بلوچستان میں ہونے والے قتلِ عام پر مجھے پیپلز پارٹی دور میں وزیراعظم گیلانی کی صدارت میں ہونے والا ایک کابینہ اجلاس یاد آگیا ۔ اس اجلاس میں اس وقت کے چیف سیکرٹری نے بریفنگ دی تھی کہ بلوچستان کے حالات خراب ہونے کے پیچھے کیا عوامل ہیں ۔ باقی باتیں ایک طرف ایک بات مجھے آج بھی نہیں بھولتی جو اس بریفنگ میں کی گئی تھی اورجوبعد میں میرے ہاتھ لگ گئی ۔ چیف سیکرٹری نے اجلاس کو بتایا کہ بلوچستان کا اپنا کوئی مسئلہ نہیں ‘ بلوچستان کے سب مسائل کی جڑ اسلام آبادمیں بیٹھے ہوئے پالیسی میکرز ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے چیف سیکرٹری نے کابینہ کو بتایا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اسلام آباد اور پنڈی میں بنائی گئی سکیورٹی اور فارن پالیسی کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے‘ اگر اسلام آباد چاہے تو آج بلوچستان میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ایک تجویز دی تھی کہ بہتر ہوگا ‘ آپ خطے میں ان ملکوں سے تعلقات بہتر بنائیں جن کے ساتھ ہمارے ایشوز ہیں اوران ایشوز کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ بلوچستان میں امن خود بخود قائم ہوجائے گا۔ اگرچہ چیف سیکرٹری نے کسی ملک کا نام نہیں لیا ‘لیکن یہ بات واضح تھی کہ ان کا اشارہ ہندوستان، افغانستان اور ایران کی طرف تھا ۔
چیف سیکرٹری نے اپنی بات پوری کر لی اوراپنی ڈیوٹی دے دی ۔ان کو علم تھا کہ جن لوگوں کو وہ بریفنگ دے رہے ہیں اور مسائل کا حل بتا رہے ہیں وہ بھی گونگے اور بہرے ہیں‘ ان کا زور صرف اپنا ذاتی اقتدار اور پیسہ بنانے پر خرچ ہوتا ہے‘وہ اپنی ذات کے لیے ہر مسئلہ حل کرنے کو تیار ہوں گے‘ لیکن وہ ملک اور قوم کے لیے بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ چیف سیکرٹری کو پتہ تھا کہ جو لوگ سکیورٹی اور فارن پالیسی بناتے ہیں وہ ان سیاسی حکمرانوں کی پروا نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس خطے میں کوئی ایسی ڈیل کر سکتے ہیں جس سے سب کو سکون ہو۔ اتنی جرأت گیلانی اور اس کی کابینہ میں نہ تھی کہ وہ آگے سے سکیورٹی اور فارن پالیسی بنانے والوں کو یہی مشورہ دے سکتے جو انہیں ایک سویلین چیف سیکرٹری نے دیا تھا ‘کہ بلوچستان میں ہم امن چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خطے میں امن کی نئی ڈیل کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ کہہ کر جان نہیں چھڑانی چاہیے کہ کیا کریں دشمن ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں ‘یا دشمن کی گولی کا جواب ہم توپ سے دیں گے۔ وہ ایک پراکسی وار لانچ کریں گے تو ہم دس کریں گے۔
یہ بریفنگ آج سے سات برس پہلے دی گئی تھی اور آج بلوچستان کی حالت پہلے سے بگڑ چکی ہے ‘کہ ایک حملے میں ایک سو تیس سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ ا گر ہم نے پالیسی نہ بدلی تو سات برس بعدبھی شاید یہ صورتحال ہو کہ ہم یہ جنگ لڑ رہے ہوں ۔
جب ہم کہتے ہیں کہ آپ خطے میں نئی امن کی ڈیل کریں تو جواب ملتا ہے کہ دشمن ڈیل کرنے کو تیار نہیں ہے‘ وہ سی پیک کے دشمن ہیں ۔ سات برس پہلے تو بلوچستان میں سی پیک نہ تھا جب چیف سیکرٹری بلوچستان میں بدترین دہشت گردی اور تشدد کی وجوہات گیلانی کابینہ کو بتا رہا تھا ۔ میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دشمن کو زیادہ امن کی ضرورت ہے یا ہمیں؟ جب تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر لیں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بھارت کے ساتھ ایک پوائنٹ ایجنڈے پر بات ہوسکتی تھی کہ نہ آپ ہمارے ہاں پراکسی وار کریں گے اور نہ ہی ہم۔ نہ آپ ہمارے دوست ہیں اور نہ ہم دشمن‘ جہاں ہمارے ایشوز ہیں جیسے‘ کشمیر ‘اس پر ہم اپنا موقف رکھیں گے اور کوششیں کرتے رہیں گے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوا ور کشمیریوں کی پرامن حمایت جاری رکھیں گے۔ افغانستان کے ساتھ بھی اسی طرح کی ڈیل ہوسکتی ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ دو سال قبل پاکستان فارن آفس کے سینئر سفارت کاروں ‘ جن میں اکثر سابق فارن سیکرٹریز رہے تھے ‘ نے ایک انگریزی اخبار میں ایک کالم لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنی پالیسی میں بہت بڑے یوٹرن یا تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے دلائل دیے گئے تھے کہ اس وقت دنیا پاکستان کے حق میں نہیں ‘ دنیا کا ماحول بدل چکا ہے‘ یورپ تک دہشت گردی کا شکار ہے‘ عرب ورلڈ خود بڑے بحران میں ہے‘ داعش کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے؛چنانچہ ہمیں افغانستان کے ساتھ معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سینئر سفارت کاروں نے یہ بھی لکھا کہ ہمیں کابل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے نہ کہ افغان طالبان کے ساتھ‘ جو روزانہ کابل میں بم دھماکوں میں افغانوں کو مار رہے ہیں۔ یہ سب کچھ لکھنے والے وہ افسران تھے‘ جنہیں امریکہ اور بھارت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ دنیا بدل رہی ہے‘ لہٰذا ہمیں خود کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ ہمیں افغان جنگ کی جنرل ضیاء دور کی پالیسی سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں افغانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرنے ہوں گے۔ ہم یہ افورڈ نہیں کرسکتے کہ ہمارے تین ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سرحدوں پر ہر وقت فائر چل رہا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ اکتوبر دو ہزار چودہ میں ایک ہی روز میں پاکستان کا افغانستان‘بھارت اور ایران باڈر پر فائر ایکسچینج ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہم سب کو دشمن بنا کر رکھیں گے یا پھر ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ دشمنی کم کرنے کی کوشش بھی کریں گے؟ دشمنی تو چین اور تائیوان میں بھی بہت ہے‘ دشمنی تو چین اور جاپان میں بھی ہے۔ دشمنی تو امریکہ اور نارتھ کوریا میں بھی چل رہی ہے۔ تو کیا وہ سب ملک روزانہ فائرنگ کررہے ہیں ؟ سو فیصد امن ممکن نہیں ہے‘ لیکن کچھ نکات طے کیے جاسکتے ہیں اور سب سے پہلا نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ سب ملک ایک دوسرے کے ہاں پراکسی جنگ سے گریز کریں‘ کیونکہ اس میں معصوم لوگ مارے جاتے ہیں ۔
ہمیں اس خطے کے سب معصوم لوگوں کی حفاظت کا سوچنا چاہیے ‘ پھر ہی ہمارے پاکستانی محفوظ ہوں گے۔ میرے ہمسائے میں آگ لگی ہواوروہ آگ جلدی نہ بجھی تو وہ میرے گھر کو بھی جلا دے گی۔ میں نے ایک دفعہ اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے اچھا کام کیا کہ وہ کابل گئے ہیں اور ان کے کئی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جنرل باجوہ کو کابل میں اچھا استقبال دیا گیا ۔ اس طرح وہ ایران گئے اور وہاں بھی حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ‘جو جنرل راحیل کے دور میں خراب ہوگئے تھے‘ جب ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے موقع پر کلبھو شن کا معاملہ سامنے آیا اور ایران کو ملزم ٹھہرایا گیا ۔
میری یہ تجویز تھی کہ جس طرح کے حالات سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس میں غیرمعمولی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ جنرل باجوہ کابل اور ایران کی طرح بھارت کا بھی دورہ کریں۔ ماضی میں کئی فوجی جرنیل بھارت کا دورہ کرتے رہے ہیں ‘جن میں جنرل ضیاء اور جنرل مشرف بھی شامل ہیں۔ بہتر ہوگا کہ جنرل باجوہ بھی الیکشن کے بعد آنے والی سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔ اپنے فوجی کمانڈروں کو اعتماد میں لیں اور بھارت کا دورہ کریں اور ون پوائنٹ ایجنڈے پر اتفاق کرائیں کہ دونوں ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی کو پروموٹ نہیں کریں گے۔ اپنے اپنے مؤقف پر بے شک قائم رہیں‘لیکن ایک دوسرے کے ملک میں وہ پراکسی وارز سے پرہیز کریں۔ اگر دونوں ملک ایک دوسرے سے تجارت کو بڑھا سکتے ہیں تو انہیں بڑھانا چاہیے۔ کشمیر کے معاملے پر وہ جنرل مشرف اور من موہن سنگھ فارمولے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ سب کام ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں اس سے مشکل مسائل کے حل تک نکلے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ کون بھارت‘ ایران اور افغانستان کے ساتھ کوئی نیا امن معاہدہ کرنے کی علاقائی کوشش کرے؟
جب تک کوئی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے گھنٹی باندھنے کو تیار نہیں ہوگا‘ بلوچستان اور پاکستان لہو لہان ہوتا رہے گا‘ ہر دفعہ معصوم پاکستانیوں کے قتل عام پر مذمتی بیانات جاری ہوتے رہیں گے‘ غریب پاکستانیوں کا لہو بہتا رہے گا ۔ سٹیٹس کو برقرار رکھنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ دریا کی لہروں کے مخالف تیرنا اور لہروں کا مقابلہ کر کے ساحل تک پہنچنا ہی بہادری ہوتی ہے۔ دریا کی لہروں کے ساتھ ساتھ تو سب ہی تیر لیتے ہیں! کسی نہ کسی کو تو اس بدقسمت خطے میں عام غریب پاکستانیوں کی خاطر امن کے دشمن‘ خونخوار بھینسے کو سینگوں سے پکڑنا ہوگا ! جنرل باجوہ ہمت کرسکتے ہیں تو ست بسم اللہ۔