میرے دوست ارشد شریف نے ٹوئٹر پر گیارہ برس پرانی تصویر شیئر کی ہے جب ارشد شریف لندن میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ اس تصویر میں نواز شریف اور ارشد شریف ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ارشد شریف نے اس تصویر پر طنزیہ سرخی جمائی ہے '' جب نواز شریف ایک انقلابی ہوتے تھے!‘‘۔ ارشد نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت یہ انقلابی لیڈر ان کی پلیٹ میں سالن بھی ڈال کر دیتے تھے۔ آج وہ ارشد شریف کا نام بھی سننا پسند نہیںکرتے ۔
سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟ نواز شریف کا یاپھر ارشد شریف کا؟
ارشد شریف کو یقینا یہ شکایت لگتی ہے‘ جس نواز شریف کو وہ جانتے ہیں یا جس نواز شریف پر وہ بھروسہ کر بیٹھے تھے‘ وہ تو یہ نہیں ہے۔ جس نواز شریف سے ان کی لندن میں ملاقات نادر چوہدری نے کرائی تھی‘ وہ بہت بدل چکا ہے۔ شاہین صہبائی ہوں ، ارشد شریف ہوں، عامر متین یا میں، ہم اس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں ‘جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ صحافی ہمیشہ حکومت وقت کا مخالف اور اپوزیشن کیمپ میں رہتا ہے۔ بلکہ ہمارے جیسے صحافی کا قریبی دوست اگر وزیر بھی بن جائے‘ تو ہم جان بوجھ کر اس سے بگاڑ لیتے ہیں۔ ہمارے وزیر دوست بھی ہماری اس چال کو نہیں سمجھتے۔ وہ پہلے دن ہی ہوائوں میں اڑ رہے ہوتے ہیں ‘لہٰذا وہ بھی اپنی اکڑ میں آجاتے ہیں اور ہمارا کام آسان کردیتے ہیں۔ عامر متین اور میں سیاستدانوں سے اس لیے بھی دور رہتے ہیں کہ کہیں آنکھ کا حیا ہی نہ کرنا پڑے اور ان کے گند کو نظرانداز کرنا پڑے کہ چھوڑو یار کل رات تو کافی اکٹھے پی تھی یا پھر کھانا کھایا تھا ‘ تاہم اس معاملے میں شاہین صہبائی سب سے آگے رہے ہیں ۔ شاہین صہبائی نے وزیروں یا سیاسی دوستوں سے پوری رات گپ شپ ماری، کمپنی کی، اور اگلی صبح ٹھوک کر اس پر لکھا کہ وہ وزیر بھونچکا رہ گیا کہ یہ کیا ہوگیا ۔ شاہین صہبائی کے قلم نے کسی کو نہیں معاف کیا ۔ اس کے بعد میرا خیال ہے ارشد شریف نے ہمیشہ انصاف کیا ہے۔
ارشد شریف جب نواز شریف سے ملا تھا اور ان کی انقلابی باتیں سنی تھیں ‘تو وہ یقین لے آیا تھا کہ جو نواز شریف کہہ رہا ہے وہ درست کہہ رہا ہے۔ ارشد شریف اور میرے جیسوں کے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا ‘جس کی حکومت وقت کے خلاف حمایت کی جاتی۔ بینظیر بھٹو جنرل مشرف سے خفیہ مذاکرات کر کے پاور کا حصہ بننے جارہی تھی۔ میں اور ارشد شریف اب جنرل مشرف حکومت کی سپورٹ کرنے سے تو رہے۔ لہٰذا بچ بچا کے نواز شریف انقلابی ہی ہمیں مل گئے تھے۔ ویسے ہم اس وقت واقعی نواز شریف کی باتوں پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ جتنی سنجیدگی اور آواز میں رقت پیدا کر کے آج اپنے دکھڑے سناتے ہیں، ماتم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا اور وہ اب انقلاب کے لیے جان لڑا دیں گے، لندن میں بھی ان کا اداکاری کا یہی انداز تھا ۔ ہم ٹھہرے ہمیشہ کے بیوقوف اور یہ سیاستدان ‘سدا کے اداکار۔ ان کے لیے آواز میں رقت پیدا کرنا ‘ چہرے پر دکھ اور اذیت کے تاثرات اور باڈی لینگویج میں ایسا انداز پیدا کرنا کہ اگلے کو فوراً ترس آنا شروع ہوجائے،معمولی سی بات ہے‘ تاہم پاکستان لوٹ کر جس طرح انقلاب اور انقلابی بھائیوں نے کرتب دکھائے اور ان کی کرپشن اور شاہانہ انداز حکومت کے کارنامے سامنے آنا شروع ہوئے، تو ارشد شریف اور میرے جیسے صحافی بہت مایوس ہوئے۔ شاہین صہبائی اور عامر متین جیسے صحافی دوسری طرف بینظیر بھٹو سے مایوس ہوئے تھے۔ ہمارے اپنے اپنے رومانس تھے‘ جو ان دونوں سے ختم ہوئے۔ ارشد شریف اور میں نے خیر ایک کام کیا ۔ اپنی غلطی مانی لیکن بات وہی کہ ہمارے پاس کیا آپشن تھا؟ کیا ہم ایک فوجی آمر کی حمایت کرتے جو ممکن ہی نہیں تھا۔ یوں ہم دونوں نے ان دونوں بھائیوں کا پردہ اٹھتے ہی خود کو ان سے دورکرلیا ۔ اتنی دیر میں وطن واپسی پر ان کی حکومت پنجاب میں آچکی تھی‘ لہٰذا ہم نے ان کی گورننس پر خبریں دینا شروع کردیں اور یوں ارشد شریف ہوں، میں ہم دونوں نواز شریف اور شہباز شریف کیمپ کے لیے برے صحافیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ اس لیے ارشد شریف نے یہ تصویر ٹوئٹ کی : شکر ہے! جواباً میں نے نواز شریف کا وہ خط ٹوئٹ نہیں کردیا‘ جس میں انہوں نے میری عظمت کے گن گائے تھے کہ میں کتنا بڑا صحافی ہوں ۔
دوسری طرف دیکھتے ہیں‘ نواز شریف ہم دونوں سے کیوں مایوس ہوئے؟
ان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ الٹا وہ حیران ہوتے ہوں گے‘ یار! میں نے کون سی ایسی بات یا حرکت کی ہے یا میرا کیا قصور ہے؟ان کا تو روز کا یہ کام ہے۔ ان کا سیاست تو کاروبار ہے‘ پیشہ ہے۔ انہیں تو روزانہ اپنے پیشے میں یہ اداکاری کرنی پڑتی ہے۔ جب اپوزیشن میں ہوں تو کیسے رو دھو کر اور اپنی مظلومیت کی کہانیاں سنا کر لوگوں اور صحافیوں کی ہمدردیاں سمیٹنی ہیں‘ جب تک حکومت نہیں ملتی ‘یہ کام جاری رکھنا ہوتا ہے۔ میڈیا کو سب سے زیادہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی سیاسی تربیت کا حصہ ہوتا ہے‘ اپوزیشن کے دنوں میں صحافیوں کو ان کے نام سے بلانا ہے۔ قریب کی نشست پر بٹھانا ہے۔ ان کی پلیٹ میں کھانا بھی ڈالنا ہے۔ یہ سب کام اس لیے کیے جاتے ہیں کہ صحافی کو اس کی اہمیت کا احساس ہوکہ وہ کتنا اہم ہے اور اس کی کیا جگہ بنتی ہے۔ یوں صحافیوں کو اس طرح بانس پر چڑھا کر ان سے وہ کام لیے جاتے ہیں‘ جو انہوں نے اقتدار میں آکر نہیں کرنے ہوتے۔ نواز شریف کے پاس ہر طرح کے پیکیج ہوتے ہیں‘ ایسے صحافیوں کے لیے جب وہ اقتدار میں آتے ہیں‘ لیکن وہ بھی سمجھدار ہوتے ہیں‘ کون کتنا مؤدب ہے اور کس نے کتنی خدمات سر انجام دی ہیں‘ لہٰذا دیکھ بھال کر ان درباریوں میں کسی کو ایم ڈی ‘پی ٹی وی تو کسی کو پیمرا کا سربراہ لگایا جاتا ہے ‘تو کسی کو لاہور میں کسی اتھارٹی کا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو کرپٹ کرنے کے لیے بیرون ملک منسٹر پریس لگانے کے لیے بھی آسامیاں نکالی جاتی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں صحافی اپلائی کرتے ہیں اور یوں ہر کوئی لابنگ میں پڑ جاتا ہے اور روزانہ کسی ایم این اے وزیر یا وزیراعظم کے درباریوں کی سفارش کراتا رہتا ہے۔
