لیہ سے ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال کا فون آیا‘ آواز میں افسردگی تھی۔ بولے: بھائی رئوف! مجھے پیپلز پارٹی نے برطرف کردیا ہے۔ مجھے یہ افسردہ آواز 1985ء میں لے گئی‘ جب میری نانی گائوں میں بیمار تھی ۔ نعیم بھائی اپنے ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ گھر آئے‘ جنہوں نے نانی کو چیک کیا ۔ ڈاکٹر کنجال کے ساتھ شاید ڈاکٹر شہانی اور ڈاکٹر اشو لال بھی تھے۔
اس وقت پہلی بار ان سب کو دیکھا ۔ وہ نعیم بھائی کے بہاولپور میڈیکل کالج میں سینئرز اور جونیرز تھے‘ پھر ان سب کا گھر میں ہر وقت ذکر سنا۔ نعیم بھائی جب چھٹیوں پر گھر آتے‘ تو اماں کو گھنٹوں کالج کے ایگلز اور دوستوں کی کہانیاں سناتے۔ اماں گھنٹوں سنتیں ۔ ہماری پوری دنیا گائوں تھا ‘لہٰذا جب نعیم بھائی بہاولپور میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹس پالیٹکس کی باتیں سناتے تو عجیب سا رومانس محسوس ہوتا ۔ نعیم بھائی لیفٹ کی سیاست کرتے تھے ؛چنانچہ وہ ایگلز کے بہاولپور میں چیف بھی رہے۔ دو تین دفعہ وہ کالج سے نکال دیے گئے‘ لڑائی جھگڑوں کے مقدمے بھگتے‘ لیکن یہ باتیں اماں کو نہ بتاتے تھے۔ اماں تک ادھر ادھر سے باتیں پہنچتی رہتی تھیں کہ تمہارا بیٹا تو وہاں کسی سٹوڈنٹس پارٹی کا سربراہ ہے‘ لڑائیاں کرتا ہے۔ ہر ماں کی طرح اماں بھی یہی سمجھتیں تھیں کہ ان کا بیٹا ایسے کام نہیں کرسکتا ۔ ہم بھی یقین نہ کرتے ‘کہ ہمارا بھائی تو ہم سے پیار کرتا ہے‘ وہ کیسے کالج میں لڑائیاں کرتا ہوگا ؟۔ یہ سب راز کی باتیں سلیم بھائی کو پتہ ہوتیں۔ وہ مارشل لاء کا دور تھا اور ہمارے عزیز میجر نواز ملک ملتان میں تعینا ت تھے‘ ان کی سفارش سے نعیم بھائی کی دو تین دفعہ بچت ہوگئی۔ مجھے ایگلز میں ان کے رول کے بارے اس وقت پتہ چلا‘ جب لیہ کالج گیا۔ میرے روم میٹ قاسم نے‘ جو ڈیرہ غازی خان کے ایک قبیلے سے تھا‘ میرا نام سن کر کہا کہ تم ڈاکٹر کلاسراکے بھائی ہو؟ اس کا اپنا بھائی بہاولپور میں ڈاکٹر تھا ۔ قاسم نے اپنے بھائی سے سنی ہوئی‘ وہ سب کہانیاں مجھے سنائیں‘ تو میری آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں۔ میں نے بھی ڈر کے مارے اماں کو نہ بتایا کہ ان کا رومانس نہ ٹوٹ جائے۔ یہ اور بات ہے جب بابا اور اماں فوت ہوئے‘ تو پھر نعیم ایسے بدلے کہ مڑ کر پیچھے نہ دیکھا اور ہمیں ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
انہی دنوں ڈاکٹر جاوید بہاولپور سے ڈگری لے کر لیہ تعینات ہوئے اور انہیں سیاست کا شوق چرایا۔ وہ شروع سے ہی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے شیدائی تھے۔ نعیم بھائی کو کبھی ان جیالوں نے متاثر نہ کیا تھا ؛چنانچہ وہ اکثر ڈاکٹر جاوید کنجال کا مذاق اڑاتے۔ وہ کہتے تھے یہ سب ڈاکٹرز جو سیاست میں آنا چاہتے ہیں‘ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ابھی بہاولپور میڈٖیکل کالج میں ایگلز کے سربراہ یا لیڈرز ہیں۔ وہ ڈاکٹر جاوید کے سیاست میں ایکٹو ہونے کے خلاف تھے۔ خیر وہی ہوا‘ ڈاکٹر جاوید نے پہلی دفعہ 1988ء کے الیکشن میں کھل کر پیپلز پارٹی کو لیہ میں سپورٹ کی اور سیاسی مخالف ایم پی اے نے ان کا تبادلہ راجن پور کرادیا ۔ ڈاکٹر جاوید پر اپنے بھائی بہنوں کا بوجھ تھا‘ انہوں نے راجن پور جانے کی بجائے استعفیٰ دے دیا اور اپنا کلینک کھول لیا اور پیپلز پارٹی کو مضبوط کرتے رہے۔ نواز لیگ کے ایم پی اے نے مزید سزائیں دینے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر جاوید پر کسی کے قتل کا مقدمہ درج کرادیا۔ مجھے یاد ہے‘ وہ لیہ تھانے میں قید تھے‘ اماں نے مجھے ان کے لیے کچھ چیزیں دے کر تھانے بھیجا تھا کہ وہ بھی نعیم کی طرح میرا بیٹا ہے۔ میں تھانے کی سلاخوں کے پیچھے انہیں اماں کی بھیجی ہوئیں‘ وہ چیزیں دے آیا ۔
ڈاکٹر جاوید کنجال پر کل پچاس سے زائد قتل ‘ اقدام قتل‘ اغواء ‘ ریپ اورڈاکے کے جھوٹے اور انتقامی پرچے نواز لیگ کے ایم پی اے نے کروائے۔ ان کے باپ پر بھی مقدمے درج کروائے گئے۔ ایک دن لیہ والوں نے وہ بھی دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں ایک ہی ہتھکڑی میں گرفتار کر کے تھانے لائے گئے۔ نعیم جب بھی گھر آتے‘ تو سب دوستوں سے پھر ملاقات ہوتی اور وہی ڈاکٹر کنجال پر مذاق اور جگتیں ہوتیں۔ ڈاکٹر جاوید کنجال بھی ضد کا پکا نکلا اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر کنجال ان لوگوں میں سے تھے ‘جو واقعی عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے میں غربت کے مارے لوگوں کی خدمت کے لیے بڑے پیمانے پر فری میڈیکل کیمپس لگانے شروع کر دیے۔ علاقے میں ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ کروائے تو خوفناک نتائج نکلے۔ چالیس فیصد تک غریب اس بیماری کا شکار تھے۔پتہ چلا کہ لیہ ہسپتال میں تو میڈیسن تک نہیں ۔ مجھے فون کیا کہ اپنے ٹی وی شو میں بات کرو۔ میں نے ایشو اٹھایا تو‘ اللہ بھلا کرے ‘اس وقت کے وزیرصحت خواجہ سلمان کا‘ انہوں نے نوٹس لیا اور ٹیم بھی لیہ بھیجی اور دوائیاں بھی ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال پیپلز پارٹی میں اتنے رچ بس گئے تھے کہ دس سال قبل جب میانوالی سے میرے دوست ڈاکٹر شیرافگن نے پیپلز پارٹی چھوڑی اور میں نے ان کے حق میں کالم لکھا تو انہوں نے مجھے بہت سخت میسج کیا‘ جس کی مجھے ان سے توقع نہ تھی۔ اس میسج میں انہوں نے مجھے بہت سنائیں اور پیپلز پارٹی کے بارے میں بہت اعلیٰ خیالات دہرائے اور مجھے کہا: میں گمراہ ہوگیاہوں ۔ میں نے وہ میسج نعیم بھائی کو بھی نہ بھیجا کہ وہ اسے پڑھ کر بلاوجہ ہرٹ ہوں گے ۔
