جب وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے پہلی ملاقات کی تو ان کا زیادہ وقت پنجاب پولیس کے خلاف گفتگو کرتے گزرا۔ وہ خاصے برہم تھے اور پنجاب پولیس کو کافی سنائیں ۔ معاملہ وہی تھا کہ مانیکا خاندان کی ایک خاتون کو پولیس نے رات گئے اکیلے جی ٹی روڈ پر روک کر پوچھ لیا تھا کہ وہ اس وقت کہاں جا رہی ہیں اور انہیں سکیورٹی کی ضرورت تو نہیں ؟ وہ معاملہ اتنا دور تک چلا گیا کہ تحریک انصاف حکومت ناراض ہوگئی۔ آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی اور ڈی پی او رضوان گوندل کو وزیراعلیٰ ہاؤس بلا کر ان کی انکوائری ایک پراپرٹی ڈیلر احسن جمیل گجر سے کرائی گئی۔ دونوں افسران سے کہا گیا کہ وہ معاملے کو سیٹل کریں۔ بعد میں رضوان گوندل کے ایک دوست نے بتایا کہ سیٹل کرنے سے مراد یہ تھی کہ وہ خاور مانیکا کے گھر جا کر معذرت کریں؛ تاہم گوندل نے جانے سے انکار کر دیا تھا اور یوں سزا کے طور پر پوسٹ سے ہٹا دیا گیا ۔ تنخواہ تک بند کر دی گئی۔ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا۔ بعد میں تین انکوائریز کی گئیں تو پتہ چلا کہ سارے معاملے میں ڈی پی او کا قصور نہ تھا بلکہ ڈی پی او نے تو مانیکا فیملی کو سہولت دینے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت پوری تحریک انصاف خاور مانیکا فیملی کے گرد اکٹھی تھی۔ سوشل میڈیا پر بھی تحریک انصاف کے حامی پنجاب پولیس کے خلاف اور مانیکا فیملی کے حامی تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ مانیکا خاندان کا قصور تھا اور سپریم کورٹ میں احسن جمیل گجر سے لے کر آئی جی کلیم امام اور وزیراعلیٰ پنجاب تک سب نے معافیاں مانگیں؛ تاہم عمران خان کی ناراضگی برقرار رہی اور وہ یہ بات کرتے تھے کہ پنجاب پولیس نے مانیکا خاندان کے ساتھ زیادتی کی ۔
اب جب پنجاب پولیس نے چار بندے مار دیے ہیں تو ذرا ملاحظہ فرمائیں ردعمل کیا ہے۔ سب سے پہلے آئی جی پنجاب امجد سلیمی صاحب کے دفتر سے پریس ریلیز جاری کی گئی کہ چار خطرناک دہشت گردوں کو ساہیوال کے قریب گولیوں سے بھون دیا گیا ہے اور پنجاب کو دہشت گردی کی بڑی کارروائی سے بچا لیا گیا ہے۔ پھر کہا نی بدلی گئی اور کہا گیا کہ وہ بچے اغوا کر کے لے جارہے تھے۔ شکر کریں‘ کچھ لوگوں نے واقعے کی ویڈیو بنا لی ورنہ پنجاب پولیس نے حسب معمول ملبہ مرنے والوں پر ڈال دیا تھا۔ اب جب موقع تھا کہ پنجاب پولیس کے سربراہ اور دیگر اہم لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تووفاق اور پنجاب کے وزرا نے سیاسی محاذ سنبھال لیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ مارے جانے والے دہشت گرد تھے۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پولیس کی گاڑی پر گولیاں برساتے جو ویڈیو بنی وہ جعلی تھی۔ جب عوام اور میڈیا نے یہ کہانی ماننے سے انکار کر دیا تو نئی لائن اختیار کی گئی کہ آپریشن تو درست تھا لیکن غلط لوگ مارے گئے۔ جب یہ کہانی بھی مارکیٹ میں نہ بکی تو پھر یہ مصالحہ ڈالا گیا کہ ذیشان دہشت گرد تھا اور آپریشن اسے مارنے کے لیے کیا گیا۔ سب نے پولیس اور سی ٹی ڈی کے حق میں بیانات دینے شروع کردیے تاکہ پی ٹی آئی کی حکومت پر یہ الزام نہ لگے کہ شہباز شریف کی پولیس کی طرح ان کی پولیس نے بھی بے گناہ لوگ مار دیے۔ یہ وہ خوف تھا جو پی ٹی آئی کو حالتِ انکار میں لے گیا۔ یہ سودا بیچنے کے لیے راجہ بشارت کا انتخاب کیا گیا تاکہ وہ بڑے اعتماد سے جھوٹ بول سکیں اور لوگوں کو یقین دلا سکیں کہ ہم نے دہشت گرد مارا ہے ؛ تاہم محسوس ہوا‘ شاید بات نہیں بن رہی لہٰذا گورنر محمد سرور کو اس فلم میں کردار ادا کرنے کو کہا گیا ۔ گورنر صاحب کو اپنی فکر پڑی ہوئی تھی ‘ وہ بڑی مشکل سے اپنا بندہ منت ترلوںسے آئی جی لگوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب سب کچھ ضائع ہوتا لگ رہا تھا اور ملبہ آئی جی پر گرنے والا تھا۔ چوہدری سرور‘ جو سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ لندن پولیس کا سربراہ ان کی سفارش پر لگتا‘ اچانک پوری قوم کو سمجھانے پر لگ گئے کہ ا یسا تو پوری دنیا میں ہوتا ہے‘ لیکن ہمیں تفتیش کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔ چلیں پوری دنیا چھوڑ یں کوئی ایسا ٹارگٹڈ آپریشن برطانیہ میں بتا دیں جہاں پولیس نے ایسی گاڑی پر گولیاں برسائی ہوں جس میں چار بچے ماں باپ کے ساتھ سوار ہوں؟ گورنر سرور نے سنجیدہ منہ بنا کر گولی دینے کی کوشش کی تاکہ ان کے لائے ہوئے آئی جی سے دبائو ختم ہو‘ اور کوئی ان کا استعفیٰ نہ مانگ لے‘ مگر سب سے بڑا کام پی ٹی آئی کے ایک صوبائی وزیر نے کیا‘ جب موصوف نے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ چھوڑیں جی‘ وہ تو ویڈیو ہی جعلی تھی۔
مزے کی بات ہے جے آئی ٹی بھی انہی افسران کی بنائی گئی جن کے لوگوں نے غلط انفارمیشن دی اور پھر بندے مار دیے۔ مطلب وہی ملزم اور وہی اپنے جج ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جے آئی ٹی کے سربراہ نے فرمایا کہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ تین دن میں مکمل نہیں ہو سکتا‘ اس کے لیے پورا ایک مہینہ چاہیے‘ تاکہ معاملہ سرد خانے میں ڈالنے میں آسانی رہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک طرف دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ دہشت گردوں کو مارا گیا ہے اور یہ دعویٰ آئی جی امجد سلیمی کے دفتر سے جاری پریس ریلیز میں کیا گیا تو پھر تحقیقات میں کتنی دیر لگنی چاہیے تھی؟ ٹیم کو آئی جی سے ملنا تھا کہ جناب آپ ہمارے ساتھ وہ ثبوت شیئر کریں اور بتائیں کہ وہ حکم کس نے جاری کیا تھا کہ گاڑی کو روکیں اور اندھا دھند گولیاں مار دیں؟ اس طرح سی ٹی ڈی سے پوچھ گچھ کے لیے بھی کیا ایک ماہ کا وقت چاہیے کہ انفارمیشن کہاں سے آئی اور کس نے کیا حکم جاری کیا؟ یا سی ٹی ڈی کے ان اہلکاروں سے پوچھنے کے لیے کتنا وقت درکار تھا کہ آپ کو یہ حکم کس نے دیا تھا کہ گاڑی کو روک کر گولیاں برسا دیں یا انہوں نے اپنا عقل کیوں استعمال نہ کیا اور گرفتار کرنے کی بجائے سیدھی گولیاں مار دیں؟
