عمر کوٹ سندھ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب یوسف تالپور سے برسوں کا یارانہ ہے۔ ان سے پہلی ملاقات ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں بیس برس قبل ہوئی، جو دوستی میں بدل گئی۔ مہذب انسان ہیں۔ ان سے مل کر اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی اور خاندانی نواب کیسے ہوتے ہیں۔ ایک دن ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھا: نواب صاحب سے دوستی کیسے ہو گئی تھی؟ بولے: انیس سو ترانوے میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو نواب صاحب کو وزیر زراعت لگایا گیا۔ حلف اٹھانے کے بعد نواب تالپور بینظیر بھٹو سے ملے اور فرمائش کی کہ ان کے ایک اور سندھی بیوروکریٹ دوست کو سیکرٹری زراعت لگا دیں۔ اس سے پہلے، اس سیٹ پر ڈاکٹر ظفر الطاف کام کر رہے تھے۔ بینظیر بھٹو نے پوچھا: آپ ڈاکٹر ظفر الطاف کو جانتے ہیں، جو اس وقت سیکرٹری زراعت ہیں؟ بولے: زیادہ نہیں۔ بینظیر بھٹو نے کہا: چلیں ایک کام کرتے ہیں، آپ کچھ دن ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ کام کریں، اگر آپ کو وہ بندہ اچھا نہ لگے، تو پھر بتانا، آپ کی مرضی کا سیکرٹری لگا دیں گے۔ نواب تالپور وزیر اعظم ہاؤس سے سیدھے اپنی وزارت میں ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر گئے اور دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب بیٹھے تھے۔ انہیں کہا: میرا نام یوسف تالپور ہے، میں ابھی وزیر اعظم سے مل کر آ رہا ہوں، میں نے آپ کو ہٹوانے کی کوشش کی، لیکن بی بی نہیں مانیں، میں نے سوچا‘ اس سے پہلے کوئی اور آپ کو بتائے کہ میں نے آپ کو ہٹوانے کا کہا تھا، بہتر ہو گا کہ میں خود ہی آپ کو بتا دوں، اب چائے منگوائیں۔
یوں ڈاکٹر ظفر الطاف اور نواب تالپور کی ایسی دوستی ہوئی کہ ایک دن بینظیر بھٹو نے فیصلہ کر لیا کہ ظفر الطاف کو ہٹانا ہے، یہ اپنی مرضی کرتا ہے، وزیر اعظم تک کی بات نہیں مانتا۔ اب نواب تالپور ڈٹ گئے کہ آپ میرے سیکرٹری کو نہیں ہٹائیں گی۔ بی بی حیران ہوئیں اور بولیں: یوسف! آپ تو خود چاہتے تھے، آپ کی مرضی کا سیکرٹری لگائوں‘ آج موقع ہے، تو تم اُس کا دفاع کر رہے ہو؟
میں نے یہ واقعہ سنا تو ہنس پڑا اور بولا: کمال ہیں، آپ دونوں!! پہلے نواب صاحب نے آپ کو ہٹوانے کی کوشش کی اور بی بی تیار نہ ہوئیں۔ جب بی بی قائل ہو گئیں کہ ظفر الطاف کو ہٹانا کتنا ضروری ہے تو نواب صاحب ڈٹ گئے۔
نواب تالپورجب بھی کراچی سے اسلام آباد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آتے، تو وہ ایئرپورٹ سے پہلا فون ڈاکٹر ظفر الطاف کو کرتے؛ دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ! ڈاکٹر صاحب مجھے فون کرتے کہ نواب صاحب پہنچ رہے ہیں، تم بھی پہنچ جائو اور پھر ہم تینوں دوست دیر تک گپیں مارتے۔ دنیا جہاں کی باتیں۔ حال احوال۔ اور پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب نہ رہے۔ مجھے یوں لگا ہم دونوں اسلام آباد میں ایک دفعہ پھر یتیم ہو گئے ہیں۔ برسوں سے ڈاکٹر صاحب کا ایک ٹھکانہ تھا، نہ رہا۔ عرصے تک ہم دونوں دوست افسردہ رہے۔ اب یہ طے ہوا، جب بھی نواب تالپور اسلام آباد آئیں گے، تو مجھے فون کرکے بتائیں گے اور ہم کم از کم ایک دن اکٹھے لنچ کریں گے۔
میں، انور بیگ اور نواب یوسف تالپور بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔ اس وقت خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ قومی اسمبلی میں محمود اچکزئی نے دھواں دھار تقریر کی ہے، جس میں فوجی قیادت پر چند سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ بھی خبر آئی کہ نواز شریف نے پریس کانفرنس کرکے چیئرمین نیب کی دھلائی کی ہے۔
اچانک انور بیگ نے پوچھ لیا کہ یار کیا بنے گا ہمارا؟ یہ ملک کی معیشت کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟ ملک کس طرف جا رہا ہے؟ یہ سب اس ملک کو درست کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ انور بیگ کے پاس بہت سارے حل ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ سب سے بڑا حل ان کے پاس یہ ہے کہ پاکستان عرب دوست ملکوں سے معاہدے کرکے وہاں مین پاور بھجوائے تاکہ بڑی مقدار میں زرمبادلہ آئے، جس سے پاکستان کو قرضوں کی ضرورت جہاں کم ہو گی، وہاں ڈالرز بھی پاکستان آئیں گے اور ہمارا انحصار بیرونی مالیاتی اداروں پر کم ہو جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب کا یہ بڑا کارنامہ تھا کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو عرب دنیا میں نوکریاں لے کر دیں، جس کا فائدہ ہم آج تک اٹھا رہے ہیں۔ انور بیگ اپنے مشوروں کی پوٹلی اٹھا کر پہلے صدر زرداری کے پاس گئے کہ جناب آپ عرب ملکوں سے بات کریں تو بڑی تعداد میں ورکرز کھپ سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ ہو گا، تو ملک کو معاشی...۔ زرداری صاحب نے انہیں چند دن بعد پارٹی میں ایسا ڈمپ کیا کہ انور بیگ خود پارٹی چھوڑ گئے۔ نواز شریف کو جوائن کیا تو وہی فائل لے کر پھر شریفوں کے پاس گئے، وہاں بھی ان کا یہی حشر ہوا کہ چھوڑیں، آپ کس چکر میں پڑ گئے ہیں۔
