"RKC" (space) message & send to 7575

عام پاکستانی کا استعمال

اگر آپ لوگ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم کے لیے بنائے گئے فنڈ کو دیکھیں تو زیادہ تر عام لوگ ہی اپنی جیب اور تنخواہوں سے عطیہ دے رہے ہیں۔ باقی وہ لوگ ہیں جو چیف جسٹس کے ڈر سے فنڈ میں چندہ دے رہے ہیں‘ دل سے نہیں۔ 
جب نواز شریف نے بیس سال قبل قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا تھا تو بھی عام پاکستانی نے ہی اپنی جیب کاٹ کر پیسے دیے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد وہ لوگ عزت دار کہلوا سکتے ہیں کہ اب دنیا کے کسی امیر ملک کے غلام نہیں۔ اس وقت شاید ہر پاکستانی صرف چند ہزار روپے کا مقروض تھا اور آبادی سولہ کروڑ کے قریب تھی۔ آج بیس برس بعد بائیس کروڑ کی آبادی ہے اور ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ کہاں گیا قرض اتارو ملک سنوارو؟
دوسری طرف ہم نے دیکھا‘ بینکوں سے قرضہ لے کر تین سو ارب روپے معاف کرا لیے گئے۔ جنرل مشرف دور میں ساٹھ ارب روپے معاف ہوئے تو پیپلز پارٹی دور میں ایک سو تیس ارب روپے معاف ہوئے‘ اور نواز دور میں بھی فگر ایک سو ارب روپے عبور کر گیا۔ 
میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جب غریب لوگ اپنی جیب کاٹ کر ایک ایک روپیہ بینک میں قرض اتارو مہم میں جمع کرا رہے تھے‘ اسی وقت بینک اربوں روپوں کے قرضے بڑے لوگوں کے معاف کر رہے تھے۔ بڑے لوگوں کو کیوں محسوس نہیں ہوتا کہ ملک ڈوب رہا ہے؟ یا وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے مال بنا کر بیرون ملک جائیدادیں خرید لی ہیں‘ بچے باہر سیٹل ہو گئے ہیں؟ اب بھی جب عام لوگ ڈیم کے لیے چندہ دے رہے ہیں‘ امیر لوگ طریقے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کیسے اربوں روپے بچائے جائیں۔ 
سنتے تھے‘ سرمایہ دارانہ نظام طاقتور لوگوں کے تحفظ اور کمائی کے لیے بنا ہے۔ عام انسان اس میں ایک ایسا ایندھن ہے جسے طاقتور اور زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنے فوائد اور عیاشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غریب کو وطن اور دھرتی سے محبت کا درس دے کر لوٹا جاتا ہے اور وہ بھی خوشی خوشی لٹتا رہتا ہے۔ اب ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سرمایہ دار کی ہوس بڑھ رہی ہے کم نہیں ہو رہی۔ جب یہ سب انکشافات سامنے آتے ہیں تو دل دُکھتا ہے۔ رپورٹر ہونا بھی ایک عذاب ہے۔ آپ کو ایسی ایسی باتوں کا پتا چلتا رہتا ہے جن پر دوسرے یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