ڈاکٹر جاوید کو احساس ہوا کہ بڑے سیاسی لوگوں سے ملے بغیر ان کی پیپلز پارٹی میں جگہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے ملتانی پیروں کے قریب ہونا شروع کردیا ۔جب مجھے ملتے تو ملتانی سیاسی پیروں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ۔ میں چپ رہتا‘ کیونکہ میں ان سب کو قریب سے جانتا تھا ۔ کبھی ڈاکٹر بندے لے کر لاہور جلسے پر جارہے ہیں تو کبھی ملتان میں بس بھر کر تو کبھی اسلام آباد میں زرداری کا جلسہ کامیاب بنانے کے لیے جارہے ہیں۔ کئی دفعہ کہا: جب اسلام آباد آئیں تو میرے گھر ٹھہرا کریں ‘ وہ انکار کر دیتے کہ ساتھ درجنوں پیپلز پارٹی ورکرز ہوتے ہیں‘ کارکنوں کو چھوڑ کر خود آپ کے گھر سوئوں اور وہ سڑکوں پر سوئیں۔ وہ ان کے ساتھ ہی سڑکوں پر راتیں گزارتے۔ اس دوران لیہ میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو ناظم کو گھر سے ہرایا ۔
اب تیس سال بعد پتہ چلا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ملتان کے سیاسی پیر کو لگژری ٹیکس ادا کرنے کے لیے تین کروڑ روپے کی ضرورت تھی ۔ بولی لگنی شروع ہوئی‘ ایک نوجوان نے کہا: جناب وہ یہ ٹیکس اداے کرے گا ‘ اور پارٹی ٹکٹیں ان کے ہاتھ میں تھما دی گئیں ۔ وہ ڈاکٹر جو تیس برس تک پارٹی کے لیے دوستوں سے لڑا‘ نعیم بھائی کی جگتیں برداشت کیں اور مجھے سخت میسجز کیے ‘اسے ٹکٹ نہیں ملی ۔ ملتان سے حکم ہوا: ڈاکٹر! اس نودولتیے امیدوار کو سپورٹ دو۔ ایک نودولتیا دبئی‘ سعودی عرب سے شیخوں کی زکوٰۃ اکھٹی کر کے لاتا ہے ۔ اس زکوٰۃ سے افطاریاں کروا کے انہوں نے لیہ میں جگہ بنا لی۔ اس زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ وہ باقاعدگی سے ملتان بھی اپنے سیاسی پیروں کو پہنچاتے رہے۔
اب ڈاکٹر کنجال نے اکیلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس پر وہ ملتانی سیاسی پیر نے جو عربوں کی زکوٰۃ میں سے اپنا حصہ وصول کرچکے تھے‘ ڈاکٹر کنجال کو پہنچانے سے انکار کر دیا ۔ وہ ملتانی سیاسی پیر جو کبھی ڈاکٹر کنجال کو کہتے تھے: میرے چار نہیں پانچ بیٹے ہیں ۔ ڈاکٹر کنجال جس نے ان ملتانی سیاسی پیروں کی بھی بہت 'خدمت‘ کی ‘ انہیں جنرل سیزر سے بھی زیادہ دکھ ہوا جو اسے بروٹس کو خنجر مارتے دیکھ کر ہوئی تھی۔ وہ سیاسی پیر جو اسے پانچواں بیٹا کہتے تھے‘ ایسے پیش آئے ‘جیسے جانتے تک نہیں۔ ڈاکٹر جیسا خوبصورت بندہ ایک اور دکھ لیے لیہ لوٹ آیا۔
مجھے کل ڈاکٹر کنجال کا فون آیا اور بولے: بھائی رئوف! مجھے پیپلز پارٹی نے برطرف کردیا ہے۔بولے: دراصل میں نے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا تھا کہ تم نے نعیم کو میرا وہ میسج تو نہیں بھیجا تھا ؟میں چپ رہا ۔ اسلام آباد کی اس اداس شام‘ میں ایک افسردہ اور دکھی ڈاکٹر کنجال سے یہ پوچھنے کا حوصلہ نہ کر سکا کہ انہیں دس برس قبل پیپلز پارٹی کی محبت میں مجھے بھیجا وہ سخت میسج آج ہی کیوں یاد آیا‘ جب نعیم بھائی کو فوت ہوئے بھی پانچ برس گزر گئے ہیں!