قومی اسمبلی میں جائیں تو آپ کو کہیں سے نہیں لگے گا کہ یہ لوگ سنجیدہ کام سے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں یا پھر ملک کو کچھ سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ایاز صادق شروع سے ہی ایک کمزور سپیکر تھے‘ سب کو پتا تھا کہ ان سے یہ ہائوس نہیں چلے گا لہٰذا پانچ سالوں میں سب سے زیادہ اجلاس‘ انہی کے دور میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے۔ اور تو اور سرکاری افسران تک ایاز صادق کو سنجیدہ نہیں لیتے اور کئی دفعہ انہیں دھمکیاں دینا پڑیں‘ پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس لیے آج کل جب ان کے کرسی پر بیٹھے ہونے کے باوجود ‘ اسمبلی میںجگت بازی کا مقابلہ چل رہا ہوتا ہے تو مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوتی۔ یہاں صرف مذاق چل رہا ہے، عوام بھی مذاق مذاق میں مخولیے سیاستدانوں کو ووٹ دیتے ہیں، وہ آگے سے مخولیے وزیراعظم چن لیتے ہیں، وزیراعظم آگے سے مخولیے وزیروں کی کابینہ بنا لیتے ہیں اور یوں جگت بازی کا مقابلہ چل رہا ہے۔ دو دن سے اسمبلی میں سپیکر ایاز صادق اور شیریں مزاری کی جگتوں کا مقابلہ ہو رہا ہے‘ سب انجوائے کر رہے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز میں لیڈ خبر یہی ہے کہ ایاز صادق اور شیریں مزاری میں جگت بازی کا مقابلہ کون جیتا۔ چہار سو قہقہے بکھر رہے ہیں۔ اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ جس نواز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا تھا وہ آٹھ آٹھ ماہ قومی اسمبلی ہی نہیں آتے تھے اور جگت یہ ہے کہ جس عمران خان نے ابھی وزیراعظم بننا ہے‘ وہ بھی نہیں آتے۔ کیا قسمت پائی ہے۔
آپ کو علم ہے کہ پارلیمنٹ یا قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی حاضری کا کتنا الائونس ایک ایک ایم این اے کو ملتا ہے؟ یہی سوال مجھ سے پارلیمنٹ کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے کیا۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے تین چار ہزار روپے۔ اس کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ بولا: آپ جیسے رپورٹر سے اس جاہلانہ جواب کی امید نہ تھی۔ میں گھبرا گیا کہ شاید زیادہ بتا بیٹھا ہوں‘ پانچ سو روپے ایک اجلاس کا الائونس ملتا ہو گا۔ کافی دیر بعد وہ سنبھلے تو بولے: اگر آپ کی یہ حالت ہے کہ آپ کو علم نہیں تو پھر بے چارے بائیس کروڑ عوام کو آپ کیوں طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا ووٹ پچاس روپے کے قیمے والے نان پر بیچ آتے ہیں اور پھر ایم این ایز اسمبلیوں میں جا کر کروڑوں میں ووٹ وزیراعظم کو بیچتے ہیں، جس کے بدلے ان کو ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں اور ان کی مرضی کا ٹھیکیدار انہیں ایک کروڑ روپے پر بیس سے تیس لاکھ روپے کمیشن دیتا ہے۔ یوں پچاس روپے کا نان قوم کو پچاس کروڑ روپے تک جا پڑتا ہے۔ میں اب بھی پزل تھا کہ کتنا الائونس ملتا ہے کیونکہ ماہنامہ تنخواہ اب بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا مجھے اندازہ نہ تھا کہ کتنا الائونس ملتا ہے۔ وہ سرکاری صاحب بولے: حضور ایک کمیٹی کا اجلاس اٹینڈ کرنے کے لیے ایک ایک ایم این اے‘ آپ کو ساٹھ سے ستر ہزار روپے میں پڑتا ہے۔
میں تقریباً چیخ پڑا، ایک کمیٹی اجلاس میں شرکت کا ساٹھ ستر ہزار روپے الائونس؟ وہ بولا: جی جناب! پھر اس نے مجھے بریک اَپ بتانا شروع کیا ۔ بولا: یہ بھی سن لیں جناب! کمیٹی اجلاس سے دو دن قبل اور دو دن بعد تک کا الائونس اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ جب وہ موصوف گھر سے روانہ ہوتے ہیں کہ اسلام آباد جا کر انہوںنے کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنی ہے تو ان کا میٹر ڈائون ہو جاتا ہے اور جب تک وہ واپس گھر نہیں پہنچ جاتے‘ نوٹوں کی گنتی جاری رہتی ہے۔ میں منہ کھول کر بیٹھا انہیں دیکھتا رہا۔ وہ بولتے رہے کہ جناب! آپ تو ان کمیٹی اجلاسوں میں آتے ہیں‘ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کتنا بولتے ہیں یا ان کا اس اجلاس میں کیا اِن پُٹ ہوتا ہے۔ وہ زیادہ تر خاموش رہیں گے۔ دو گھنٹے کے اجلاس میں خاموش رہنے کی قیمت وہ وصول کرتے ہیں اور واپس گھر چلے جاتے ہیں۔
وہ سرکاری افسر کہنے لگے '' آپ کے سرائیکی علاقے کے ایک ارب پتی ایم این اے کی کہانی سناتا ہوں۔ وہ ایک کمیٹی کے ممبر ہیں‘ جس دن کمیٹی کا اجلاس تھا، ان کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ ایک کام تو کریں۔ میں نے کہا: جی بتائیں۔ بولے: آج اجلاس میں نہیں پہنچ سکتا۔ میری حاضری تو لگا دیجئے گا۔ میںنے جواب دیا: جناب یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ وہ بولے: کیا فرق پڑتا ہے؟ کوئی آپ کی جیب سے پیسے تھوڑی جاتے ہیں‘ آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔ میں نے اس سرکاری افسر سے پوچھا کہ وہ کیوں ایسا کام آپ سے کرانا چاہتے تھے؟ سرکاری افسر بولے: ستر ہزار روپے ٹی اے ڈی اے اور اجلاس کی شرکت کا الائونس اور کس لیے؟ میں آنکھیں پھاڑے بیٹھا دیکھتا رہا۔ پھر حیرانی سے پوچھا: تو آپ نے کیا کیا؟ بولے:وہ ناراض ہونے لگے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے‘ آپ آرام سے میرا نام لکھ دیں؛ تاہم میں نے کہا: میں یہ بے ایمانی نہیں کروں گا لہٰذا انہوں نے ناراض ہوکر فون بند کر دیا‘‘۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ چند روز بعد وہ ارب پتی ایم این اے ان کے دفتر تشریف لائے اور کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔وہ سرکاری افسر بولا: سر جی! آپ کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کر سکتا ہوں، وہ جلدی سے بولے کہ جی بتائیں۔ کہا: میری تنخواہ پوری کی پوری ستر ہزار روپے بنتی ہے‘ آپ کو ابھی ایڈوانس میں چیک کاٹ کر دے دیتا ہوں تاکہ آپ کا نقصان پورا ہو جائے۔ میں نے ہنس کر پوچھا: پھر انہوں نے وہ چیک لے لیا آپ سے؟ وہ بولے: نہیں‘ الٹا ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا ہے؟ تو میں نے کہا: پھر آپ کو ارب پتی ہوتے ہوئے مجھے یہ کام کہنا چاہیے تھا اور نہ ہی ستر ہزار روپے کا لالچ کرنا چاہیے تھا۔ اس پر وہ غصے سے اٹھ کر چلے گئے کہ آپ کے افسران کو شکایت کروں گا۔ میں حیرانی سے بیٹھا سنتا رہا۔
