مسلم لیگ نواز کی حکومت کے پانچ برس گزر گئے اور پتہ ہی نہیں چلا۔
مجھے سیاست اور سیاسی رپورٹنگ کا کبھی شوق نہیں تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جب میں ملتان سے اسلام آباد آیا تو اس کے کچھ عرصے بعد جنرل مشرف کا مارشل لا لگ گیا تھا اور ہم رپورٹرز سیاست کی بجائے جنرل مشرف دور میں سکینڈلز تلاش کرنے پر جت گئے تھے۔ جب دو ہزار دو میں الیکشن ہوئے تو مجھے بھی شوق چرایا کہ چلیں اس کوچہ و بازار میں چلتے ہیں۔ شروع میں بورنگ کام لگا کہ سب لوگ تقریریں کر رہے ہیں اور آپ ایک بیوقوف تماشائی کی طرح ان کی باتیں سن کر رپورٹ کر رہے ہیں۔ لڑائیاں جھگڑے ہو رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ اِس نے یہ کہا اور اُس نے وہ کہا۔ پھر میں نے اپنے انگریزی کے سینئر صحافیوں کی پارلیمنٹ سے لکھی گئی سیاسی ڈائریوں کو پڑھنا شروع کیا تو آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ شاہین صہبائی کا یقینا اس میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ انگریزی کے ایک فقرے میں پوری پارٹی اور اس کے لیڈر کو لٹا کر رکھ دیتے۔ پھر عامر متین نے انگریزی اخبار میں Politically incorret کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تو ذہن کے دریچے روشن ہونا شروع ہوئے۔ عامر متین کے پندرہ برس قبل لکھے گئے وہ سیاسی کالم پڑھ کر میں ان کا عاشق ہوا تھا۔ ضیاالدین صاحب کی پارلیمنٹ ڈائری بھی اپنی جگہ ایک ٹریٹ تھی جس میں وہ سیاست کو معاشی آنکھ سے دیکھتے تھے یا نصرت جاوید کا ایک مخصوص اور خوبصورت سٹائل۔ اردو میں حامد میر اور خوشنود علی خان کی سیاسی ڈائریاں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ یوں مجھے پتہ چلنا شروع ہوا پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کیسے کرنی ہے اور کن کن باتوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔
مجھے یاد ہے دو ہزار دو کے بعد سیاست سے ایک رومانس شروع ہوا تھا۔ کئی سیاستدان جن کے صرف نام سنے تھے‘ ان کی تقریریں براہ راست سننے کا موقع ملا۔ ان دنوں ابھی ٹی وی چینلز شروع نہیں ہوئے تھے لہٰذا پرنٹ جرنلزم میں شاہین صہبائی، ضیاء الدین، نصرت جاوید، عامر متین کا طوطی بولتا تھا۔ پارلیمنٹ کیفے میں جہاں یہ چاروں بیٹھے ہوتے وہیں سب ایم این ایز اور وزیر ملتے۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب کی کوشش ہوتی کہ چاہے پورا جہاں ناراض ہو جائے لیکن یہ چاروں صحافی ان سے خوش رہیں کیونکہ اگلے دن ان کی پارلیمنٹ ڈائری میں لکھا ہوا ایک لفظ بھی انہیں اوپر سے نیچے لا سکتا تھا یا ان کی قسمت سنور سکتی تھی۔
ہمارے جیسے نئے نئے رپورٹرز چپ چاپ ان سب کے رعب میں ذرا قریب کرسیاں ڈال کر ان کی باتیں سنتے رہتے تھے۔ مجال ہے ہم میں سے کسی کو جرات ہو کہ کوئی لقمہ دے سکیں۔ ان سینئرز کی بہت عزت تھی‘ نام تھا اور کردار تھا جن سے حکومتیں تک ڈرتی تھیں۔ ان دنوں جو تقریریں جنرل مشرف کے خلاف ہوتی تھیں انہوں نے ہم سب کو جمہوریت پسند بنا دیا تھا۔ ہمارے خیال میں سیاستدان ہی اس ملک کی امید تھے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ایم این ایز کی ایک دوسرے سے محبتیں اور ایک دوسرے سے معافی تلافی کو ہم بڑی سنجیدگی سے لیتے تھے۔ یہ سب لوگ پارلیمنٹ کیفے میں بیٹھ کر ہمیں مزید پکا کرتے تھے کہ ہم نے ماضی میں جو کچھ ایک دوسرے کے خلاف کیا تھا وہ بہت برا تھا اور اب کی دفعہ ہم بہت سمجھدار اور سیانے ہو کر واپس آئیں گے۔ ہم لوگوں کے پاس ان پر بھروسہ اور یقین کرنے کے سوا اور کیا چارہ تھا۔ ہم بھی دبا کر ان لوگوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ان دنوں کئی نئے سیاستدان ابھرے‘ جنہوں نے محنت سے اپنی جگہ بنائی اور ہم خوش ہوئے کہ چلیں سیاست کو نیا خون مل رہا ہے اور پڑھے لکھے لوگ سامنے آ رہے ہیں جو اپنی پارٹی کے لیڈروں پر بھی ایک طرح سے چیک رکھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان پانچ برسوں میں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان سے باہر ہیں تو یہاں مقامی قیادت ابھرے گی اور اس ملک میں رہ کر جنرل مشرف سے لڑے گی۔