نواز شریف چار سال اقتدار میں رہے‘ کسی صحافی یا اینکر کو انٹرویو نہیں دیا ۔ چند درباریوں کے علاوہ کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ آج کل ان کا سارا وقت صحافیوں کے درمیان گزرتا ہے اور وہی کہانی دہرائی جارہی ہے ‘جو لندن میں ہم روزانہ دربار میں سنتے تھے۔ اس وقت بھی ان کی مظلومیت کی کہانیاں ختم نہیں ہوتی تھیں‘ اب تو مزید ان کہانیوں میں مصالحہ ڈالنے کو مل گیا ہے۔
اگر آپ نے نواز شریف کو سمجھنا ہے‘ تو یہ ذہن میں رکھیں‘ جو نواز شریف وزیراعظم ہوتا ہے‘ وہ صحافیوں سے نہیں ملتا ، کسی اینکر کو انٹرویو نہیں دیتا ، وہ پارلیمنٹ نہیں جاتا ، وہ ایک سو سے زائد ملکوں کے دورے کرتا ہے، کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ نہیں بلاتا، اسحاق ڈار کو چوراسی کمیٹیوں کا سربراہ بنا دیتا ہے اور پاکستان سے تین سو دن بیرون ملک رہتا ہے۔ وہ ہر ہفتے لندن جاتا ہے۔ اپنے بیٹے حسین نواز سے سوا ارب روپے نقد تحفہ لیتا ہے، اس میں سے اپنی بیٹی مریم کو پچاس کروڑ روپے دے دیتا ہے۔ وہ نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی دبئی میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے بچوں راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں۔ وہ کارگل پر کمیشن نہیں بناتا بلکہ الٹا جنرل مشرف کے تمام ساتھیوں کو وزیر بنا دیتا ہے۔ وہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کو جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کے لیے بھیجتا ہے۔ وہ آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں کرتا ہے اور اپنے تئیں قابل بھروسہ جنرل چنتا ہے‘ جس سے کچھ دن بعد اس سے خود لڑ بھی پڑتا ہے۔
لیکن جب وہی نواز شریف اقتدار سے باہر ہوتا ہے‘ تو وہ مظلوم بن جاتا ہے‘ وہ انقلابی بن جاتا ہے‘وہ ماتم کرتا ہے‘ وہ مکے لہراتا ہے‘ جو وہ اقتدار میں ان جرنیلوں اور سیاستدانوں کو مارنا بھول گیا تھا ‘جو اس کے دشمن تھے۔ وہ نئے نئے وعدے کرتا ہے‘ وہ لوٹوں کے خلاف تحریک چلاتا ہے‘ وہی لوٹے جنہیں بعد میں وہ وزیر بناتا ہے۔ وہ وعدے کرتا ہے ‘جو اس نے اقتدار میں جا کر بھول جانے ہوتے ہیں۔ وہ کارگل پر کمیشن بنانے کا وعدہ کرتا ہے‘ وہ فوجیوں کا ٹرائل کرنے کی بڑھکیں مارتا اور روتی آواز میں پوچھتا ہے'' مجھے کیوں نکالا؟‘‘ وہ جرنیلوں کے راز کھولنے کی دھمکیاں دیتا ہے اور وہ انقلاب لانے کے دعوے کرتا ہے‘ جو وہ تین دفعہ وزیراعظم بن کر نہ لاسکا تھا ۔
اب آپ ہی بتائیں ‘ہم کس نواز شریف پر اعتبار کریں‘ وزیراعظم نواز شریف پر یا اپوزیشن لیڈر والے نواز شریف پر؟