وہ سرکاری افسر بولے: آپ بھول گئے ہیں کہ آپ نے پیپلز پارٹی دور میں ایک بڑا سکینڈل فائل کیا تھا کہ بہت سارے ایم این ایز اور سینیٹرز نے اپنے ترقیاتی فنڈز خیبر پختونخوا کے ٹھیکیداروں کو بیچے ہیں‘ ڈیل یہ کی گئی کہ ایک کروڑ روپے فنڈ پر ایم این اے اور سینیٹر بیس لاکھ روپے لے گا۔ یوں لکی مروت میں خصوصاً کروڑوں روپے کے یہ ترقیاتی بجٹ کچھ ایم این ایز اور سینیٹرز نے واٹر سکیم کے نام پر بیچے۔ ایک ٹیوب ویل پر چند لاکھ روپے کا خرچہ کر کے ایک کروڑ روپے برابر کردیئے گئے اور گھر بیٹھے مال بنا لیا گیا۔ چکوال سے پیپلز پارٹی کی خصوصی نشست پر منتخب ہونے والی ایک خاتون ایم این اے نے یوسف رضا گیلانی سے سب سے زیادہ فنڈز لیے اور سب سے زیادہ ان کے فنڈز لکی مروت میں خرچ ہوئے۔ انہوں نے ایک کروڑ پر تیس لاکھ روپے ریٹ لیا۔ آج کل ٹی وی چینلز پر وہ بہت مقبول ہیں اور ہمیں کرپشن کے خلاف بھاشن اور جمہوریت کے فوائد گنواتی نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سندھ سے ایک بڑے نامی گرامی‘ جو ہر روز ٹی وی چینلز پر سندھ کا مقدمہ لڑتے ہیں‘ نے اپنا ایک کروڑ روپے کا فنڈ بھی خیبر پختونخوا کے ٹھیکیدار کو بیس لاکھ روپے میں بیچا۔ لو کر لو گل!!!
سرکاری افسر بولے ''اور سن لیں! لاہور کے ایک ایم این اے نے ایک دن اپنے ساتھی ایم این اے کی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کے باوجود حاضری رجسٹر پر اس کی حاضری لگا دی۔ میں نے ان صاحب کو پکڑ لیا اور کہا کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے۔ وہ بولے: تم کون ہوتے ہو روکنے والے؟ وہ کہنے لگے کہ جناب! یہ ہے ہمارا کردار اور ہماری تربیت۔ پھر کہا: اکثر یہ پارلیمنٹ میں ہوتا ہے کہ لوگ سیشن میں نہیں آتے، کورم پورا نہیں ہوتا لیکن اسمبلی کے حاضری رجسٹر پر پھر بھی حاضریاں لگی ہوتی ہیں۔ کچھ ایم این ایز ایسے ہیں جو ایک دوسرے کی حاضری لگاتے رہتے ہیں۔ وجہ وہی ہے‘ ستر ہزار روپے کا الائونس!
اور سنیں۔ میرے ملتانی دوست شکیل انجم‘ صدر پریس کلب ملتان نے مستند واقعہ سنایا۔ بتانے لگے: ہمارے علاقے کے ہی ایک اچھے خاصے ایم این اے‘ جو دو دفعہ وزیر بھی رہ چکے ہیں، کو فیس بک پر لندن سے ایک لڑکے نے جعلی فی میل آئی ڈی سے دوست بنایا اور پیار محبت کے جال میں ایسا پھنسایا کہ موصوف سے اچھی خاصی تگڑی رقم نکلوا لی۔
ایک دن موصوف لندن کا ٹکٹ کٹوا کر لندن جا پہنچے کہ گوری پھنس گئی ہے۔ وہاں پہنچ کر فیس بک میسنجر پر میسیج کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ فیس بک اکائونٹ ہی ڈیلیٹ ہو چکا ہے ۔ محبوبہ غائب!
کیا کیا جگتیں ہیں، کیا کیا مذاق ہیں‘ کہاں تک سنائوں۔ باقی پھر سہی!