لیکن دھیرے دھیرے یہ سب خواب بکھرنے شروع ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے قتل بعد زرداری وطن واپس لوٹے تو کسی کو علم نہ تھا کہ وہ اپنے اندر خوفناک انتقام کا جذبہ لے کر لوٹ رہے ہیں۔ وہ دس سال جیل میں رہے اور ان کے بچوں کی ماں ماری گئی تھی‘ لہٰذا وہ اب سب سے بدلہ لینے والے تھے اور بدلے کا انداز یہ تھا کہ اس ملک کا کوئی ادارہ اگر کچھ پیسے کما رہا ہے یا بچ گیا ہے تو کسی کو نہ چھوڑو۔ سب کچھ لوٹ کر باہر لے جائو۔ اپنے کرپٹ دوستوں کو چن چن کر ہر جگہ لگا دیا کہ جس کا جو جی چاہے وہ لوٹ لے‘ کسی سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ سی ڈی اے اپنے ایک ایسے دوست کے حوالے کیا‘ جس نے پورا اسلام آباد بیچ دیا۔ کچھ بچ گیا تھا تو بعد میں نواز شریف نے اپنے گھر کے ٹھیکیدار کو اسلام آباد کا میئر لگا کر حساب پورا کر دیا۔ وہ درختوں تک کو بیچ گیا۔ پیپلز پارٹی ایک مظلوم پارٹی بن کر اقتدار میں آئی تھی۔ زرداری جیل میں رہا۔ گیلانی جیل میں رہا۔ بی بی قتل ہو گئی تھیں۔ لہٰذا سب کو امید تھی کوئی نیا کام ہو گا۔ نئی شروعات ہوں گی۔ لیکن زرداری اور اس کے گروہ نے اپنا کام وہیں سے شروع کیا جہاں سے وہ گورنر ہائوس لاہور سے انیس سو چھیانوے میں گرفتار ہوئے تھے تو چھوڑا تھا‘ جب فاروق لغاری نے حکومت برطرف کی تھی۔ ہمارے جیسوں کو دھوکا دینے کے لیے نواز شریف اور زرداری نے ایک ڈرامہ رچایا جس میں کہا گیا وہ اب مل کر حکومت کریں گے اور ججوں کو بحال کریں گے۔ نواز لیگ کے بارہ ایم این ایز نے گیلانی کی کابینہ جوائن کی اور جنرل مشرف سے حلف لے لیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی پنجاب میں وزارتیں لے کر سائیڈ پر ہو گئی۔ جب ججوں کو بحال کرنے کا وقت آیا تو زرداری مکر گیا کہ وعدے کوئی قرآنی آیات تھوڑی ہوتے ہیں اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر ڈیل میں ہاتھ مارا گیا۔ پی پی پی کے آخری دنوں میں جو لوٹ مار مچی تھی وہ ایک ایسی کہانی ہے جسے مجھے کتابی شکل میں کسی دن لکھنا ہو گا۔
اب تشریف لاتے ہیں جناب نواز شریف‘ جو زرداری کو کرپٹ ثابت کرکے اقتدار میں آئے تھے۔ جو لندن میں ہر دوسرے بندے کو کہتے تھے کہ مجھے وزیر اعظم بننے کا کوئی شوق نہیں۔ بہت اقتدار دیکھ لیا۔ اب کی دفعہ ملک کی خدمت ہو گی۔ ملک کی ایسی خدمت کی کہ اپنی پانچ براعظموں میں جائیدادیں نکل آئیں۔ آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ کا منہ تک نہ دیکھا۔ چار سال میں ایک دفعہ سینیٹ گئے۔ کابینہ کا اجلاس نہ بلایا۔ اور ہر ہفتے وہ لندن پہنچ جاتے تھے۔ پوری دنیا کے سو سے زائد سفر کیے اور اپنے ساتھ ایک ہزار سے زائد لوگوں کو دنیا بھر کی سیر کرائی۔ شروع میں ایک کمیشن بنایا گیا جس کا کام تھا کہ وہ میرٹ پر بڑے عہدوں پر لوگوں کو فائز کرے۔ قابل احترام اور ایک اچھے بیوروکریٹ رئوف چوہدری کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ ایک دو لوگوں کی اس کمیشن نے سفارش کی۔ اسحاق ڈار نے ایک چالاکی کی کہ اس کمیشن کا ایک بندہ وہاں سے ہٹوا دیا اور یوں کمیشن پورا نہ ہو سکا اور سفارشات نہ پیش کی جا سکیں۔ نواز شریف نے خود قمر زماں چوہدری کو نیب کا چیئرمین لگا کر چراغوں کی روشنی بجھا دی۔
آج نواز شریف کہتے ہیں کہ زرداری نے انہیں دھوکا دیا۔ زرداری کہتے ہیں کہ وہ تو بہت بھولے بادشاہ ہیں‘ انہیں نواز نے دھوکا دیا۔ ایک بھولے بادشاہ اور اس کے تین‘ بھولے شہزادے اور شہزادی نے چپکے سے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بنا لیں جبکہ دوسرے بھولے بادشاہ نے لندن میں منی لانڈرنگ کی مدد سے سرے محل خرید لیا، آدھا دوبئی اپنے نام کر لیا، سوئس بینک میں چھ ارب روپیہ ڈیپازٹ کرا لیا۔ پاکستان کو ڈبو کو اب دونوں کہتے ہیں ہم تو بڑے بھولے ہیں۔
نواز شریف اور زرداری کی مسلسل دن رات مظلومیت کی کہانیاں سن کر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید یہ قوم ہی ظالم ہے جو ان بھولے، بیچارے اور مظلوم ارب پتیوں کو زبردستی لندن اور دوبئی سے لا کر اپنا بادشاہ چن لیتی ہے اور پھر جب وہ تخت پر بیٹھتے ہیں تو انہیں بھوکا مار کر ظلم بھی ڈھاتی ہے۔ عوام نہ ان بھولے بادشاہوں کو لوٹ مار کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی لندن دوبئی جائیدادیں بنانے دیتے ہیں۔ یہ بے چارے بھولے اور مظلوم بادشاہ اور ہمارے چالاک اور ظالم عوام!