اسلام آباد میں بیس برس کی صحافت کے بعد یہ تو مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ حکمران صحافی اور صحافت سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔اس خوف کا ایک ہی حل پاکستان جیسے ملکوں میں نکالا جاتا ہے کہ آپ صحافی اور صحافت کو خرید لو یا انہیں کرپٹ کر دو۔اگر صحافی بکنے سے انکاری ہو‘ درباری نہ بنے تو پھر مالکان کو ہی خرید لو۔ پھر انہی صحافیوں میں سے چند ایک کو اپنا مشیر بنا لو یا اعلیٰ عہدے دے کر اپنی کرپشن اور نااہلی کے دفاع پر لگا دو۔ اگر زیادہ غصہ آیا ہوا ہے تو پھر جنرل مشرف کی طرح شاہین صہبائی اور عامر متین جیسے نڈر صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جائے ۔ اگر وہ پھر بھی نہ ڈریں تو اخباری مالکان کے ذریعے ان صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوا دیا جائے۔ صحافیوں کو دبانے کا کام تو جنرل ایوب سے شروع ہوا تھا ۔ بھٹو نے صحافیوں کو قید میں ڈالا ‘ جنرل ضیا ایک قدم آگے نکل گئے ‘ناصر زیدی جیسے صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور شاہی قلعے میں قید کیا گیا‘ جہاں ان کی جوانیاں ڈھل گئیں‘ بچے رل گئے۔
صحافی جس قوم کے لیے لڑ رہے تھے وہ بھٹو کو عظیم قائد اور جنرل ضیا کو مرد مومن‘ مرد حق کا درجہ دے کر خوش تھی۔ بینظیر بھٹو کو دوسری حکومت میں سمجھ آگئی تھی کہ صحافیوں کا اپنا گروہ ہونا چاہیے جو ان کی بات سنتا اور سمجھتا ہو۔ زرداری نے اپنا ناشتہ گروپ تشکیل دے دیا ۔ نواز شریف کاروباری انداز میں ڈیل کرنے کے قائل تھے۔ لاہور کے ایک صحافی نے بتایا کہ وہ نواز شریف سے لفافہ لیتے تھے‘ کیونکہ اس کے بغیر وہ بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ جب تک وہ صحافی کو لفافے سے' کانا‘ نہ کر لیتے اسے قریب نہ آنے دیتے۔ خبر لینے کیلئے ضروری تھا شریفوں کے قریب ہوا جائے ‘ قریب ہونے کیلئے ضروری تھا کہ حلف وفاداری دیا جائے اور ان کا حلف وفاداری لفافہ تھا ‘تاکہ وہ کل کو ان کے خلاف نہ لکھ سکے۔ یوں چند ہزار روپوں میں سب معاملات طے ہوجاتے تھے۔ بعد میں نواز شریف کے اس گروپ کو ہیلی کاپٹر گروپ کا نام دیا گیا۔ جہاں صاحب نے جانا ہے وہاں ہیلی کاپٹر میں چند صحافی اور کالم نگار بھی جائیں گے‘ جو واپسی پر اپنے کالموں میں ان کی کرامات اور جلالی انداز کو عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ ہرجھوٹ کو سچ اور ہر نکمے اور کرپٹ لیڈر کو نیلسن منڈیلا اور چارلس ڈیگال بنا کر پیش کیا گیا ۔ جو ایوریج قسم کی سوچ بھی نہیں رکھتا تھا ‘اسے انقلابی اور عظیم لیڈر کے طور پر پیش کیا ۔ یوں پاکستان میں درمیانے درجے کی قیادت اوپر ابھری‘ جسے عوام سے زیادہ ان صحافیوں نے لیڈر کا درجہ دے رکھا تھا ۔
