2008ء کے اوائل کی بات ہے۔ یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنے بمشکل ایک ہفتہ ہوا تھا کہ صبح سویرے میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ نیند سے جھنجھلا کر فون اٹھایا۔ وزیراعظم آفس کا نمبر دیکھا توحیرانی ہوئی کہ صبح سویرے کون سا آسمان گر پڑا ہے جسے کندھوں پر سنبھالنے کے لیے مجھے اٹھانے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ عموماً میں فون کی بیل بند کر کے سوتا ہوں۔ جب اٹھتا ہوں تو مس کالز دیکھ کر کال بیک کر لیتا ہوں۔ نیند میں خلل بردا شت نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں اس رات فون کی بیل کیوں بند نہ تھی۔ صحافی بننے کے پیچھے جہاں جنون کارفرما تھا‘ وہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صبح اٹھ کر نوکری پر نہیں جانا پڑتا تھا۔ ساری عمر کسی ریگولر ٹائم ٹیبل کو فالو نہ کرنا بھی ان عادتوں میں سے ایک تھی جس وجہ سے میڈیا اچھا لگتا تھا۔ میں نے عمربھر کبھی گھڑی نہیں باندھی اور نہ گھڑیوں کا شوق ہے۔ زمانہ طالب علمی میں اگر کبھی گھڑی پہن بھی لیتا تو یوں لگتا جیسے اس چھوٹی سی مشین نے مجھے اپنا قیدی بنا رکھا ہے۔ اگرچہ اس عادت کے کچھ نقصانات بھی ہوئے لیکن فوائد زیادہ محسوس ہوتے تھے‘ لہٰذا ڈٹا رہا۔ میرے دیر تک سونے کی عادت کا ایک اور اثر ہوا کہ جہاں میں رہتا تھا‘ وہاں ایک دن دوست نے ہنس کر کہا: تمہیں پتہ ہے تمہارے بارے میں یہاں کیا مشہور ہے؟ میں نے پوچھا: کیا؟ بولا: تمہارے ہاں جو گھریلو ملازمہ کام کرنے آتی ہے اس نے مشہور کررکھا ہے کہ بیگم صاحبہ کا میاں تو ٹکے کا کام نہیں کرتا ‘ نکما‘ ہڈ حرام سارا دن سوتا رہتا ہے۔ بے چاری بیگم صاحبہ صبح سویرے اپنی نوکری پر جاتی ہیں ‘ ان کی تنخواہ سے گھر چل رہا ہے۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا ۔
جب بچے چھوٹے تھے تو میں انہیں خود تیار کر کے سکول چھوڑنے جاتا تھا اور واپس آکر سو جاتا۔ اب میں اس بے چاری کو کیسے سمجھاتا ''چور‘ سپاہی اور صحافی‘‘ کا کام رات کو ہی شروع ہوتا ہے۔ دن تو معزز لوگوں کے لیے مزدوری کا ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے تو رات کے اندھیرے میں کام پر نکلتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے‘ اخبار میں کام کرتا تھا ‘ دوپہر کے بعد خبر کی تلاش اور پھر شام کو گھر واپسی۔ کچھ کھایا پیا ۔ بچوں سے کھیلا‘ سکول کا ہوم ورک کرایا اور رات نو بجے دفتر چلا گیا ۔ وہاں پہلے دفتر کے کولیگز سے گپیں ماریں۔ چائے کے کئی دور چلے۔ پھر گیارہ بجے خبر فائل کرنا شروع کی اور بارہ بجے تک فارغ۔ پھر دوستوں کے ساتھ کسی مارکیٹ میں بیٹھ کر رات گئے گپ شپ اور پھر دو تین بجے گھر واپسی۔
