نواز شریف کے مسلسل بیانات اور دھمکیاں سن اور پڑھ کر شیکسپیئر یاد آتا ہے ۔ جب دیوتا کسی کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں، تو وہ سب سے پہلے اس بندے کا دماغ خراب کردیتے ہیں ۔ دماغ خراب کرنے کے بعد اسے کسی سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ انسان سب سزائیں خود کو دیتا رہتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔
نواز شریف اور ان کے حواریوں نے شیکسپیئر ین ٹریجڈی ڈرامے پڑھے ہوتے تو انہیں پتہ ہوتا ،ہر بادشاہ کا ایک Tragic flaw ہوتا ہے ،جو اس کے زوال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ایک ایسی کمزوری جو اس بادشاہ کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ وہ بادشاہ فرسٹریشن یا غصے یا اپنی مجروح انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نیچے گرتا ہے کہ وہ جنگلوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔ رات محل میں سویا تھا، تو اگلا دن وہ جنگل میں بھوکا پڑا تھا۔ بادشاہ ایک مرحلے پر خود کو دیوتا سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے بغیر نہ ریاست چلے گی اور نہ ہی انسان زندہ رہیں گے۔ ہر وقت کا پروٹوکول اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پوری ہونے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ انسان اس میں ڈھل جاتا ہے۔ ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے، بادشاہ کے جلالی قصے کہانیاں، دربار میں درباریوں کے کورنش اور مسخروں کی جگت بازی بادشاہ کے لیے اہم ہوتے ہیں ۔ دربار میں وفادار ہی بیٹھ سکتا ہے،جو جتنا بڑا قصیدہ لکھ سکتا ہے، جو خوشامدی شاعری کر سکتا ہے، بادشاہ کے آبائو و اجداد کی شان و شوکت کے قصے سنا سکتا ہے، وہی بادشاہ کی رحمتوں کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ایسے بادشاہوں کو یہ یقین درباری دلاتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں اپنے جیسے لوگوں پر راج کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ ان کے اندر کچھ خاص ہے، جو باقی ریاست کی رعایا میں نہیں ہے۔ خدا نے صرف اسے کیوں بادشاہ چنا۔۔۔آخرکچھ تو اس میں خاص بات ہوگی۔۔۔!
یوں دھیرے دھیرے ایسے انسان کی نفسیات میں یہ بات بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے اور اسے ہر حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس کی کبھی کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ بادشاہ کوئی غلطی نہیں کرسکتا اور یوں بادشاہ کے اندر اپنی ذات سے اتنی محبت بھر جاتی ہے کہ وہ ابنارمل انسان بن جاتا ہے، جسے ہر وقت اقتدار میں رہنا ہے، چاہیے اس کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ انسانوں پر حکومت کرنے کا اپنا ایک نشہ ہے، جو دنیا کے سب نشوں پر بھاری ہے۔ پرانے زمانوں کو چھوڑ دیں ۔ اگر آپ جدید دور کی بھی بات کریں، تو بھی آپ کو نظر آئے گا، آج بھی بادشاہ یہی کچھ کرتے ہیں ۔ بادشاہ یہ مان ہی نہیں سکتاکہ اب ان کا زوال شروع ہو چکا۔ لیبیا کے کرنل قذافی کو دیکھ لیں۔ دیوار پر لکھا تھا کہ بغاوت ہوچکی یا کرائی جا چکی۔ وہ عوام کے ہاتھوں ایک پل کے نیچے زندہ مارے گئے، لیکن وہ ایک سائیڈ پر نہیں ہوئے۔ صدام حسین ایک بل سے پکڑے گئے، لیکن انہوںنے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ اب عراق کے صدر نہیں رہے۔ حسنی مبارک کے ساتھ یہی کچھ ہوا ۔ایک رات محل میں سوئے اگلی صبح جیل سے اسٹریچر پر ڈال کر عدالت میں ایک پنجرے میں قید تھے۔بہت سارے لوگ کہیں گے وہ بہادر لیڈر تھے، جو اپنے ملک سے بھاگے نہیں۔ ایسی بات نہیں تھی۔ صدام جس حالت میں ملے کہیں سے نہیں لگتا تھا، وہ مزاحمت کررہے تھے۔ وہ اس معاملے کو بہتر انداز میں حل کرسکتے تھے اور لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں بچا سکتے تھے۔ وہ آخر دم تک اس حقیقت کو نہ مان سکے کہ آسمان ان کا دشمن ہوچکا تھا ۔ قذافی کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کی آنکھیں کھلیں گی ،تو وہ دوبارہ صحرا میں اپنے شاہی خیمے میںاپنی خوبصورت خواتین گارڈز کے جھرمٹ میں ہوں گے۔
یہی خیال اب نواز شریف کا ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں کہ ان کا دشمن آسمان ہوچکا، لہٰذا وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے جارہے ہیں۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ایک ٹوٹی ہوئی پتنگ کے دھاگے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ شاید ڈور دوبارہ ہاتھ میں آجائے۔ اقتدار ایک ایسی ڈور ہے ،جو ایک دفعہ ہاتھ سے پھسل جائے، دوبارہ ہاتھ نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ لوگ کہیں تین دفعہ تو اقتدار نواز شریف کو ملا۔۔۔اب چوتھی دفعہ بھی مل جائے گا۔ اگر یہ بات ہوتی، تو آج قذافی ، صدام اور حسنی مبارک بھی اپنے تخت پر بیٹھے ہوتے۔ وقت سب کو روند کر نکل جاتا ہے۔ نواز شریف کے ہاتھ سے بھی وقت نکل چکا ۔ لاکھ ان کے حواری ان کو یقین دلاتے رہیں کہ ماضی کی طرح وہ دوبارہ کم بیک کرسکتے ہیں ، بات نہیں بنے گی۔ یہ نواز شریف کو بھی پتہ ہے کھیل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس لیے وہ سب کشتیاں جلا رہے ہیں ۔ رہی سہی کسر وہ ممبئی حملوں پر بیانات دے کر پوری کرچکے ہیں، جس سے ان کی اپنی پارٹی ڈر گئی ہے اور اب پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے کم لوگ ہی تیار ہے ۔ اب پانچ دن کی تاریخ مزید بڑھائی گئی ہے۔ نواز شریف تو اپنی سب کشتیاں جلا چکے ہیں،لیکن ان کے ساتھی خوفزدہ ہیں۔ وہ اس سب بغاوت کے لیے تیا رنہیں ہیں۔
اب پارٹی کے اندر بھی لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ''دنیا ‘‘اخبار کے شاندار رپورٹر طارق عزیز جو اندر کی سیاسی خبریں لانے میں کمال رکھتے ہیں کی خبر ہے کہ پچھلے اجلاس میں نواز شریف کی موجودگی میں سعد رفیق کو آصف کرمانی کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا ۔ یہ نواز شریف کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ ماضی میں بھی جاوید ہاشمی کو نواز شریف پارٹی لیڈروںکے ہاتھوں ذلیل کروا کے مزے لیتے تھے۔ جاوید ہاشمی کو ذلیل کروا کے نواز شریف کو دلی سکون ملتا تھا ، پھر یہ کام چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہونا شروع ہوا۔