عوام ایک سے لٹ کر دوسرے کی طرف گئے تو وہاں پہلے ہی صحافیوں کا گروہ موجود تھا‘ جو دوسرے لیڈرز کی کرامات بیان کررہا تھا۔ یوں مقابلہ چلتا رہا ۔ کبھی ایک صحافی گروپ کا لیڈر جیت گیا تو کبھی دوسرے کا۔ اور ایک دن پتہ چلا سب فراڈ تھا ۔ سب جھوٹ تھا ۔ جنہوں نے عوام کو لوٹا‘ انہیں ٹی وی شوز میں جمہوریت اور کرپشن کے خلاف مبصرین کے طور پر بلا کر عوام کو سیدھا کرنے کے طریقے بتانے شروع ہوگئے۔ یوں کرپشن کوئی ایشو نہ رہا ۔ بس چند صحافی آپ کی جیب میں ہوں۔ وہ آپ کو اپنے لیڈر کی وہ خوبیان ڈھونڈ کر بیان کردیں‘ جس کا انہیں خود بھی علم نہ ہو۔
سپریم کورٹ سے نااہل جہانگیر ترین ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے: اب بجلی اور گیس چوروں کی خیر نہیں ‘ ہم ان کا جینا حرام کردیں گے۔ موصوف وہی ہیں جنہوں نے اپنے گھر کے مالی اور کک کے نام پر کروڑوں روپوں کا فراڈ کیا تھا ۔ پکڑے گئے تو اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے بچ گئے۔ جو فراڈ اور جرم جہانگیر ترین صاحب نے کیا ‘اس کی سزا چودہ سال قید تھی۔ جو خود چوری کرتے پکڑا گیا تھا وہی اب بجلی چوروں کو دھمکیاں دے رہا ہے اور عام لوگوں سے داد بھی وصول کررہا ہے۔ جہانگیر ترین جیسے کاروباری نے اس ملک اور عوام کو درست سمجھا۔پہلے عوام کو لوٹ لو اور پھر لٹیروں کو دھمکیاں دے کر عوام کے ہیرو بن جائو۔
سوال یہ ہے اس سے ان لیڈروں کو کیا ملا؟ کیا نواز شریف دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں بنا کر‘ اتنی بڑی سوشل میڈیا ٹیم بھرتی کر کے مریم نواز کی قیادت میں مخالفوں کو برا بھلا کہلوا کر انجام سے بچ سکے؟ کیا ملا ؟ بچے مفرور‘ باپ بیٹی مقدمات میں گھرے اور سمدھی اشتہاری۔ اسے کامیابی کا گُر سمجھنا چاہیے؟ چند سال کی حکمرانی پھر عمر بھر کی ذلت۔ کیا یہی انسان کی معراج ہے ؟ کیا یہی زندگی ہے؟ جہانگیر ترین کو اپنے گھر کے مالی اور کک کے نام پر فراڈ اور لوٹ مار کر کے کیا ملا؟ کیا قدرت نے اسے بخش دیا؟ کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری ضائع گئی۔ گلیاں سنجیاں ہیں پھر بھی مرزا یار کہیں نظر نہیں آتا ۔ اربوں کی منی لانڈرنگ کے بعد زرداری اب دربدر پھرتے ہیں۔
زرداری اور نواز کے کرپٹ سیاستدانوں کے ٹولے کو عمران خان صاحب نے گلے لگا لیا ۔ وہ بھول گئے کہ جو زرداری اور نواز شریف کو اس کے انجام سے نہ بچا سکے وہ انہیں کیسے بچائیں گے۔دوسری طرف عوام اتنے بھولے ہیں کہ رشک آتا ہے۔ میرے کل کے کالم 'طارق باجوہ اور بابوگیری‘ پر اکثر لوگ مذاق اڑاتے پائے گئے کہ جناب کون سے دو سو ارب ڈالرز ؟ جب ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ کتنے سو ارب ڈالرز سوئس بینکوں میں پڑے ہیں‘ تو کہاں سے آتے؟ ان کے نزدیک دو سو ارب ڈالرز کا عدد ہی غلط ہے ۔ میں رشک کرتا ہوں ان فراڈیوں پر جو عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر مزے کرتے ہیں۔ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ معاہدہ اس لیے ہورہا تھا کہ سوئس بینک آپ کو پورا ڈیٹا دیں کہ کتنے پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں اور کتنی رقم پڑی ہے۔ جب معاہدہ ہونے سے پہلے ہی سبوثار کردیا گیا تو پھر آپ کو پورا ڈیٹا کیسے ملتا ؟ آپ نے ڈیٹا لیا ہی نہیں۔ مان لیتے ہیں آپ کو سوئس بینکوں سے ایک ڈالربھی نہ ملتا‘ لیکن کم از کم آپ کو پتاتو چل جاتا کہ کن پاکستانیوں کے کتنے ڈالرز وہاں پڑے ہیں۔ آپ اسی بات پر خوش ہیں کہ ہمارے وہاں ڈالرز نہیں تھے۔ آپ کو کیسے پتا ہے کہ وہاں ڈالرز نہیں تھے؟ اگر نہیں تھے تو پھر سوئس حکام آپ کے ساتھ معاہدہ کیوں کررہے تھے؟ آپ ہونے دیتے معاہدہ‘ چاہے ایک ڈالر بھی واپس نہ آتا۔ اب آپ بتائیں اس ملک اور عوام کو طارق باجوہ جیسے ہوشیار لوگ چونا کیوں نہ لگائیں ‘جو اب کہتے ہیں جانے دیں جناب ''غلطی‘‘ہوگئی تھی ۔ میں نے ''غلطی‘‘ سے دو سو ارب ڈالرز کی سمری کابینہ کو بھیج دی تھی۔ میں نے ''غلطی‘‘ سے ہی دو افسران کی ٹیم مذاکرات کے لیے جنیوا بھیج دی تھی۔ ''غلطی‘‘سے ہی وہ ڈرافٹ روک کر دونوں افسران کو معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کرادی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اگر اس وقت طارق باجوہ دو سو ارب ڈالرز کی ''غلطی ‘‘کررہے تھے‘ تو آج وہ گورنر سٹیٹ بینک کے طور پر کیا کچھ نہیں کررہے ہوں گے؟ طارق باجوہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اسد عمر صاحب کو بھی اپنی دو سو ارب ڈالرز کی ''غلطی‘‘سمجھا بجھا کر بیچ دی ا ور اسد عمر صاحب نے خرید بھی لی۔ اسد عمر میرے خیال میں پاکستانی تاریخ کے سب سے Over Rated وزیرخزانہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے‘ جنہیں اپوزیشن میں لگتا تھا کہ وہ پوری دنیا کا فنانس جانتے ہیں لیکن وزیر بنتے ہی لگتا ہے وہ اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مار کر کام چلا رہے ہیں ۔ اور تو اور طارق باجوہ جیسے ایک عام بابو نے انہیں دھوکہ دے دیا۔
اور سنیں ہمارے دوست ارشاد بھٹی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ہم چند صحافی نئے وزیراعظم عمران خان صاحب کے اعصاب پر سوار ہیں ۔ عمران خان صاحب نے کہا کہ آئندہ ملاقات میں تین ناقدین: عامر متین‘ ارشد شریف اور رئوف کلاسرا کونہ بلایا جائے‘ سخت سوالات کرتے ہیں ۔ عمران خان بھی بھٹو‘ جنرل ضیا‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف کی راہ پر گامزن ہورہے ہیں ۔ چلیں مجھے اپنی اور عامر متین کی سمجھ آتی ہے کہ ہم نے عمران خان سے پہلی ملاقات میں سخت سوالات پوچھ لیے تھے جن کے جوابات ان کے پاس نہ تھے اور الٹا میرا مذاق اڑانا شروع ہوگئے تھے۔ لیکن حیرانی ہوتی ہے وہ ارشد شریف سے کیوں ڈر گئے؟ ارشد شریف تو اس دن پوری ملاقات میں خاموش بیٹھا رہا تھا ۔ اس نے تو ایک بھی سوال نہیں کیا تھا ۔
ویسے کمال نہیں جو 22 کروڑ انسانوں کی بڑی ریاستیں چلاتے ہیں‘ وہ اندر سے اتنے کمزور اور ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ دو صحافیوں کے سوالات اور ایک صحافی کی خاموشی سے ڈر جاتے ہیں ۔ ایک عرب بادشاہ ایک کالم نگار خشوگی سے ڈر گیا جبکہ ہمارا وزیراعظم عمران خان ارشد شریف کی ڈیڑھ گھنٹے کی طویل خاموشی‘ عامر متین اور میرے دو تین سوالات سے ڈر گیا۔ بس اتنی جرات ‘کردار ‘ ظرف اور بڑا پن ہوتا ہے ایک بادشاہ اور ایک وزیراعظم کا ؟ بس ۔۔؟