اب کھانے پر بیگ صاحب پھر وہی بات دہرانے لگے، ملک کی معاشی حالت کیسے درست کی جا سکتی ہے؟ تو میں نے کہا: بیگ صاحب آپ ہر دفعہ بات کرتے ہیں اور میں بھی سن لیتا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں، یہ لوگ چیزیں درست کیوں نہیں کرتے یا ملک درست کیوں نہیں ہو رہا؟ ملک کو چلانے کے لیے دنیا بھر میں ایماندار اور اچھے لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے، جو جہاں قابل ہو، وہاں ان کا اعلیٰ کردار ہو، انہیں ایک مخصوص سیٹ یا جاب یا وزارت دی جاتی ہے، اس کام کے لیے ایک معاوضہ مقرر کیا جاتا ہے، ایک پورا پیکیج، جس میں لاکھوں کی تنخواہ کے علاوہ گھر، الائونس، ٹریولنگ الائونس، مفت میڈیکل، بڑی بڑی گاڑیاں، مفت جہاز کے سفر، مفت پٹرول، مفت ڈرائیورز، مفت کا کچن، سب کچھ دیا جاتا ہے اور توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اب اپنا پیٹ بھرنے کے بعد غریب اور کمزور طبقات کی زندگیاں بہتر کرنے کا کام کریں گے۔ یہ فارمولہ دنیا کے دیگر ملکوں میں چل جاتا ہے کیونکہ وہاں انسانی کردار بہتر ہوتے ہیں۔ وہاں ابھی لالچ اس لیول پر نہیں پہنچا کہ بندہ اٹھے اور کہے: چھوڑیں ریاست اور معاشرے کو، پہلے میں اپنا پیٹ بھروں گا، پھر پورے خاندان اور پھر سات نسلوں کے لیے روپیہ میں نے اکٹھا کرنا ہے‘ کیونکہ ہمارے ہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کو بڑا عہدہ ملا ہے، وہ ایک تحفہ ہے اور اس کا کام دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی یا بہتری لانا نہیں بلکہ خاندان کی سات نسلوں کی دولت خود کمانی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں عمران خان کہہ رہا تھا؛ چینی قیادت نے 75 کروڑ غریبوں کو غربت سے نکالا... کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟ پچھلے دس برس کا ڈیٹا نکال کردیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جن لوگوں کو یہ کام دیا گیا تھا، وہ لوگوں کو غربت سے نکالنے کی بجائے، خود امیر سے امیر تر ہو گئے ہیں اور غریب مزید غریب ہو گئے۔
باقی چھوڑیں! ان زکوٹا جنوں کو دیکھ لیں، جنہوں نے ابھی لاہور میں دو سو ارب روپے خرچہ کرکے ساٹھ کے قریب کمپنیوں میں مال بنایا ہے۔ ان سرکاری بابوز کی ستر اسی ہزار روپے ماہنامہ تنخواہ تھی۔ یہ سب شہباز شریف کے قریبی بیوروکریٹ تھے۔ شہباز شریف کا سٹائل ہے، جونیئر افسر کو بڑا عہدہ دے دو، جو دو گریڈ اوپر ہو، اُس کے بعد وہ افسر اُس کے لیے بندے مارنے پر تل جاتا ہے۔ انہی افسروں کے ذریعے ترکی اور چینی کمپنیوں کو مہنگے ٹھیکے دلائے۔ سب کا بھلا ہو گیا۔ ان ڈیم ایم جی افسروں کو پندرہ سے بیس لاکھ روپے تک تنخواہ ملنا شروع ہو گئی جبکہ شہباز شریف کا ترکی اور چین میں کام چل پڑا... یوں جن غریبوں کے نام پر یہ اربوں روپے خرچ ہوئے، وہ وہیں کے وہیں ہیں۔ یوں ان بابوز نے سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اپنے اور حکمرانوں کی سات نسلوں کا خرچہ نکال لیا۔ چار ارب روپے صاف پانی میں خرچ ہوئے اور پانی کی ایک بوند تک غربیوں کو نہ ملی۔
بیگ صاحب منہ کھولے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا: حیران نہ ہوں، اس ملک میں غربت ختم کرنے یا ملک کی معیشت درست کرنے کا یہی مطلب ہے۔ آپ کہتے ہیں، بندے لائیں، جو ملک کو ٹھیک کریں، جس کو ٹھیک کرنے لاتے ہیں، وہ پہلے اپنے خاندان کی حالت ٹھیک کرنے پر تل جاتا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر وزرا، ایم این ایز اور اب بڑے اور نچلے لیول تک سب یہی کام کر رہے ہیں۔ غریبوں کے نام پر انہوں نے اپنی غربت دور کی ہے۔
انور بیگ‘ جو حیرانی سے مجھے سن رہے تھے، بے بسی سے بولے: چلیں ایک کام کی بات تو ملی۔ میں نے چونک کر پوچھا: کون سی؟ انور بیگ بولے: ان بڑے سیاسی اور حکمرانوں نے اپنی تجوریاں بھر لیں... چلیں اس ملک سے کچھ غریب تو کم ہوئے!