ابھی مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی ایک سٹوری بریک کی کہ کیسے درجنوں بڑے لوگوں نے اپنے کاروبار میں سے اربوں روپے ناجائز طریقے سے نکلوا لیے‘ جسے انہوں نے اپنے تئیں منافع کا نام دیا۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی کاروبار سے منسلک لوگ آپس میں ایکا کر لیتے ہیں کہ وہ قیمتوں کو مل کر بڑھائیں گے اور سب اس کو فالو کریں گے۔ یوں مارکیٹ میں مقابلہ ختم ہو جاتا ہے اور آپ کو ہر چیز ایک ہی قیمت پر ملتی ہے جو زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو‘ شوگر مل مالکان چند برس پہلے چینی کی قیمت ایک سو بیس روپے تک لے گئے تھے۔ سب شوگر مل مالکان اس میں شریک تھے۔ اربوں روپے عوام کی جیب سے نکل گئے تھے۔ دیگر سیکٹرز میں بھی یہ کام ہوتا ہے۔ مالکان آپس میں ایک پرائس فکس کرکے عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی شرائط اور قیمت پر چیز خریدیں۔ یہی کام ہم نے کھاد، سیمنٹ اور ٹیلی کام سیکٹر میں دیکھا کہ کسانوں اور عام لوگوں کی جیب سے اربوں روپے نکلوا لیے گئے۔ اس پر مسابقتی کمیشن نے ان کو چھبیس ارب روپے کے جرمانے کیے۔ یہ جرمانے دس سال پہلے ہوئے تھے۔ ان بڑے کاروباریوں نے بڑے بڑے وکیل ہائر کرکے عدالتوں سے سٹے لے لیے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں 26 ارب روپے جو جرمانہ تھا وہ برسوں سے ادا نہیں ہوا۔ یہ پیسہ ان کا نہیں تھا بلکہ عوام کا پیسہ تھا جو ناجائز منافع کے نام پر ان کمپنیوں نے کمایا۔ جب ان کو سزا ہوئی تو انہوں نے عدالتوں سے سٹے لے لیے اور بعض سٹے تو ایسے ہیں جو دس برس سے جاری ہیں۔ اتنے طویل عرصے کے لیے سٹے کیسے دیئے جاتے ہیں؟ اگر جرمانے غلط کیے گئے تھے تو پھر ان کو ختم کر دیا جاتا۔ جرمانے ایسے ہی نہیں لگتے۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک انکوائری ہوتی ہے۔ پارٹی کو بلا کر ان کا موقف لیا جاتا ہے اور پھر ایک ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے۔
یہی کام بینک کے قرضوں میں بھی ہوا ہے۔ پنجاب بینک کے پچاس ارب روپے کے قرضے پچاس لوگ کھا گئے۔ جب بینک نے ریکوری کرنی شروع کی اور نیب کو کیس بھیجا گیا تو ان سب نے بھی عدالتوں سے سٹے لے لیے۔ یوں کل مل ملا کر اب 75 ارب روپے کی ریکوری اس لیے رک گئی ہے کہ پارٹیاں پچھلے پانچ دس سال سے سٹے پر ہیں۔ 
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں‘ حکومت ان لوگوں سے پیسے ریکور کرنے کی بجائے الٹا عوام پر نئے ٹیکس لگا رہی ہے۔ چند ارب اکٹھے کرنے کے لیے پٹرول گیس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں لیکن جو حکومت کا اپنا پیسہ ہے وہ ریکور نہیں کراتی۔ آپ کو یاد ہوگا سرکلر ڈیٹ میں 480 ارب روپے کی ادائیگیوں کا جب آڈٹ ہوا‘ تو اس میں انکشاف ہوا تھا کہ اسحاق ڈار نے ادائیگی کرتے ہوئے دو کام کیے تھے۔ ایک تو انہوں نے پاور پلانٹس کو 32 ارب روپے جرمانہ ادا کیا تھا۔ دوسرے حکومت پاکستان نے جو 22 ارب روپے جرمانہ ان پاور پلانٹس کو مختلف خلاف ورزیوں پر کیا ہوا تھا وہ معاف کر دیا تھا۔ حالانکہ پاور پلانٹس سے وہ جرمانہ آرام سے معاف کرایا جا سکتا تھا کیونکہ وہ پیپلز پارٹی حکومت کو آفر کر چکے تھے۔ چلیں آپ بہت ایماندار ہیں اور جرمانہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کیا اپنا 22 ارب روپے جرمانہ بھی معاف کر دیں گے؟ یوں پاکستانی تاریخ کا عجیب کام ہوا کہ 54 ارب روپے‘ جو بچائے جا سکتے تھے‘ آرام سے اسحاق ڈار نے پاور کمپنیوں کے بینک اکائونٹس میں ڈال دیے اور وہ بھی ایک دن میں۔ تو آپ کا کیا خیال ہے‘ اسحاق ڈار اتنے سادہ ہیں کہ انہوں نے پاور کمپنیوں کو جو 54 ارب روپے کا فائدہ دیا‘ وہ مفت میں دیا ہو گا کہ چلیں کوئی بات نہیں؟ امریکن ایسے ہی نہیں کہتے کہ دنیا میںکوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ ہر محکمے میں جو بھی بڑے چھوٹے سرکاری اور سیاسی زکوٹے اربوں روپوں کی فیورز کارپوریٹ سیکٹر کو دیتے ہیں وہ ایسا پہلے اپنا حصہ لے کر کرتے ہیں۔
اس مائنڈ سیٹ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہر طرف یہی کچھ ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب بینک کا 75 ارب روپیہ رکا ہوا ہے‘ لیکن مجال ہے آپ کو کہیں سے کوئی حرکت نظر آ جائے۔ ہاں روزانہ کی بنیاد پر آپ کو پٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھتی ہوئی ملتی ہیں۔ ابھی اسد عمر کو بھی اسی لائن پر لگا دیا گیا ہے کہ جناب چھوڑیں آپ کس چکر میں پڑ گئے ہیں‘ سیدھا سیدھا نئے ٹیکس لگائیں اور چند سو ارب روپے اکٹھے کر لیں۔ انہیں کوئی نہیں بتا رہا کون سے ایسے سیکٹرز ہیں جہاں سے وہ یہی چند سو ارب روپے قانونی طور پر واپس لے سکتے ہیں اور عوام پر نیا عذاب ڈالنے کی بجائے آپ ان کو آسانیاں فراہم کرسکتے ہیں۔ 
میرا بیس سال کا رپورٹنگ کا تجریہ تو یہی کہتا ہے کہ ہر حکومت اپوزیشن میں جو دعوے کرتی ہے اور کرتی جاتی ہے وہ حکومت ملتے ہی وہی کام کرتی ہے جس پر کبھی اسی کی طرف سے تنقیدکی جاتی تھی۔ یہ طے ہے کہ پاکستان میں اگر آپ امیر ہیں تو سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیں، لیڈروں کو جہازوں پر سیر کرائیں، عمرے کرائیں، نئی نئی گاڑیاں خرید کر دیں، گھر کے اخراجات برداشت کریں اور سرکاری افسران کے ہاتھ بھی گیلے کرتے رہیں، تو آپ نہ صرف ریاست، ریاست کے وسائل اور اس کے عام شہریوں کو بھی جی بھر کر لوٹ سکتے ہیں۔ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کارروائی ہونے بھی لگے گی تو ایک تگڑا وکیل کرکے اربوں روپوں کی ریکوری کے خلاف سٹے آرڈر لے لیں۔ 
رہی بات عام پاکستانیوں اور شہریوں کی تو ان کا ایک ہی استعمال ہے۔ جب بڑے لوگ لوٹ مار کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور بینک اکائونٹس بنا رہے ہوں، وہ حکومتوں کو پینے کے پانی تک نت نئے ٹیکس دیں، بڑے کاروباریوں سے کھال اتروائیں، بچوں کو خود تعلیم دلائیں‘ صحت پر خود خرچ کریں اور اگر پھر بھی کچھ جیب میں بچ جائے تو وطن کی محبت میں قرض اتارو ملک سنوار اور ڈیم فنڈ کے لیے چندے دیتے رہیں۔ یہ سوچ کر کہ کبھی تو نئی صبح طلوع ہو گی۔
ویسے یہ سب سیاسی ٹھگ، کاروباری فراڈیے اور بے رحم لٹیرے ان عام پاکستانیوں پر ہنستے تو ہوں گے؟ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں