قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کا ضمیر آخر جاگ ہی گیا ۔ جب یہ ضمیر اسمبلی کے اندر جاگ رہا تھا تو مجھے کچھ عرصہ پہلے کی ملاقات یاد آئی۔ ارشد شریف‘ انور بیگ اور میں کوہسار مارکیٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔مجھے کہنے لگے: آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ میں نے کہا: آپ سے کیا باتیں کریں‘ جوباتیں آپ کو اسمبلی کے اندر کرنی چائیں وہ آپ کر نہیں کرسکتے‘ کبھی اپنے سرائیکی علاقے بارے آپ نے ایک لفظ نہیں بولا۔ ہنس کر کہنے لگے: ابھی بولنے کا وقت نہیں آیا ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نواز لیگ حکومت کے پانچ سال پورے ہونے والے تھے۔ انہیں نواز لیگ کا حصہ بنے پانچ برس ہوگئے تھے۔ وہ جنرل مشرف کے ساتھ پانچ سال گزارنے کے بعد نواز لیگ میں شامل ہوئے تھے اور یہ پانچ سال انہوں نے بیک بینچ پر ہی گزار دیے تھے۔ ویسے میں کچھ حیران بھی تھا۔ پانچ سال گزر گئے اور خسرو بختیار کا ضمیر ابھی نہیں جاگا ‘اور وہ ابھی بھی کہہ رہے ہیں کہ انتظار کریں‘ وہ اپنے ضمیر کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں اور جونہی ان کے ضمیر کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے وہ مجھے اطلاع کردیں گے۔ پھر الیکشن کا وقت آیا تو ان کے ضمیر نے پانچ برس بعد پہلی انگڑائی لی اور انہیں پتہ چلا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننا کتنا ضروری ہے۔ ان سب نے مل کر ایک قابل احترام سیاستدان میر بلخ شیر مزاری کے کندھے تلاش کیے اور ان کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر ان سب نے خود کو ملکی سیاست میں دوبارہ اِن کیا ۔ اچانک پورے سرائیکی وسیب میںیوں لگا کہ اب اس علاقے کے پنجابی‘ سرائیکی اور اردو سپیکنگ سب صوبے کے معاملے پر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ ماضی میں یہ تینوں زبانیں بولنے والے صوبے کے معاملے پر ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ پنجابیوں اور اردو سپیکنگ کا خیال تھا کہ اگر صوبہ بن گیا تو ان کی خیر نہیں ہے‘ زمین اور جائیدادیں چھین لی جائیں گی‘ انہیں ایک اور ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑے گا ۔ یہ وہ خدشات تھے جو ان کے ذہنوں میں کچھ تخت لاہور نے ڈال دیے تھے تو کچھ ہمارے سرائیکی قوم پرستوں نے‘ جبکہ سرائیکیوں کو یہ گلہ تھا کہ یہ سب ہمارے اردو اور پنجابی بھائی ان علاقوں میں سیٹل ہوئے‘ لیکن انہوں نے کبھی ان علاقوں کو اپنا تسلیم نہیں کیا ‘ نہ ہی وہاں کی مقامی ثقافت‘ کلچر اور لوگوں میں ضم ہوئے۔ سرائیکیوں کو یہ بھی گلہ تھا کہ ان دوستوں کی وجہ سے وہ اپنے صوبے کا نام سرائیکی نہیں رکھ سکتے اور ان کی شناخت ختم کی جارہی ہے۔ اس لیے جان بوجھ کر سرائیکی کی بجائے جنوبی پنجاب کی اصطلاح متعارف کرائی گئی تاکہ سرائیکیوں کی زبان‘ شناخت اور کلچر کو پروان نہ چڑھنے دیا جائے۔