جہاں اتنی بڑی ٹریجڈ ی پر دل دکھ سے بھر گیا ہے‘ وہیں تحریک انصاف نے جس طرح اس قتلِ عام کو کور اَپ کرنے کی کوشش کی‘ وہ زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ماضی میں شہباز شریف کی حکومت ایسے قتلِ عام کراتی تھی تو عمران خان استعفیٰ مانگتے تھے۔ ایک پولیس افسر نے ورکرز کے ساتھ زیادتی کر دی تھی تو جلسۂ عام میں کہا تھا کہ وہ پاور میں آکر خود اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دیں گے۔ اب یہاں ایک آئی جی کے دفتر سے پریس ریلیز جاری ہو رہی ہے کہ ہم نے ''دہشت گرد‘‘ مار دیے ہیں اور پوری تحریک انصاف اور اس کے وزرا اس قتل ِعام کا دفاع کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی ایم این اے عندلیب عباس کو سلام‘ جنہوں نے اکیلے سٹینڈ لیا اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ حیران ہوتا ہوں کہ جس پولیس کے خاور مانیکا کی بیٹی سے رات گئے روکنے اور اتنا پوچھ لینے پر کہ آپ کو سکیورٹی چاہیے‘ پورا پنجاب ہلا کر رکھ دیا گیا ‘ وہیں اب چار لوگوں کے قتل پر پولیس کا دفاع شدو مد سے کیا جارہا ہے۔ پنجاب پولیس کے خلاف جتنا ردعمل مانیکا خاندان کی گستاخی پر تھا اور جو سزائیں پولیس کو دی گئیں‘ ایسا تھوڑا سا ردعمل بھی یہاں نظر آتا تو کچھ دل جوئی ہوتی۔
شریف خاندان نے بھی ماڈل ٹائون کے مقتولین کے ورثا کو پیسے دے کر خریدنے کی کوشش کی تھی‘ جیسے پنجاب حکومت نے اب دو کروڑ روپے کا اعلان کر کے کی ہے۔ اقتدار بھی کیا چیز ہے کہ بے گناہوں کا لہو بھی حکومت کے نشے کے سامنے اہمیت کھو دیتا ہے۔ اس انسانی ٹریجڈی پر ڈھائی ہزار سال پہلے یونان کے عظیم ڈرامہ نگار سوفوکلیز کا ڈرامہ''کنگ ایڈی پس‘‘یاد آتا ہے۔ ایک بے گناہ کا قتل ہوا تو ریاست تھبیز پر عذاب نازل ہوگیا ۔ روتے پیٹتے لوگوں کو دیوتائوں نے کہا کہ جب تک قاتل کو سزا نہیں ملے گی آسمانی بلائیں پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ تفتیش ہوئی تو قاتل ریاست کا بادشاہ نکلا۔سب پریشان کہ بادشاہ کو سزا کون دے؟ ڈلفی کے مقام پر ہزاروں سال پرانے برگد کے درختوں سے لپٹے بوڑھے دیوتا مسکرا کر بولے : قاتل اگر بادشاہ بھی ہے تو کیا ہوا ۔ بے گناہ کے قتل کی سزا تو دینی ہوگی‘ ورنہ سب عذاب بھگتو۔
بتانا صرف یہ تھا کہ ہزاروں سال پہلے بھی قدرت کے ہاں بے گناہوں کے بہائے گئے لہو کی معافی نہ تھی۔ جی ہاں ریاست کے بادشاہ تک کو بھی معافی نہ تھی !