جب قومی اسمبلی میں شہباز شریف، خواجہ آصف کو ساہیوال قتل عام پر آنسو بہاتے دیکھتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کیا کیا ڈرامے ہو رہے ہیں۔
میر کیا سادہ ہیں ہوئے بیمار جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
دونوں کی تقریریں سن کر سمجھ نہیں آرہی تھی‘ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ حمزہ شہباز ماڈل ٹائون میں ماری جانے والی دو مائوں کے گھر تک نہیں گئے کہ ان کے بچوں کو تسلی دیتے‘ لیکن وہ ساہیوال میں مارے جانے والوں کے بچوں کے گال تھپتھپا رہے تھے۔اور تو اور اسمبلی میں پیپلز پارٹی والے بھی صدمے کی کیفیت میں تھے‘ جنہوں نے عزیر بلوچ اور رائو انوار کے ذریعے دہشت پھیلا کر کراچی پر حکومت کی۔
دونوں پارٹیوں نے پانچ سال اسلام آباد میں برسراقتدار رہ کر گزارے تو پنجاب اور سندھ میں دس سال تک حکمرانی کی اور پیپلز پارٹی تو اب بھی ہے۔ سب کی قوت دہشت ہے جو وہ عوام پر مسلط کرتے ہیں۔ ان کو پتہ چل چکا ہے کہ دہشت اور خوف وہ ہتھیار ہیں‘ جن کو استعمال کرکے وہ لمبے عرصے تک حکومت کرسکتے ہیں۔ حکومت کرنے کے یہ سب ظالمانہ طریقے جمہوریت کے لبادے میں ملبوس ان سیاستدانوں نے آمروں سے سیکھے جنہوں نے بندوق کے زور پر حکومت کی۔ ہمارے سیاستدانوں کے رول ماڈلز جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تھے۔ جنرل ضیاالحق نے پاکستان پر خوف کا آسیب طاری کیا۔ بھٹو کو پھانسی لگا کر ضیا نے سب کو خوفزدہ کر دیا۔ اگر بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا جا سکتا ہے تو باقی کس کھیت کی مولی ہیں۔ صحافیوں، سیاسی ورکرز اور لیڈروں کو شاہی قلعے میں ڈالا، فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوائیں، ججوں کو وفاداری کے حلف دلوائے۔ اخباری مالکان شام کو اپنا اخبار ایک فوجی افسر سے کلیئر کراتے تھے۔ شہری اگر رات کو بیوی کے ساتھ بھی گھر سے نکلتا تو اگلی صبح تھانے سے برآمد ہوا۔ پولیس نے شہریوں کے منہ سونگھنے کا رواج شروع کیا۔ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ تو پہلے ہی تھا‘ جنرل ضیا کے دور میں پولیس سٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ پولیس کو بے پناہ اختیارات دے دیے گئے۔ بھائی بہن کو بھی شک پر تھانے میں بند کیا جا سکتا تھا۔ ہر کسی پر شک کرنے کا رواج شروع ہوا کہ اس کے جنسی تعلقات ہیں یا اس نے شراب پی رکھی ہے۔ یوں سب سہم کر گھر بیٹھ گئے۔ یہ جنرل ضیا اور ان کی پولیس اور اداروں کی کامیابی تھی۔ عوام سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ان پر قانون کی دفعہ نہ لگ جائے۔
جنرل ضیا جاتے جاتے پنجاب شریفوں کے ہاتھ دے گئے۔ شریفوں کو بھی یہی بات سمجھ آئی کہ ریاست کو محبت سے نہیں ڈنڈے سے چلایا جاتا ہے۔ عوام کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اگر انہیں اوقات میں نہ رکھا جائے تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے‘ لہٰذا انہیں خوفزدہ کرکے رکھو تاکہ وہ کچھ نہ سوچ سکیں۔ اسی لیے جب نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے پولیس کی اسامیاں ایم پی ایز کو دیں کہ وہ انہیں بیچ کر پیسے کمائیں۔ انیس سو پچاسی میں ایک ایک سیٹ تین تین لاکھ روپے میں بیچی گئی۔ جنہوں نے وہ سیٹیں خریدی تھیں‘ ان کے لیے یہ سب کاروبار تھا۔ وہ پیسے دے کر بھرتی ہوئے تھے لہٰذا پہلے دن سے کمائی پر لگ گئے۔ پیسے ریکور کرنے کے لیے تھانے عقوبت خانے بنا دیے گئے۔ بندے تھانے جاتے ہوئے ڈرنے لگے۔ ایک دفعہ میں نے ایک پولیس اہلکار سے پوچھا: آپ کیسے پیسے لیتے ہیں؟ وہ ہنس کر بولا: ہم نہیں لیتے‘ لوگ ہمیں خود پیش کرتے ہیں۔ میں حیران ہوا تو وہ بولا: ہم نے تھانے کا ماحول اس طرح کا بنایا ہوا ہے کہ جب کوئی بندہ تھانے آتا ہے تو کانسٹیبل پہلے سے قید ملزم کو دو تین تھپڑ لگاتا اور گالیاں دیتا ہے‘ یوں ملزم کے رشتہ دار اسے اس سلوک سے بچانے کے لیے فوراً ہماری مٹھی گرم کر دیتے ہیں۔ ہم انکار کریں تو وہ سمجھتے ہیں‘ شاید پیسے کم ہیں‘ زیادہ کی پیشکش کرتے ہیں۔
یہ حقیقت جنرل ضیا کو سمجھ آئی تھی‘ بعد میں شریف خاندان نے اس روایت کو آگے بڑھایا وہ نچلے لیول تک چلی گئی۔ صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ پولیس گردی کو سپورٹ کر رہے تھے تاکہ ایم پی ایز‘ ایم این ایز اور مخالفین کو پولیس کے ذریعے کنٹرول میں رکھا جائے‘ تو یہی کام ہر ایم پی اے اور ایم این اے نے اپنے علاقے میں شروع کر دیا۔ ایسے افسر کی تلاش شروع ہوئی جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہو، اور جس کی زندگی کی آخری خواہش گریڈ بائیس (آئی جی گریڈ) لے کر ریٹائر ہونا ہو۔ ایسے آئی جی نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا کہ کوئی قتل ہو رہا ہے، تھانے عقوبت خانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں یا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ تھانوں کا کنٹرول ایم این ایز اور ایم پی ایز نے سنبھال لیا اور پھر چل سو چل۔ وہاں عام آدمی ذلیل ہونے لگا‘ اور سیاستدانوں کی چاندی ہو گئی۔ ٹائوٹ بھرتی کیے گئے جو پیسے لے کر کام کرانے لگے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی پرچی چلنے لگی۔ ڈی پی او اور ڈی سی او بھی سیاستدانوں کے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئے اور لوگوں نے بھی ظلم کے نظام سے سمجھوتہ کر لیا۔ ہر ایم پی اے نے مقامی سطح پر دہشت پیدا کر دی۔ اگر آپ اس علاقے میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر علاقے کے ایم پی اے یا ایم این اے کا بچہ جمہورا بن کر رہنا ہوگا‘ ورنہ کسی وقت آپ پر مقدمہ ہو سکتا ہے‘ آپ کی بیوی‘ بہن کا دور دراز تبادلہ کرایا جا سکتا ہے۔ آپ کو اٹھوا کر تھانے میں تشدد کروایا جا سکتے ہیں۔
یوں سیاست جو عوام کی خدمت کے لیے کی جانی تھی‘ دھیرے دھیرے دہشت اور طاقت کا مظہر بن گئی۔ علاقے میں جو دہشت پھیلا سکتا تھا‘ وہی ووٹ لے سکتا تھا۔ وہی الیکشن والے دن بدمعاشوں کی مدد سے قبضہ کرکے ٹھپے لگوا سکتا تھا۔ چند ایماندار افسران نے ایسے سیاستدانوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا‘ تو انہیں عبرت کی مثال بنا دیا گیا۔ بہاولنگر کے ڈی پی او شارق کمال نے ایک ایم این اے عالم داد لالیکا کے گھر جا کر معافی مانگنے یا کھانا کھانے سے انکار کیا‘ تو انہیں نواز شریف کے حکم پر صوبہ بدر کر دیا گیا۔ کہیں سے چوں تک نہ ہوئی۔ مقصد پولیس افسران کو ڈرانا تھا کہ حکم عدولی کی تو برا حشر ہوسکتا ہے۔
یہی وہ ماڈل آف گورننس تھا جو پیپلز پارٹی نے سندھ میں آزمایا۔ پولیس کو زرداری کی ملوں کے لیے گنا لینے کے کام پر لگایا گیا۔ انور مجید نے سندھ پولیس افسران کو سیدھا کرکے رکھ دیا اور پولیس افسران نے بھی وہی کیا جو روم میں کرنا چاہیے تھا۔ اس دہشت کے بدلے انہوں نے اعلیٰ پوسٹیں اور پروموشنیں لینا شروع کیں اور یوں سیاستدانوں اور پولیس کے گٹھ جوڑ نے عوام کو کچل کر رکھ دیا۔
اسی لیے جب نواز حکومت نے ماڈل ٹائوں میں چودہ بندوں کو گولیاں مروائیں‘ اور سو سے زائد زخمی ہوئے تو انہیں علم تھا دہشت پھیلانا ضروری ہے۔ تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں پولیس پر بہتر کام کیا اور ناصر درانی کے نام اور کام کو الیکشن میں بیچا۔ جونہی ناصر درانی کا استعمال نہ رہا تو انہیں پنجاب سے نکال باہر کیا گیا؛ چنانچہ آج تحریک انصاف کے وزرا‘ پولیس اور سی ٹی ڈی کے قتل عام کا دفاع کر رہے ہیں تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف میں بھی لوگ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور دیگر جماعتوں سے آئے ہیں لہٰذا انہیں پرانی پولیس چاہیے۔ سب سیاستدان ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ انہیں عوام کو دہشت کے زور پر نیچے لگانا ہوتا ہے اور دہشت پھیلانے میں پولیس ہی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماڈل ٹائون قتل عام کے بعد عوام سہم گئے تھے جیسے اب ساہیوال واقعے کے بعد ہوا ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے یقینا میکاولی کا پرنس نہیں پڑھا ہوگا‘ لیکن اس کی فلاسفی پر عمل پیرا ہیں۔ شہزادے کا مشیر اسے حکومت کے گر سکھا رہا ہوتا ہے تو وہ تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ اقتدار پر گرفت کے لیے خوف کا استعمال کتنا اہم ہوتا ہے۔ وہ شہزادے کو بتاتا ہے: آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔ رعایا آپ سے محبت کرے یا آپ سے خوف زدہ ہو؟ میکاولی نے کہا: شہزادے عوام کو آپ سے ڈر کر رہنا چاہیے نہ کہ وہ آپ سے محبت کریں۔ لوگ محبت میں دھوکا دے سکتے ہیں‘ سازشیں کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ ڈرتے ہیں تو وہ دھوکا دیں گے نہ ہی سازش کریں گے۔ اب آپ کو سمجھ آنی چاہیے کہ پرانے زمانوں میں حملہ آور دہشت پھیلانے کے لیے جہاں گائوں جلاتے، تباہی پھیلاتے وہیں انسانی کھوپڑیوں کے مینار کیوں کھڑے کرتے تھے۔ ان وحشیوں کی بربریت اور دہشت ان سے آگے آگے سفر کرتی اور یوں وہ اکثر قلعے بغیر لڑے فتح کر لیتے تھے۔
وہی میکاولی کی صدیوں پرانی بات:
My prince, its better feared than loved..