یوں ان خدشات اور آپس کے جھگڑوں کا نقصان یہ ہوا کہ سرائیکی وسیب کے رہنے والے یہ سب لوگ آپس میں تقسیم ہوگئے اور صوبے پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تاہم دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں یہ اچھی بات سامنے آئی کہ ان تینوں زبانوں کے بولنے والے سیاستدانوں نے اکٹھے ہو کر ایک ہی فورم پر نئے صوبے پر اتفاق کرتے ہوئے تحریک چلائی۔ میری بھی دیگر سرائیکیوں کی طرح یہ سوچ تھی کہ جب تک آپ اس علاقے کے پنجابی اور اردو سپیکنگ طبقات کو ساتھ نہیں ملائیں گے اور ان کے خدشات دور نہیں کریں گے‘ نیا صوبہ بننا مشکل ہوگا۔ اب سب پنجابی اور اردو سپیکنگ اس سرائیکی دھرتی اور وسیب کا حصہ ہیں‘ انہیں بھی ان علاقوں کی ترقی اور حقوق کے لیے وہی کوشش کرنی چاہیے جو سرائیکی چاہتے ہیں۔ اس لیے جہاں ان طبقات پر کچھ تنقید ہوئی وہیں ان کی ستائش بھی کی گئی۔ اگرچہ پنجابی ایم این ایز کی نسبت ہمارے سرائیکی ایم این ایز خصوصاً خسرو بختیار کو زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ سب نے پوچھا : آپ کو پانچ سال بعد الیکشن کے دنوں میں ہی اچانک صوبہ اس لیے یاد آگیا ‘کہ ووٹ لے کر دوبارہ کامیاب ہوسکیں؟ اگرچہ اس کا ایک جواز یہ دیا جاسکتا ہے کہ نئے الیکشن ہی نئے صوبے کے نعرے کا مناسب وقت تھا‘ تاکہ لوگوں سے اس ایشو اور نعرے پر ووٹ لیے جاسکیں ۔ ایک بات تو طے تھی کہ پہلی دفعہ سرائیکی علاقوں میں سیاستدانوں نے کھل کر نئے صوبے کے نام پر ووٹ مانگے اور اپنا ایجنڈا عوام کے سامنے لائے۔ بعد میں عمران خان کے ساتھ الائنس کر لیا اور عمران خان نے بھی نیا صوبہ بنانے پر انہیں یقین دہانی کرائی۔ ویسے سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ اس گروپ کا سمجھدارانہ فیصلہ تھا ورنہ وہی حال ہوتا کہ اکیلا چنا کیسے بھاڑ پھوڑتا۔ اس لیے اب عمران خان اور ان کی پارٹی پر دبائو ہے کہ وہ نیا صوبہ بنائیں۔ اگرچہ فوری طور پر عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے سے نئے صوبے پراتنا شور نہیں مچے گا‘ کیونکہ کہا جائے گا کہ چالیس سال بعد آپ کا سرائیکی وزیراعلیٰ بنا ہے لہٰذا اپنے علاقے کی محرومیاں دورکرلیں ۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سے معاملہ نہیں سنبھلے گا‘ بارہ کروڑ کا ایک صوبہ آپ کے لیے مسائل پیدا کرتا رہے گا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرتے رہیں گے اور شہر تباہ ہوتے رہیں گے۔
خیر اب جب خسرو بختیار قومی اسمبلی میں نواز شریف حکومت پر برس رہے تھے تو مجھے ان سے کوہسار مارکیٹ میں ہونے والی ملاقات یاد آئی جب انہوں نے کہا تھا کہ ابھی بولنے کا وقت نہیں آیا۔ مجھے اب سمجھ آیا کہ ایک سیاستدان کے لیے مناسب وقت کون سا ہوتا ہے۔ جب یہ سب لوگ دو ہزار تیرہ میں سیاسی یتیم ہو کر پھر رہے تھے تو ان سب نے رائے ونڈ جا کر نواز شریف کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی جس میں رضا ہراج وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس وقت انہیں لگتا تھا کہ نواز شریف سے بہتر سیاستدان اور حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔ میں نواز شریف کے ان پانچ برسوں میں روزانہ پارلیمنٹ جاتا رہا اور میں بھول گیا تھا کہ رضا حیات ہراج اور خسرو بختیار نام کے ایم این ایز اس ہاؤس کا حصہ ہیں۔ انہوںنے کبھی اپنے علاقے کے مسائل یا کسی بھی ایشو پر اٹھ کر بات نہیں کی۔ نواز شریف آٹھ آٹھ ماہ اسمبلی نہیں آئے تو بھی ان میں سے کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ اگر اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ کو ایک ڈمی ہاؤس بنا کر رکھ دیا تو بھی یہ لوگ چپ رہے۔ اسحاق ڈار نے ایک ہی دن میں آئی پی پیز کو چار سو اسی ارب روپے کی ادائیگی کرائی۔ ادائیگی کراتے وقت کسی کے بل تک چیک نہ کیے گئے‘ جس نے جو مانگا ‘سٹیٹ بینک کو کہا گیا کہ وہ ادائیگی کردے۔ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کو ایک ماہ بعد پتہ چلا کہ سٹیٹ بینک نے قانون توڑ کر بغیر بلوں کی تصدیق کرائے‘ اتنی بڑی رقم ایک گھنٹے میں ریلیز کردی ۔ جب تک اختر بلند رانا نے انکوائری شروع کی تو پتہ چلا اسحاق ڈار نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے عارف علوی کو ساتھ ملا کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں الٹا ان کے خلاف انکوائری شروع کرادی کہ آپ کی تنخواہ پچیس ہزار روپے کیسے بڑھی۔ اسحاق ڈار کا کچھ نہ بگڑا لیکن عارف علوی اور خورشید شاہ نے مل کر پی اے سی کا فورم استعمال کرتے ہوئے اختر بلند رانا کی چھٹی کرادی اور پھر گلیاں ہوگئی سنجیاں اور مرزے یاروں نے لٹ کر دلی لوٹی۔
جب یہ سب لوٹ مار مچی ہوئی تھی تو اس وقت ہمارے سب یہ سیاسی رانجھے خاموش تھے۔ اگر میں نے کہہ دیا کہ حضور کبھی ہاؤس کے اندر بھی بول لیا کریں‘ تو جواب ملا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ ان کے نزدیک وہ وقت مناسب ہے جب پورا ملکی خزانہ لوٹ لیا جائے‘ جب ادارے تباہ ہوجائیں‘ سب ادارے گروی رکھے جا چکے ہوں‘ اسحاق ڈار ملک سے فرار ہوجائے‘ نواز شریف برطرف اور قید ہوجائیں اور وہ خود عمران خان کی چھتری تلے چھپ کر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچ چکے ہوں ‘تو پھر ایک دن اچانک وہ اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنے پرانے سیاسی لیڈروں پر تبرہ بھیجیں۔
ویسے آپ خسرو بختیار جیسے سیاستدانوں کی ذہانت‘ صبر اور سمجھداری کی داد تو دیں۔کیسے یہ سب انتظار اور ضمیر کو سمجھا بجھا کر لوری دے کر سلا لیتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے جگا دیتے ہیں ۔ویسے اتنے سمجھدار اور سیاسی ضمیر صرف خسرو بختیار جیسے سمجھدار انسان کے ہی ہوسکتے ہیں۔ عام انسان کا ضمیر یا تو زندہ ہوتا ہے یا پھر مردہ۔یہاں نیا کرتب ہورہا ہے ‘ ضمیر مردہ ہوکر بھی پانچ سال بعد زندہ ہوسکتا ہے؟یہ کام راج نیتی کے مہا گرو ہی کرسکتے ہیں ۔ جب چاہا ضمیر کو لوری دے کر سلا دیا ‘ جب چاہا جگا دیا ۔ عوام سے داد کے ساتھ ووٹ بھی لے لیے اور وزارت بھی کھری کر لی۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی!