ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے بڑھتے خطرات پر ایک شاندار کتاب Freedom at Midnightکا ایک باب یاد آیا۔ جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کون سی ڈیڈ لائن ذہن میں رکھ کر برطانیہ سے آئے ہیں؟ وائسرائے کے جواب نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور تو اور اس تاریخ کا پتہ برطانوی وزیراعظم ایٹلی اور اس کی کابینہ کو بھی نہ تھا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے دوسرے وائسرائے تھے جنہوں نے پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ماؤنٹ بیٹن کی پہلی اور آخری پریس کانفرنس تھی۔ اس وقت ہال میں تین سو صحافی موجود تھے‘ جن میں امریکہ‘ روس‘ برطانیہ ‘ چین اور یورپ سے آئے ہوئے صحافی بھی شامل تھے ‘جو نئے وائسرئے کو سننا چاہتے تھے۔
دو ماہ کے اندر ماؤنٹ بیٹن نے بہت کچھ کر لیا تھا ۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں سے ملاقاتیں کر کے وہ بہت سے معاملات طے کرچکے تھے۔ کئی ایک سے ان کے ذاتی تعلقات بھی قائم ہوچکے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن سابق برطانوی وزیراعظم چرچل کو بھی قائل کر چکے تھے کہ ہندوستان کو آزاد اور تقسیم ہونے دیں۔ چرچل ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دینے کے بہت خلاف تھا ۔چرچل کو راضی کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تمام تر صلاحیتیں خرچ کر ڈالی تھیں۔ چرچل‘ جسے برطانوی وزیراعظم اور کابینہ قائل نہ کرسکی تھی ‘اسے آخرکار ماؤنٹ بیٹن نے راضی کر لیا تھا۔
جب سب صحافیوں نے وائسرائے سے سوال و جواب کر لیے تو اچانک ایک ہندوستانی صحافی نے آخری سوال پوچھ لیا کہ اگر سب لوگ راضی ہوگئے ہیں تو آپ کے ذہن میں کوئی ایک تاریخ تو ہوگی جس روز آپ پاور ٹرانسفر کر دیں گے؟ وائسرائے نے جواب دیا: جی بالکل ہے۔ صحافی نے پوچھا :اگر آپ نے تاریخ کا فیصلہ کر لیا ہے توپھر بتا دیں وہ کون سی تاریخ ہے؟
وائسرائے کے ذہن میں بہت سی تاریخیں چلنا شروع ہوگئیں ۔ جب اس سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس وقت اس کے ذہن میں کوئی ایک تاریخ نہ تھی لیکن وہ اس بات پر قائل تھا کہ بہت جلد اسے تاریخ دینی پڑے گی۔ اب اس ہال میں بیٹھے سب لوگوں کی نظریں وائسرائے ہند پر جم چکی تھیں۔ ایک لمحے میں فیصلہ ہونے والا تھا کہ کب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہورہے تھے۔ پورے ہال میں خاموشی تھی۔ وائسرائے کو پتہ تھا کہ اس نے دیر کی تو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان مزید خون خرا بہ ہوگا ۔ وہ ابھی ابھی کہوٹہ‘ پنڈی میں ہونے والے فسادات میں مرنے والوں کی جلی ہوئی لاشیں دیکھ کر لوٹا تھا اور شدید ڈپریس تھا۔ اسے اندازہ نہ تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اس لیول کو پہنچ گئی تھی کہ اب ہر علاقے سے فسادات کی خبریں آرہی تھیں۔ گائوں کے گائوں جلائے جارہے تھے۔ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا تھا ۔ کل کے ہمسائے اور دوست ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے۔
سب آنکھیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر مرکوز تھیں۔ وہ ابھی بھی ذہن میں تاریخیں سوچ رہا تھا ۔ تو کیا ستمبر کا پہلا ہفتہ ٹھیک رہے گایا ستمبرکا دوسرا ہفتہ یا پھر اگست کا درمیانی ہفتہ؟ اچانک ماؤنٹ بیٹن کے ذہن میں ایک تاریخ پھنس گئی۔ اس تاریخ کا اس کی اپنی زندگی سے بہت گہرا تعلق تھا ۔ اس تاریخ کو برما کے جنگلات میں جاپان نے برطانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور وہ اس وقت برطانوی افواج کی وہاں کمانڈ کررہا تھا۔ اس سے بڑا دن اور کیا ہوسکتا تھا جب جاپانی ریاست کو شکست ہوئی تھی۔ جاپان کے سمرائی فیوڈل ازم کی جس دن شکست ہوئی تھی اس کے دو سال بعد اسی دن اگر ہندوستان پاکستان کے لیے جمہوریت کی بنیاد رکھی جائے تو اس سے اور بڑا دن کیا ہوسکتا تھا؟
وائسرائے کی آواز میں جذبات ابھرے ‘ برما کے جنگلوں کا فاتح ابھی ہندوستان کی آزادی کی بنیاد رکھنے والا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پورے ہال پر نظر دوڑائی اور بولا: پندرہ اگست کو ہندوستان کو پاور ٹرانسفر کر دی جائی گی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے یہ غیرمتوقع اعلان ہاؤس آف کامنز‘ ڈاؤننگ سٹریٹ اور بکنگھم پیلس‘ کے لیے ایک بم شیل ثابت ہوا۔ باقی چھوڑیں برطانوی وزیراعظم کو اندازہ نہ تھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اتنی جلدی یہ کام کر گزرے گا ۔ اگرچہ وائسرائے کو 1948ء تک یہ کام فائنل کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی لیکن برطانوی وزیراعظم بھی اتنی جلدی تاریخ کے لیے تیار نہ تھے۔ اور تو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے قریبی دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ کون سی تاریخ اس کے ذہن میں تھی۔ بھارتی لیڈرجن کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپریل مئی میں گھنٹوں اکٹھے گزارے تھے انہیں بھی پتہ نہ تھا کہ ہندوستان کو کیسے تقسیم کیاجائے۔
ہندوؤں کے لیے بھی یہ بم شیل تھا اس لیے کہ وائسرائے ہند نے تاریخ کا اعلان کرنے سے پہلے ان کے جوتشیوں سے مشورہ نہ کیا تھا۔ وائسرائے کو پتہ نہ تھا کہ ہندوستان میں کروڑوں لوگ ان جوتشیوں کے حساب کتاب پر زندگیاں گزارتے ہیں۔ وائسرائے نے ایسی غلطی کر دی تھی جس کی کوئی معافی نہ تھی۔ پوری دنیا میں ہندوستانی جتنے جوتشیوں کو مانتے تھے اور کوئی خطہ نہیں تھا۔ ہر گائوں‘ مندر اور ہر مہاراجہ کے دربار میں ایک دو جوتشی ضرور ہوتے تھے ۔چارٹ اور زائچے سے لیس یہ جوتشی ہندوستان کے بے تاج بادشاہ تھے۔لوگ اس لمحے میں خودکشی کرنے تک تیار ہوجاتے اگر انہیں بتایا جاتا کہ مرنے کا یہ بہترین لمحہ ہے حتیٰ کہ اگر بچے جو ایسے سٹار کے اثر میں پیدا ہوتے جو قسمت کا اچھا نہ ہوتا تو والدین انہیں کہیں چھوڑ آتے۔ وہ جوتشتی ان لوگوں کو بتاتے کہ کون سا ہفتہ ان کے لیے بہتر ہوگا اور کون سا نہیں‘ کون سے دن اچھے ہوں گے اور کون سے برے۔
ہندوؤں میں جمعہ اور اتوار کو اچھا دن نہیں سمجھا جاتا تھا‘مگر اب وائسرائے کے اعلان کے بعد ہندوستان میں کوئی بھی کیلنڈر کی مدد سے پتہ چلا سکتا تھا کہ پندرہ اگست کو جمعہ ہوگا ؛چنانچہ جونہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اعلان کیا تو اسی وقت ہندوستان کے ہزاروں جوتشی ہندوستان کا زائچہ بنانے بیٹھ گئے۔ بنارس کے جوتشیوں نے فوراً اپنے چارٹس کی مدد سے یہ اعلان کر دیا کہ پندرہ اگست ہندوستان کے لیے سازگار نہیں۔ انہوں نے کہا: بہتر ہوگا ایک دن مزید فرنگیوں کی حکمرانی قبول کر لی جائے نہ کہ اس تاریخ کو آزادی لی جائے جو ہندوستان کو راس نہیں آئے گی۔
کلکتہ میں سوامی مدن آنند نے جونہی ریڈیو پر وائسرائے کا اعلان سنا تو وہ فوراً اپنے چارٹس کی طرف دوڑا اور اپنا حساب کتاب شروع کر دیا۔ وہ کافی دیر تک کاغذات پر لکیریں کھینچتا رہا ۔ وہ مختلف لکیریں لگاتا گیا اور آخر پندرہ اگست تک پہنچ گیا۔سوامی کو ایک جھٹکا لگا۔ پندرہ اگست کو ہندوستان Capricorn کے زیراثر ہوگا۔ یہ وہ سائن تھا جس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کی تمام مرکزی قوتوں کے ساتھ دشمنی بن جاتی تھی‘ اسی لیے تو ہندوستان کی تقسیم ہورہی تھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پندرہ اگست saturn کے زیراثر گزر رہاتھا ۔ ایک ایسا سٹار جو بہت ہی ناسازگار سمجھا جاتا ہے اور اس بارے جوتشی کہتے ہیں A star with no neck۔ دیگر ہزاروں جوتشیوں کی طرح اس نوجوان سوامی نے چارٹ سے نظریں ہٹائیں۔ آنے والے برسوں میں اسے اس خطے میں ہر طرف تباہی اوربربادی دکھائی دی ۔ یہ انہوں نے کیا کر دیا ہے ...یہ کیا کردیا ہے ظالم نے‘ سوامی آسمان کو دیکھ کر چلایا ۔
سوامی نے آسام کے مندر میں برسوں یوگا کے ذریعے جو جسمانی ‘ ذہنی اور روحانی شکتی حاصل کی تھی وہ بھی اسے نارمل رکھنے میں ناکام ہورہی ۔ سوامی نے وہ کام کرنے کا فیصلہ کیا جو آج تک کسی جوتشی نے نہیں کیا تھا نہ ہی اس کی اسے تربیت دی گئی تھی ۔
آسمانی قوتوں نے جو خطرناک پیغام اس نوجوان سوامی کو بھیجا وہ اس کے لیے برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔ اسے کچھ کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ تھا آسام کا وہ نامعلوم سوامی کر ہی کیا کرسکتا تھا؟ اچانک اس بے چین سوامی کے ذہن میں ایک خیال آیا ۔ اس نے اس خطرناک زائچے کو ایک طرف پھینکا ۔ سوامی آنند ایک ایسا کام کرنے بیٹھ گیا جو نہ کوئی اور سوچ سکتا تھا اور نہ ہی کسی جوگی یا جوتشی نے پہلے کبھی یہ کیا تھا ۔ (جاری)