ملتان سے پرانے دوست سجاد جہانیہ کا میسیج تھا: کیا جمعہ کے روز گاندھی پر چھپنے والے کالم کی مزید قسطیں لکھیں گے؟ سجاد کا خیال تھا‘ میں نے اس کالم کا اختتامیہ اس موڑ پر کیا کہ تشنگی باقی ہے۔ میں نے میسیج کا جواب لکھ کر الٹا پوچھا: کیا مجھے مہاتما گاندھی پر مزید کالم لکھنے چاہئیں؟ سجاد کا جواب تھا کہ اس کے لیے اس کالم میں بہت ساری باتیں نئی ہیں۔
اکیلے سجاد جہانیہ کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کی پوری نئی نسل کو یقین نہیں آ رہا کہ جو کچھ لکھا گیا‘ وہ سچ تھا اور گاندھی اس وجہ سے قتل ہوئے کہ ہندو انتہا پسند ان سے پاکستان کی حمایت اور مسلمانوں کو قتل عام سے بچانے کی وجہ سے ناراض تھے۔ دراصل ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جتنے اچھے اور نیک کام ہیں‘ وہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں۔ نان مسلم اچھا کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے‘ لہٰذا جب اس طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں تو ہم فوراً اسے مسترد کر دیتے ہیں کہ ایک نان مسلم کیسے اچھا ہو سکتا ہے؟ سجاد کہنے لگا: ہماری نسلوں نے تو درسی کتب اور سکول کی کتابوں سے جو پڑھا تھا اس سے کوئی اچھی رائے نہیں ابھرتی‘ لیکن کالم پڑھ کر لگا‘ گاندھی تو مسلمانوں اور پاکستان کو ان کے پچپن کروڑ روپے دلواتے ہوئے قتل ہوئے تھے۔
سجاد جہانیہ سے دوستی بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں تقریباً پچیس برس قبل شروع ہوئی تھی۔ شکیل انجم، ظفر آہیر، انجم کاظمی اور جمشید رضوانی اسی دور سے دوست بنے۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں ملتان ٹک گیا تھا۔ ہم پانچوں کو ہی صحافت کا شوق تھا۔ ملتان میں ایک آدھ اخبار ہی تھا‘ جہاں نوکری لینا بہت مشکل تھا۔ سجاد جہانیہ اچھا لکھاری تھا۔ اس نے ایک اردو اخبار میں جگہ بنا لی۔ اس دور میں سجاد جہانیہ کی پرانی گاڑی میں ہم سارا دن ملتان اور اس کے گردونواح میں گھومتے‘ لالہ عطااللہ نیازی کے دکھی گانے سنتے اور پھر ایک دوسرے کے عشق کی ایک دوسرے کو حسرت بھری داستانیں سنا کر تسلیاں دیتے۔ پھر شام ڈھلے کسی کھوکے پر بیٹھ کے کڑک چائے پی کر لوٹ جاتے۔ سجاد جہانیہ نے یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیا تھا‘ لہٰذا قابلیت پر شک نہ تھا۔ ایک دن اس نے مجھے کہا: یار مبارکباد دو‘ میں نے انفارمیشن افسر کا امتحان پاس کر لیا تھا اور اب سرکاری نوکری کروں گا۔ مجھے جھٹکا لگا اور میں بولا: یار تیرے اندر سرکاری افسروں والی کوئی بات نہیں‘ تو باغی انسان ہے اس لیے تجھے صحافت ہی سوٹ کرتی ہے‘ اتنا اچھا لکھتے ہو‘ اب کہاں جا کر وزیروں یا سیکرٹریوں کے بیگ اٹھائو اور جھاڑیں سنو گے‘ زندگی ایک دفعہ ملی ہے اسے مرضی سے گزارو۔ وہ ہنس پڑا اور بولا: میں تو یہی چاہتا ہوں لیکن کیا کروں‘ ابا حضور کا حکم تھا کہ سرکاری نوکری سے بہتر کوئی نوکری نہیں ہو سکتی۔ میں بولا: سرکار ہم آپ کو عرصے سے جانتے ہیں‘ آپ خود سرکاری ملازم بننا چاہیں تو اور بات ہے‘ ورنہ آپ کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔
