصے بعد وہ کرپشن سامنے آ جاتی ہے۔ کرپشن کی فلاسفی ہے کہ یہ چھپ کر نہیں رہ سکتی۔ جب اچانک پتا چلتا ہے کہ اس پورے نظام کو ایک بندے نے ہائی جیک کر کے مال بنا لیا ہے تو پھر سارے سمجھدار دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور سسٹم میں موجود ان تمام خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرکے سسٹم یا چیکس کو بہتر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب کی دفعہ کوئی کرپشن نہیں کر سکے گا۔ پھر کچھ عرصے بعد کوئی اور ذہین انسان اس نئے سسٹم کو سٹڈی کرتا ہے اور پھر وہ اس کو ہائی جیک کر کے کرپشن کرتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور معاشرہ ایک طرح سے‘ ارتقا سے گزرتا رہتا ہے۔ دو مختلف قسم کے ذہین لوگوں کی ذہنی لڑائی ایک دوسرے سے چلتی رہتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے محنت کرتے رہتے ہیں۔ ایک اچھا ذہن پورے معاشرے کی سوچتا ہے کہ اس کی ذہانت سے ملک، قوم اور عام لوگوں کو فائدہ ہو اور کوئی ایک شخص یا گروہ پورے معاشرے کے لیے مختص رقوم اکیلا نہ کھا جائے جس سے افلاس بڑھے۔ چند لوگ کرپشن کی وجہ سے امیر‘ امیر تر ہو جائیں گے تو لاکھوں لوگ اس کرپشن کی وجہ سے مزید غریب ہوں گے اور معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ وہ ذہین لوگ دراصل معاشرے کا حسن ہوتے ہیں جو ایسے سسٹم پر کام کرتے ہیں جو ملک اور معاشرے کو فائدہ دیتا ہے۔ دوسری طرف انفرادی طور پر وہ ذہین لیکن جرائم پیشہ لوگ ہیں جن کے نزدیک ان کی اپنی ذات، پیسہ اور عیاشی اہم ہوتی ہے لہٰذا وہ لاکھوں لوگوں کا حصہ کھاتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ چالاک اور ذہین لوگ ہیں۔ اللہ نے انہیں اتنی قابلیت اس لیے عطا کی ہے کہ وہ اس کی مدد سے اپنا ملک، اپنی دھرتی اور اپنے جیسے لوگوں کا پیسہ جتنا لوٹ سکتے ہیں‘ لوٹ لیں، انہیں اور ان کے بچوں کو عیاشی کا حق ہے۔
اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ خود وہ ذہین لوگ بھی حیران ہیں‘ جو انفرادی طور پر پورے سسٹم سے فراڈ کرکے کچھ مال بنا لیتے تھے۔ ان ذہین لٹیروں کا بزنس کبھی خوب چلتا تھا، جب کرپشن ابھی اس لیول پر نہیں پہنچی تھی۔ ایک سکینڈل سامنے آتا تھا تو یوں لگتا تھا کہ پورے اسلام آباد میں آگ لگ گئی ہے۔ ایک خبر ہی پوری حکومت کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ فوراً انکوائری آڈرز ہوتی، پریس ریلیز جاری ہوتی اور وزیراعظم‘ کابینہ تک معاملہ جاتا۔
دھیرے دھیرے ان اچھے اور ذہین لوگوں نے‘ جب انہیں لگا کہ جس وزیراعظم، وزیر یا وفاقی سیکرٹری نے جواب طلبی کرنا تھی وہ تو خود مال بنا رہے ہیں، ان بددیانت اور جرائم پیشہ ذہین لوگوں کے آگے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیئے۔ انہیں لگا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اچھے وہی ہیں جو سسٹم کو یرغمال بنا کر لوٹ رہے ہیں اور لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ وہ پہلے ڈرتے تھے کہ کہیں خبر نہ چھپ جائے، لوگوں کو پتا چل گیا کہ وہ کرپٹ ہیں تو وہ ان سے دور ہو جائیں گے، بچوں سے کوئی رشتہ نہیں کرے گا، لوگ عجیب نظروں سے دیکھیں گے، انہیں آتا دیکھ کر راستہ بدل لیں گے، بچوں کو کلاس فیلوز یا دوست انہیں طعنے دیں گے۔ دھیرے دھیرے یہ خوف دور ہونا شروع ہوا۔ انہیں بھی لگا کہ وہ غلط سائیڈ پر کھڑے تھے۔ اگر وہ اربوں کروڑوں روپے کے ٹھیکے دے رہے ہیں‘ تو اس میں سے چند لاکھ یا چند کروڑ وہ اپنے لیے بھی رکھ لیں گے تو کیا فرق پڑے گا۔ یوں سیاستدانوں کو انہوں نے راستے دکھانا شروع کر دیئے کہ قانون اور ضابطے کیسے توڑے جا سکتے ہیں۔ یہ کام ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سے شروع ہوا، پھر صوبائی اور مرکزی سطح پر پھیلتا چلا گیا۔ وہ نوجوان جو کبھی سول سروس کو یہ سوچ کر جوائن کرتے تھے کہ وہ اس معاشرے کی فلاح کے لیے اپنی ذہانت استعمال کریں گے‘ دھیرے دھیرے اس چکر میں پڑ گئے کہ پہلے سیاسی یا بیورو کریٹ گھرانے میں شادی کرنی ہے، ساری عمر اچھی پوسٹنگ اور پیسے کے لیے بیک بڑی ضروری ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے آئے ان بیوروکریٹس نے اپنے سے بڑے لوگوں میں شادی تو کر لی لیکن پھر سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے انہیں محسوس ہوا کہ اب اوپر کی کمائی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ پھر سب سول سروس دوستوں میں ایک مقابلہ شروع ہوا‘ کمشنری اور ڈپٹی کمشنری تو کسی دور دراز کے ضلع میں ملی لیکن بیوی بچے لاہور میں سیٹل کیے اور ہر ہفتہ وزٹ ہونا شروع ہو گیا۔ یوں نہ وہ ضلع پر توجہ دے سکے اور نہ ہی بچوں کے پاس رہ سکے۔ یوں نہ کسی کا ڈر رہا اور نہ ہی خوف۔ سب ایک جیسے ہوتے چلے گئے۔ سب سیاستدانوں نے بھی یہی شارٹ کٹ لیا کہ بابوز کو ساتھ ملائو اور مال بنائو۔ باڑ نے کھیت کو کھانا شروع کر دیا۔
اب کہاں گئے وہ ذہین لوگ جو کبھی ملک اور معاشرے کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوتے تھے اور سسٹم کو ناکام نہیں ہونے دیتے تھے؟ اب سب اس گنگا میں نہا رہے ہیں۔ احد چیمہ، فواد حسن فواد اور راشد لنگڑیال جیسے بابوز ان کے رول ماڈل ٹھہرے، سب کو حصہ ملنا شروع ہو گیا۔ میڈیا نے بھی اپنا حصہ لے کر ان کرپٹ سیاسی اور سرکاری بابوز کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ۔ ٹی وی چینلز پر کرپٹ عناصر اور کرپشن کا دفاع شروع ہوا۔ عدالت نے بگڑتے معاشرے میں اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کی تو یہ سب طبقات باہم مل گئے اور عدالت پر حملہ شروع ہو گیا۔ اب آپ ٹی وی آن کریں تو پڑھ لکھی کلاس اور صحافی سب عدالت اور ججوں پر تبرا کرتے ملیں گے کہ کیوں جج نے کسی طاقتور سے پوچھا کہ جس کام کی آپ کو تنخواہ ملتی ہے‘ وہ کام کیوں نہیں کرتے؟ چیف جسٹس ثاقب نثار اس لیے اچھے نہیں لگتے کہ اب سب ذہین لیکن کرپٹ مائنڈ کے پڑھے لکھے کرپٹ مافیا اور کرپشن کا دفاع کرتے ہیں۔ جج اس لیے برا لگتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار نہیں ہوا۔ یہ بھی قدرت کا اپنا اصول ہے‘ چاہے پورا معاشرہ آپ ہائی جیک کر لیں، سب کو کرپٹ کر لیں لیکن ایک آدھ ایسا بندہ پھر بھی خدا ضرور معاشرے میں پیدا کرتا ہے جو ہتھیار نہیں ڈالتا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار سے اس لیے سب ناراض ہیں کہ انہوں نے ان سب کی طرح ہتھیار نہیں ڈالے۔
ویسے اب وہ چند ذہین لوگ‘ جو پہلے پورے سسٹم کو ہائی جیک کر کے کرپشن کرتے تھے، بھوکوں مر رہے ہیں کیونکہ وہ اس دور میں دائو لگاتے تھے جب ابھی کرپشن عام نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت میڈیا، حکمران، سیاستدان اور سرکاری افسران‘ سسٹم اور معاشرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ اب تو ہم سب ایک مافیا بن کر اس کام میں جُت گئے ہیں۔پھر آپ ہی بتائیں جب جناب چیف جسٹس ثاقب نثار کرپٹ مافیا اور کرپشن کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ بھلا کب ہمیں اچھے لگیں گے؟