خیر‘ خود کو کوستے ہوئے فون اٹھایا اور نیند بھری آواز میں ہیلو کہا۔ دوسری طرف سے ایک بارعب مردانہ آواز میں میرے نام کا پوچھا گیا۔ میرے کنفرم کرنے پر آواز ابھری کہ آپ اچھے گیلانی صاحب کے دوست ہیں‘ وہ تو آپ کی بڑی تعریفیں کرتے ہیں اور آپ نے ان کے خلاف ہی اتنا بڑا سکینڈل اپنے اخبار میں فائل کر دیا ہے۔ ابھی تو انہیں وزیراعظم بنے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ آپ کو اپنے دوست کا کچھ خیال کرنا چاہیے تھا۔ میں نیند میں تھا۔ ایک نیند سے اٹھنے کا خود پر غصہ اور اوپر سے اس بارعب آواز کے انداز نے مجھے کچھ غصہ دلا دیا‘ لیکن میں نے خود پر سختی کر کے آرام سے پوچھا: آپ کون بول رہے ہیں؟ کوئی تعارف ہوجائے تو پھر مناسب جواب دیا جاسکتا ہے ۔
وہ فوراً بولے: اوہ سوری‘ میں بتانا بھول گیا ‘ میں وزیراعظم کے سٹاف سے بات کررہا ہوں۔ میں نے ان کا نام سن رکھا تھا۔ ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کہا: شکریہ‘ اب بتائیں اتنی صبح کیسے یاد کیا؟ کہنے لگے: ابھی ابھی وزیراعظم گیلانی سے ناشتے پر ملاقات ہوئی اور ہم نے انہیں آپ کی اس خبر کی کٹنگ پیش کی‘ جو آج انگریزی اخبار میں پانچ کالموںمیں چھپی ہے‘ آپ کے نام کے ساتھ۔ ہم سب سٹاف نے وہ خبر دیکھی تو پہلے بہت حیران ہوئے کہ وہ تو آپ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں‘ لیکن آپ نے تو دوستی کا کوئی خیال نہیں کیا اور خبر لکھ ماری ۔ سب سٹاف نے تو بڑے چسکے لے کر وہ خبر گیلانی صاحب کو سنائی اور گیلانی صاحب وہ سب کچھ سن کر ہنستے رہے۔ میں بولا: گیلانی صاحب نے کچھ نہیں کہا ؟ وہ افسر بولے: ہاں وہ دیر تک بولتے رہے۔ اس افسر کے بقول گیلانی صاحب نے کہا: میں رئوف کو اس وقت سے جانتا ہوں جب اڈیالہ جیل میں بند تھا۔ جنرل مشرف نے جیل میں ڈالا ہوا تھا کہ جب تک پیپلز پارٹی چھوڑ کر چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ پر بیعت کرکے ق لیگ میں شامل نہیں ہوتے اس وقت تک جیل میں رہو گے۔ ایک دن جیل سیل میں اخبار میں اس کی خبر پڑھی جس میں اس نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کی روداد لکھی تھی‘ جس کے مطابق جنرل مشرف کی بنائی ہوئی پی اے سی میں دو آڈٹ رپورٹس پیش کی گئیں۔ ایک سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد کے بارے میں تھی‘ جبکہ دوسری سپیکر قومی اسمبلی گیلانی کے بارے میں۔ حیرانی کی بات تھی کہ پی اے سی نے وسیم سجاد‘ جو ق لیگ کو جوائن کرچکے تھے‘ کو سیٹل کر دیا لیکن گیلانی کی رپورٹ کو یہ کہہ کر ہاتھ نہ لگایا کہ وہ معاملہ جنرل مشرف کی نیب طے کرے گی۔ مطلب نیب گیلانی کو ق لیگ میں شامل کرائے گا پھر جان چھوٹے گی۔ ان دونوں رپورٹس میں الزامات کی نوعیت ایک جیسی تھی لیکن فیصلہ مختلف ہوا ‘ جو جنرل مشرف کی حکومت جوائن نہیں کرنا چاہتا تھا وہ جیل میں تھا جبکہ دوسرا مل چکا تھا لہٰذا رپورٹ سیٹل ہوگئی۔ گیلانی نے اپنی ٹیم کو بتایا کہ آج مجھے اپنے خلاف یہ خبر پڑھ کر حیرانی نہیں ہورہی ۔
جب میری کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ چھپی تو گیلانی صاحب کی خاتون پرنسپل سیکرٹری بھاگی بھاگی کتاب کے کچھ حصوں پر نشانات لگا کر انہیں پڑھانے لے گئیں کہ اس نے آپ کے بارے لکھا ہے کہ جب آپ لندن گئے تو وہاں کیا کرتے رہے تھے۔ کتاب کے اس باب سے آپ کا امیج کچھ اچھا نہیں ابھرا۔ گیلانی صاحب نے بغیر کتاب دیکھے ان سے پوچھا: کیا غلط لکھا ہے اس نے؟ ایک دفعہ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریر کرنے گئے تو میں وہیں تھا ۔ واپسی پر مجھے ساتھ لے لیا ۔ گاڑی میں اس وقت ان کے چیف سکیورٹی افسر اور موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام بھی تھے۔ باتیں شروع ہوئیں تو میں نے کہا: ایک بات کہوں‘ آپ اپنے بچوں کو روکیں‘ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے دور رکھیں ‘ یہ آپ کے لیے مسائل پیدا کریں گے‘ ان کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ آپ نے خود تو جیل بھگت لی تھی لیکن اولاد کو مشکل میں دیکھ کر آپ کو زیادہ تکلیف ہوگی۔ بعد میں مجھے کلیم امام نے بتایا کہ وہ اکثر اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے‘یہ اور بات کہ اس ڈانٹ ڈپٹ کا بچوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
جوں جوں کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی گئیں میں ان سے دور ہوتا گیا۔ افسوس ہوا‘ ایک اچھا انسان جسے اللہ نے وزیراعظم بنایا‘ وہ خاندان اور وزیروں سمیت کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا کررہا تھا۔ بڑے عرصے بعد مجھے ملے تو ہنس کر کہا: پتہ ہے میرے بچے آپ کی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ وہ دن رات ہمارے خلاف سکینڈل فائل کرتا ہے۔ ہمارے خلاف بولتا ہے اور عدالت میں اس کی خبروں کی وجہ سے ہماری پیشیاں لگی ہوئی ہیں۔ مجھے چپ دیکھ کر کہنے لگے: پتہ ہے میں انہیں کیا جواب دیتا ہوں؟ میں پھر بھی خاموش رہا ۔ بولے: وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تم جنرل مشرف کی جیل میں قید یوسف رضا گیلانی کے دوست تو ہو سکتے ہو لیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ذاتی دوست نہیں ہو۔ بولے: یہ بات مجھ اس دن ہی سمجھ آگئی تھی جس دن جنرل مشرف کے خلاف اور میرے حق میں سٹوری فائل کی تھی اور میں آپ سے ملا تک نہیں تھا۔ صحافی عہدے پر بیٹھے حکمران کا ذاتی دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ کا دوست آپ کو اقتدار میں آپ کی غلطیاں بتاتا ہے‘ ان کے جواز ڈھونڈ کر نہیں چھاپتا۔ وہ ہنس کر بولے :یہ راز اگر میری میڈیا ٹیم ‘ میری کابینہ کے وزیر اور میرے بچے سمجھ پاتے تو کبھی تم سے ناراض نہ ہوتے !
اگر گیلانی صاحب کے وزیر اور بچے یہ راز نہ سمجھے تو وہ خود بھی یہ قیمتی راز نہ جان سکے کہ جب اللہ بیس کروڑ لوگوں میں سے کسی ایک کو بادشاہ بناتا ہے تو اس کو عزت کمانی چاہیے‘ اندھا دھند دولت نہیں۔ پیسے بنانا کون سا کمال ہے۔ کمال تو عزت کمانا ہے!