خیر سجاد جہانیہ ملتان میں ہی سرکاری افسر لگ گیا۔ کچھ عرصہ وہ لاہور رہا‘ پھر ملتان لوٹ گیا۔ وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جسے اپنے علاقے اور لوگوں سے عشق ہوتا ہے۔ وہ سرائیکی نہ ہوتے ہوئے بھی سرائیکی صوبے کا حامی تھا اور سرائیکی ایسی شاندار بولتا کہ ہم اس کے سامنے شرما جاتے۔
اس دوران میں ملتان گیا تو سجاد جہانیہ نے مجھے اپنی کتابیں پیش کیں۔ اس نے خاموشی سے کہانیاں لکھی ڈالی تھیں۔ اس کی اردو پر گرفت نے مجھے متاثر کیا۔ کہانیوں کے موضوعات اس سے زیادہ متاثر کن تھے۔ آج کل وہ ملتان آرٹس کونسل کا سربراہ ہے اور مجھے یہ کہنے میں ہرج نہیں وہ کام اسے ملا ہے جس سے اسے عشق ہے۔ اس سے بہتر ملتان آرٹس کونسل کو کوئی نہیں چلا سکتا تھا۔ میرے بس میں ہو تو اسے تاحیات اس ادارے کا سربراہ لگا دوں۔ سجاد جہانیہ کلچرل اور اپنی دھرتی ماں سے جڑا ہوا انسان ہے۔ اس نے اب ملتان آرٹس کونسل کو اس ہزاروں سال قدیم علاقے کی زبانوں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو عزت دلانے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ پچھلے دنوں اس نے سرائیکی کے بڑے شاعر افضل عاجز کے اعزاز میں جو موسیقی کی محفل منعقد کرائی‘ وہ اپنی جگہ ایک بڑا کام تھا۔ سجاد جہانیہ کو موسیقی، ادب اور کلچر سے اتنا پیار ہے کہ خود گا لیتا ہے‘ ڈھول کی تھاپ سن کر خود پر قابو نہیں رکھ پاتا اور جھمر میں شریک ہو جاتا ہے۔
اب سجاد جہانیہ کو کون سمجھائے کہ ہماری درسی کتب کس نے لکھیں۔ میرے باپ دادا ان پڑھ تھے۔ وہ کبھی سکول نہ گئے تھے۔ ہم پہلی جنریشن تھے جنہیں انہوں نے سکول بھیجا۔ اب جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد سب کتابیں لکھیں، انہوں نے اپنی مرضی سے ہمارے دوستوں اور دشمنوں کا انتخاب کیا۔ ہمارے ہیروز اور دشمن تخلیق کیے۔ مان لیتے ہیں گاندھی پاکستان بننے کے خلاف تھا۔ تو کیا اپنے مخالفوں کی اچھی باتوں کو سراہا نہیں جا سکتا؟ صاف ظاہر ہے ہر بندہ اپنے خیالات پر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب فلم 'جناح‘ بنی تھی تو اس پر اردو پریس نے بہت دھول اڑائی تھی۔ اعتراض تھا کہ گاندھی اور نہرو کو بڑا دکھا کر قائد اعظم کے قد کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر اکبر ایس احمد کا مجھے جواب یاد ہے جو انہوں نے پی ٹی وی کے ایک شو میں دیا تھا کہ کیا میں نہرو اور گاندھی کو اتنا کمزور دکھاتا جس کے سامنے قائد اعظم کے مخالفین بونے لگتے؟ اگر ہم ان لیڈروں کو بونا دکھاتے تو عام لوگوں کو قائداعظم کی قابلیت اور اہلیت کا اندازہ نہ ہوتا۔ فتح وہ بڑی سمجھی جاتی ہے جو طاقتور دشمنوں اور مخالفوں کے منہ سے چھینی جائے یا بونے قد کے دشمن کو شکست دے کر آپ خوش ہوتے رہیں؟
