کچھ دن پہلے شاہد صدیقی سے ملنے گیا تو وہ دفتر میں اپنی الماری سے کتابیں نکال کر ڈبوں میں بند کررہے تھے۔ میں نے پوچھا: خیر ہے کہاں کی تیاری ہے؟ مسکرا کر بولے: بس اب روانگی ہے۔ میں نے پوچھا: کیا مطلب؟ بولے: بس ایک آدھ ماہ میں ریٹائرڈ ہورہا ہوں۔ میرے پوچھنے پر بولے: میں نے دوبارہ وائس چانسلر بننے کیلئے درخواست جمع نہیں کرائی‘ کولیگز کو کہا ہے کہ وہ اب وی سی بنیں۔
مجھے یہ سن کر دھچکا سا لگا۔ چار سال گزر گئے تھے اور پتہ بھی نہیں چلا۔ پہلے دوپہر ڈاکٹر ظفرالطاف کے ساتھ گزرتی تھی اور اب کبھی کبھار شاہد صدیقی کے دفتر میں۔ مجھے یوں لگا کہ پھر مسافر کی دربدری کا وقت آگیا ہے ۔
شاہد صدیقی ایک میٹھی اور ٹھنڈی طبیعت کے مالک ہیں۔ مجھے کبھی کبھار لگتا ہے ان کا مزاج ہم سرائیکیوں سے زیادہ ملتا ہے ۔ وہ جب بھی ملتے تو ہر دفعہ سرائیکی شاعر کی کتابیں پڑھ کر مجھے شعر سناتے یا کہیں اٹک جاتے تو پھر کہتے: سرائیکی میں پڑھ کر سنائیں۔ رفعت عباس کے ایک شعر پر پتہ نہیں کتنے دن واہ واہ کرتے رہے:
کیوں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ
ڈو تاں سارے جنگل آسن، ترئے تاں سارے دریا
ایک دن کسی نے لیہ کے اشو لال کا بتایا تو مچل گئے: ان سے ملائو۔ مجھے کہا کہ ان کی سرائیکی شاعری سنائیں۔ میں نے انہیں اشو کی لاجواب نظم سنائی بیڑی کیویں بنڑدی اے(کشتی کیسے بنتی ہے)۔ جب تک وہ وی سی رہے‘ ہر ہفتے کہیں نہ کہیں پہنچ جاتے اور واپسی پر لاجواب کالمز لکھتے۔ شاکر شجاع آبادی کی شاعری کے بھی دیوانے ہیں۔ میری ان سے دوستی کا تعلق لٹریچر سے ہوا۔ کتنی ہی دیر ان سے لٹریچر پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ ایک ادب شناس دوست۔ ایک دن بولے: یونیورسٹی میں سیمینار ہے‘ جس میں صحافیوں اور ادیبوں کو بھی بلایا گیا ہے۔ میں حیران ہوا اور بولا: سر جی کیوں آپ اپنی نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔ حکومت ہمارا تو شایدکچھ نہ بگاڑ سکے لیکن سارا نزلہ آپ پر گرے گا۔ ہنس پڑے اور کہنے لگے: تو پھر یونیورسٹیاں کس کام کے لیے بنی ہیں‘ اگر وہاں کھل کر بات بھی نہیں ہوسکتی۔ آپ لوگ آئیں گے تو طالب علموں کو بات کرنے کا موقع ملے گا۔ وہ سنیں گے اور سوال پوچھیں گے‘معاشرے اس طرح ہی بنتے ہیں۔ اور پھر ہم نے دیکھا‘ ہر ماہ یونیورسٹی میں سیمینار ہونا شروع ہوئے‘ جن میں اظہارالحق، پروفیسر فتح محمد ملک، حامد میر، سہیل وڑائچ، خورشید ندیم اور زاہدہ حنا جیسے بڑے لکھاری اکثر وہاں تقریریں کرتے نظر آتے۔ کراچی‘ لاہور کے ادیب اور صحافی اکٹھے ہوتے اور بڑی تعداد میں طالب علم موجود ہوتے۔ میں یونیورسٹی یا کالج جا کر لیکچر دینے سے گریز کرتا ہوں۔ ڈپارٹمنٹ کے استاد کی ضد پر طالب علم بیٹھ تو جاتے ہیں‘ لیکن اکثر کا دھیان گفتگو پر نہیں ہوتا۔ مجھے خود یاد ہے‘ جب میں کالج اور یونیورسٹی میں تھا اور کوئی لیکچر دینے آتا تو ہم بھی دوستوں کے ساتھ گپیں لگاتے اور خوش ہوتے کہ چلیں دو تین لیکچرز سے جان چھوٹی؛ تاہم شاہد صدیقی صاحب نے ضد کر کے بلا لیا تو احساس ہوا کہ واقعی یونیورسٹی کے طالب علم سب مقررین کو انتہائی توجہ سے سنتے رہے۔ اگر کبھی کہیں لیکچر کو انجوائے کیا تو وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تھی۔ میرا خیال تھا‘ شاہد صدیقی کی کرسی ہم سب کے ساتھ سٹیج پر ہوگی‘ لیکن اس وقت حیرانی ہوئی جب وہ ہمیں سٹیج پر بٹھا کر خود نیچے جا کر طالب علموں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ کام ایک ادب شناس ادیب ہی کرسکتا ہے‘ جس کے لیے اپنی ذات اہم نہیں تھی کہ وہ سٹیج پر بیٹھتا۔
ایک دن پھر فون آیا ۔ میں نے پھر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بولے آج کی تقریب کچھ مختلف ہے۔ میں نے پھر بہانہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو بولے: چلیں آج میری ضد پر چلے آئیں ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی چلا گیا۔ وہاں ایک تقریب تھی جس میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے درجہ چہارم کے ملازم اکٹھے تھے‘ جنہیں سرٹیفکیٹ دینے تھے۔ پتہ چلا شاہد صدیقی اور ان کی ٹیم نے ایک پلان بنایا کہ ہم پورے ملک میں لٹریسی پھیلا رہے ہیں‘ لیکن دوسری طرف ہمارا اپنا سٹاف لکھ پڑھ نہیں سکتا۔ فوراً شارٹ کورسز تیار کیے گئے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یونیورسٹی کے انگریزی، سائنس اور ریاضی کے استادوں نے بلا معاوضہ اپنا وقت نکال کر ان درجنوں ملازمین کو تین ماہ سے چھ ماہ میں لکھا پڑھنا سکھا دیا۔ جب درجہ چہارم کے ان ملازمین کے تاثرات سنے کہ اب وہ کیسا محسوس کرتے ہیں ‘تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تعلیم کیسے انسان کے اندر اعتماد پیدا کرتی ہے‘ یہ میں نے اُس دن دیکھا ۔ ایک نوجوان بولا کہ اب وہ بازار میں بورڈز پر لکھا ہوا پڑھ سکتا ہے۔ دوسرا بولا: میرے بچے پہلے مذاق اڑاتے تھے کہ بابا لکھ پڑھ نہیں سکتے‘ اب وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر لکھتے پڑھتے ہیں۔ ایک اور بولے:پہلے وہ بینک میں چیک پر انگوٹھا لگا تے تھے‘ اب دستخط کرتے ہیں۔ درجنوں کہانیاں میں خاموشی سے سنتا رہا۔ ایک تین سے چھ ماہ کے کورس نے ان کی زندگیاں کیسے بدل دی تھیں ۔
کتابوں کا میلہ لگا تو میں کتابیں خریدنے گیا‘ وہاں کتابوں کے علاوہ جلیبیاں کھانے کو ملیں‘ جن کا ذائقہ کہیں نہیں جاتا۔ کئی مشاعرے اور ادبی کانفرنسز ہوئیں‘ پوری یونیورسٹی کا کلچر ہی بدل گیا تھا۔ ہر طرف مسکراتے چہرے‘ اور لگتا تھا یونیورسٹی کا جو استعمال ہونا چاہیے‘ وہی ہورہا ہے۔ ہم تو ڈسے ہوئے تھے کہ سب یونیورسٹیوں پر سیاسی جماعتوں کے گروپس نے قبضہ کر رکھا ہے‘ جہاں ہر وقت مار کٹائی اور ہڑتالیں ہوتی ہیں۔ شکر ہے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں یہ کلچر نہ آیا‘ ورنہ یہاں بھی وہی بربادی ہوتی جو دوسری یونیورسٹیوں میں ہوئی ہے۔ ایک دوپہر مجھے شاہد صدیقی کا فون آیا کہ کہاں ہیں‘میں ٹھہرا سست انسان‘ پھر بہانے ڈھونڈنے کی کوشش کی‘ تو بولے: سرکار آج آپ اگر بہانہ کرکے نہ آئے تو پوری عمر پچھتائیں گے۔ ایک بہت بڑا سرپرائز آپ کا منتظر ہے۔ مجھے سرپرائز پسند نہیں ہیں‘ نہ میں کسی کو سرپرائز دیتا ہوںنہ ہی پسند کرتا ہوں کوئی مجھے سرپرائز دے۔ خیر ان کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ میں ان کے دفتر پہنچ گیا ۔ دفتر میں داخل ہوا تو سامنے ایک بڑا ڈبہ پڑا ہوا تھا۔ مجھے کہا: اسے کھولیں۔ میں نے تجسس سے لبریز ہو کر اسے کھولا۔ سامنے سب رنگ کے پرانے شمار ے تھے جن سے وہ ڈبہ بھرا ہوا تھا۔ وہ سب پرانے شمارے جنہیں لڑکپن سے اب تک پڑھتے آئے تھے‘ میرے سامنے موجود تھے۔ ایک رومانس، ایک نسٹیلجیا۔ میں ایک ایک شمارہ اٹھا کر ہاتھوں میں لے کر دیکھتا اور محسوس کرتا رہا۔ ذاکر کے بنائے ہوئے سرورق اور انعام راجہ کے استاد بٹھل، بابر زمانِ اور کورا کے خوبصورت سکیچز دیکھتا رہا۔ میں بھول گیاکہ شاہد صدیقی بھی وہاں موجود ہیں۔ انہوں نے بھی مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش نہ کی۔ آدھے گھنٹے بعد جب میں نے وہ سب شمارے نکال کر سامنے میز پر سجا دیے تو پھر مجھے ان کا خیال آیا۔ میں نے کہا: سر جی یہ چمتکار کیسے ہوا؟ شاہد صدیقی ہنس کر بولے: سب رنگ کے شکیل عادل زادہ بھائی کا فون تھا۔ وہ اپنا سب رنگ کا دفتر خالی کررہے تھے۔ پوچھا: کچھ پرانے شمارے چاہئیں تو بتائیں‘ میں نے دیر نہیں کی اور فوراً بندے بھیجے۔ شکیل عادل زادہ صاحب سے ہم دونوں کی محبت مشترک تھی۔ پھر پلان بنانے لگے کہ شکیل بھائی کو کیسے اسلام آباد بلایا جائے۔ چند ہفتوں بعد شکیل عادل زادہ ان کے گھر ڈنر پر بیٹھے تھے۔ بازی گر کو مکمل کرنے کی بات ہوئی تو شاہد صدیقی نے ایک لقمہ دیا تاکہ شکیل صاحب کو بلوایا جائے کیونکہ وہ بہت کم گو ہیں۔ شاہد صدیقی نے کہا: شکیل بھائی یہ کورا کا کیا ہو گا ؟ کبھی بابر زمان خان کو ملے گی بھی یا نہیں؟ وہ چپ رہے۔ شاہد صدیقی نے ہمت نہیں ہاری اور کہا: شکیل بھائی کہیں مولوی صاحب کو تو کورا سے عشق نہیں ہوگیا تھا لہٰذا وہ ہر جگہ بابر کے پہنچے سے پہلے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ کہیں بابر اور مولوی صاحب میں کورا پر رقابت تو شروع نہیں ہوگئی؟ شکیل عادل زادہ چونکے اور بولے :ہاں بھائی ہو تو سکتا ہے۔
ایک دن شاہد صدیقی کہنے لگے: سوچ رہا ہوں میں خود بازی گر کی آخری قسط لکھ دوں کہ جب بابر زمان نے کورا کو ڈھونڈ لیا تو وہ تبت کی پہاڑیوں میں خوبصورت گھر میں مولوی صاحب کے بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ ہم کافی دیر تک بابر کے انجام پر ہنستے رہے۔ پھر شاہد صدیقی کہنے لگے :چھوڑ یار بازی گر کی کہانی کا انجام لکھ کر کیا کرنا ہے۔ ضروری ہے ہر کہانی کا کوئی انجام ہو؟ ہر داستان پوری لکھی جائے؟ ہر منزل کے انجام تک پہنچا جائے؟ ہر گیت پورا گایا جائے؟ کچھ محبتیں ادھوری رہنی چاہئیں۔ ادھوری ہی اچھی لگتی ہیں!