چوہدری نثار کو پہلے چوہدری اعتزاز احسن کے ہاتھوں قومی اسمبلی میں ذلیل کرایا گیا ، پھر پرویز رشید کو استعمال کیا گیا۔ چوہدری نثار کو دیگر وزراء کے ساتھ ایک کرسیوں کی قطار میں تیسرے چوتھے نمبر پر بٹھایا جاتا تھا جبکہ عرفان صدیقی، نواز شریف کے ساتھ برابر کرسی پر بیٹھتے تھے۔ نواز شریف کو علم تھا کہ چوہدری نثار پر اگر ذہنی تشدد کرنا ہو تو انہیں نظرانداز کرو یا پروٹوکول نہ دو۔ یہ حربہ کامیاب رہا اور چوہدری نثار کو آرام سے ایک سائیڈ پر کر دیا گیا۔ اب یہی حربہ کرمانی کے ذریعے خواجہ سعد رفیق پر آزمایا گیا ہے۔
یوں اگر دیکھا جائے ،تو نواز شریف ہر اس انسان سے خوفزدہ ہیں، جو ان کے سامنے بات کرنے کی جرأت رکھتا ہو یا تھوڑی سی خودی اس میں باقی ہو۔ جاوید ہاشمی کو دیکھ کر انہیں احساس جرم ہوتا تھا کہ وہ پانچ سال جیل میں رہا جبکہ وہ جنرل مشرف سے ڈیل کر کے جدہ نکل گئے تھے۔ لہٰذا جب جاوید ہاشمی کی ان کی موجودگی میں بے عزتی ہوتی تھی، تو وہ مزے لیتے تھے۔ ان کا احساس جرم کم ہوتا تھا ۔
سیانے کہتے تھے جب برا وقت چل رہا ہو تو اس وقت خاموشی سے ایک طرف ہو جانا چاہیے۔گاڑی کا ٹائر پھٹ جائے تو سمجھدار اسے آہستہ کرنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں ،نہ کہ اچانک ریس پر پائوں ڈال دیتے ہیں ۔ یہاں الٹ ہورہا ہے، اگر نواز شریف کا کلیہ ایک عالمی حقیقت ہوتا تو پھر ہندوستان کا بادشاہ شاہ جہاں اپنے تین بیٹوں سمیت اورنگزیب کے ہاتھوں شکست خوردہ نہ ہوتا۔ دلی کی راجدھانی تو شاہ جہاں کے پاس تھی اور اورنگزیب دلی سے سینکڑوں کلو میٹر دور بیٹھا تھا ۔ جب آسمان ہی ہندوستان کے شہنشاہ شاہ جہاں کا دشمن ہوگیا تھا ،تو پھر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں ۔ شاہ جہاں قید ہوا تو اس کے تین بیٹے اور خوبصورت پوتے اورنگزیب کے ہاتھوں ذبح ہوئے۔ شاہ جہاں کی شہزادی بیٹی اپنے باپ اور بھائیوں کے جھگڑے نمٹانے کے لیے کتنے ترلے منتیں کرتی ۔ کبھی باپ کے پائوں پکڑتی تو کبھی اپنے بھائی اورنگزیب کو بہن کی محبت کا واسطہ دے کر خط لکھتی کہ تم آجائو سب کچھ بیٹھ کر طے کر لیں گے۔ اورنگزیب کو خطرہ تھا کہ اس کا باپ اور بھائی اس کی پیاری بہن کو استعمال کر کے اسے بلا کر مار ڈالیں گے۔
یہ کچھ ہوتا ہے جب اقتدار کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو پہلے اپنے خون کے رشتوں سے اعتبار ختم ہوتا ہے ۔ نواز شریف اورنگزیب ہیں اور نہ ہی داراشکوہ ۔ ہاں! نوازشریف ہندوستان کے ایک غمزدہ بادشاہ شاہ جہاں کی پوزیشن میں ضرور ہیں، جن سے اقتدار چھن چکا یا پھر ایک تنہا ، غمزدہ اور کنگ لیئر جوگلہ پھاڑ کر جنگلی طوفان میں تقدیر سے پوچھتا پھرتا تھا کہ اس کا کیا قصور تھا ، اسے کیوں ریاست سے دربدر کر دیا گیا ؟ نواز شریف اب شاہ جہاں کی طرح وہ شہنشاہ ہے، جو شاہی قلعے کی فلک بوس فصیلوں کے اندر قید تو ہوسکتا ہے، لیکن دلی کی راجدھانی پر دوبارہ سنہری تاج پہن کر تخت نشین نہیں ہوسکتا ۔ قدرت اور ہزاروں برس پرانی انسانی تاریخ نواز شریف کے لیے اپنے ابدی اصول اور تکلیف دہ سبق تو بدلنے سے رہی۔۔۔!