ہماری درسی کتب میں یہی کچھ کیا گیا کہ ہم نے گاندھی اور نہرو کے قد چھوٹے کرکے اپنی نسلوں کو دکھانے کی کوشش کی کیونکہ ہمارا خیال تھا‘ وہ ہمارے دشمن ہیں لہٰذا انہیں چھوٹا‘ نالائق اور کم ظرف دکھانا ہمارے حق میں ہے۔
جہاں ہم نے گاندھی کے پورے کردار کو نہیں سمجھا وہیں ہم نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے بارے میں وہ سب کچھ نہیں پڑھا جو ہماری نسلوں کو پڑھنا چاہیے تھا۔ ہمیں بتایا گیا مائونٹ بیٹن کا جھکائو بھارت کی طرف تھا۔ قائد اعظم اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے درمیان تعلقات اچھے نہ تھے۔ لارڈ بیٹن کا خیال تھا کہ نہرو، سردار پیٹل اور گاندھی بات مان لیتے ہیں لیکن قائد اعظم ڈٹے رہتے ہیں۔
ویسے اس میں شک نہیں کہ اگر قائد اعظم پاکستان کے قیام کے مطالبے پر قائم نہ رہتے تو شاید یہ ملک نہ بنتا۔ لیکن دوسری طرف کشمیر پاکستان کو دلوانے کے لیے جو کوششیں سردار پٹیل اور لارڈ مائونٹ بیٹن نے مل کر کی تھیں‘ وہ اگر میں کسی دن تفصیل سے لکھ دوں تو لوگ انگلیاں منہ میں دبائے بیٹھے ہوں گے۔ ہمیں کہا جاتا ہے گورا جان بوجھ کر کشمیر کا جھگڑا چھوڑ گیا تھا۔ اگر اس جھوٹی متھ بارے لکھ دیا تو پھر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہی نہرو سے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہوتے ہوئے بھی گاندھی کے ساتھ مل کر پاکستان کو پچپن کروڑ روپے دلوائے تھے بلکہ لارڈ مائونٹ نے اپنی سرکاری حیثیت سے ایسے اقدامات کی منظوری دینے سے انکار کر دیا‘ جو ان پیسوں کو روکنے کا قانونی جواز فراہم کر سکتے۔ وہ افسردہ تھے کہ ہندوستانی قیادت اپنے وعدوں سے مکر گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کیا ہمارے اندر حوصلہ ہے کہ ہم اپنے مخالفوں کی اچھائیوں کو بیان کر سکیں یا ان کے انسان دوستی پر مبنی اقدامات کو ہماری درسی کتب کا حصہ بنایا جائے؟تاریخ کو بگاڑ کر اپنے زاویے سے لکھنے کا یہ نقصان ہوا کہ ہماری نسلوں تک پورے حقائق نہیں پہنچے۔ ہمارے اندر وہ نفرت گھر کر گئی جو شاید اتنی جلدی نہیں جائے گی۔ یہی کام بھارت میں اب شروع ہو رہا ہے جہاں آج کل بی جی پی حکومت مسلمان فاتحین کے کارناموں یا جنگوں سے انکاری ہو رہی ہے۔ چند ریاستوں نے تو یہاں تک کہا کہ وہ تاریخ دوبارہ لکھیں گے‘ جس میں ہندو حکمرانوں کو دی گئی شکست کو فتح میں بدل دیا جائے گا۔
اب سجاد چاہتا ہے کہ گاندھی پر مزید کالم لکھوں تاکہ ہمیں جو آج تک تاریخ پڑھائی گئی ہے اس کا دوسرا رخ بھی سامنے آ سکے۔ سوال یہ ہے ہمارے اندر پورا سچ سننے کا حوصلہ ہے کہ گاندھی پاکستان کو اس کے 55 کروڑ دلواتے اور لاکھوں مسلمانوں کو ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں سے بچانے کے جرم میں قتل کیا گیا تھا؟
شاید صدیوں سے غلام خطے کے لوگوں میں وہ ظرف نہیں جس کا مظاہرہ ہزاروں میل دور سے آئے جنگجو سکندر یونانی نے پوٹھوہار کے راجہ پورس کے ساتھ اسے شکست دینے بعد کیا تھا۔