اسد عمر کو سوچنے کا بھی موقع نہیں ملا اور وہ فارغ ہوگئے ۔سسلین مافیا کی زبان میں اسے surprise کہتے ہیں کہ اگلا بندہ سنبھل نہ سکے اور آپ وار کر جائیں ۔ یہ ٹرم میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ اسد عمر سے کچھ دن پہلے صحافیوں کے ایک گروپ کی ملاقات ہوئی تو وہ بڑے دھڑلے سے بتا رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے سب باتیں طے ہوگئی ہیں ‘ اب بس وہ امریکہ جا کر ڈالروں کی بوریاں بھر کر لائیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ وہ خود حیران ہوں گے کہ ان کے امریکہ جانے بعدپیچھے کیا ہوگیا کہ ان کی چھٹی کرا دی گئی ؟
ویسے اسد عمر کو بھی محسوس ہورہا تھا کہ ان کے خلاف بہت کچھ ایکٹو ہوچکا ہے۔ انہیں کسی کی حمایت حاصل تھی تو وہ وزیراعظم عمران خان ہی تھے ۔ باقی سب ان کے خلاف ہوچکے تھے۔ کئی دفعہ کابینہ میں ان کی سمریوں کو وہ منظوری نہ مل سکی جو وہ چاہتے تھے۔کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہ جن لوگوں کو نامزد کرانا چاہتے تھے ان کی بجائے دوسرے وزیروں نے اپنے بندے رکھوا لیے ۔اس لیے یہ خبریں بھی باہر نکلیں کہ اسد عمر اور چند وزرا کے درمیان اجلاس میں سردی گرمی بھی ہوئی۔ اس دن بھی جب اسد عمر صحافیوں سے ملاقات کررہے تھے تو ہمیں بتایا گیا کہ اسد عمر کو اب جانا ہوگا کیونکہ چند وزیر ان کے دفتر میں آگئے ہیں۔ اتنی دیر میں فواد چوہدری وہیں آگئے اور ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسد عمر کو یہ اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ انہوںنے خاص ویلکم چوہدری صاحب کو نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ اسد عمر کا چوائس کیوں غلط تھا؟ میں ان چند صحافیوں میں سے ہوں جن کا کہنا تھا کہ اسد عمر اچھے انسان ہیں‘ مہذب ہیں‘اچھی بات کرتے ہیں لیکن یہ وزارت ان سے نہیں چلائی جائے گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسد عمر جب اپوزیشن میں تھے تو وہ بہت سی ایسی باتیں کر چکے تھے جو وزیر بن کر ان کے گلے پڑ رہی تھیں ۔ اسد عمر نے اپنی تقریروں کے ذریعے نواز لیگ کو قومی اسمبلی کے اندر ‘ فنانس کمیٹی کے اجلاسوں میں اور ٹی وی شوز پر بہت ٹف ٹائم دیا ہوا تھا ۔ بلاشبہ وہ محنت کر کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اگر کوئی دو ایم این ایز اجلاس میں پوری تیاری اور جوش کے ساتھ آتے اور حکومت کو تنگ کرتے تھے تو وہ اسد عمر اور مراد سعید تھے۔ اس لیے ان سے امیدیں بھی زیادہ تھیں۔ اسد عمر پر دو بوجھ لاد دیے گئے ۔ ایک تو ان کی اپنی تقریریں اور تنقید ان کی دشمن بن گئی کیونکہ سب کہا ہوا ان کے سامنے آرہا تھا۔ وہ جن باتوں پر نواز شریف حکومت یا اسحاق ڈار پر تنقید کرتے تھے اب انہیں وہی کام خود کرنا پڑ گئے تھے۔ وہ اسحاق ٖڈار کے اندھا دھند قرضوں‘ بجلی‘ گیس اورپٹرول کی قیمتیں بڑھانے کو قوم کی جیب پر ڈاکہ قرار دیتے تھے۔ اب انہیں وہی سب کام کرنے پڑ گئے تھے۔ اگرچہ ہر دور میں سیاستدان اپوزیشن اور حکومت میں مختلف بیانات دیتے آئے ہیں لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ ہر ایک کے پاس موبائل فون ہے جس پر وہ سب کچھ محفوظ رکھتا ہے یا ٹی وی چینلز کے پاس آرکائیوز میں سب ریکارڈ موجود ہے کہ آپ کب کیا کیا تقریریں اور دعوے کرتے تھے۔ اسد عمر کو سب سے زیادہ نقصان ان کے اپنے دعوئوں نے دیا۔ اور پھر انہیں ایک سو اسی درجے پر جا کر یوٹرن لینے پڑے۔ انہیں قرضے بھی لینے پڑے اور بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھانی پڑیں‘ لیکن اس سے بڑھ کر ڈالر کا ریٹ بھی اوپر لے جایا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس پوری حکومت میں کسی کا امتحان تھا تو وہ اسد عمر کا تھا۔ اس کے لیے ان کی تیاری تھی یا نہیں یہ علیحدہ بحث ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اسد سے پہلے دن سے ہی معاملات نہیں سنبھالے جارہے تھے ۔ اس میں ان کا شاید اتنا قصور نہ ہو کیونکہ جس حالت میں اسحاق ڈار معیشت کو چھوڑ کر لندن فرار ہوگئے تھے اس کے بعد وہی وزیرخزانہ ہی ملک کے حالات بہتر کرسکتا تھا جس کے پاس جادو کا چراغ ہوتا ۔ لیکن کیا کریں عمران خان‘ اسد عمر اور پوری تحریک انصاف نے لوگوں کو یقین دلا دیا تھا کہ یہ سب کرپشن اور بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں اسد عمر کو توقعات کا بوجھ لے بیٹھا ۔ بلکہ اب مجھے اسد عمر پر کچھ ترس آنے لگا ہے کہ تمام مشکل کام‘ فیصلے کرانے اور انہیں عوام میں نالائق ثابت کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا ہے۔ نئے وزیرخزانہ کے لیے اسد عمر کچھ ہوم ورک کر گئے ہیں۔ وہ تمام مشکل فیصلے پہلے ہی کر گئے ہیں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت پر تنقید ہورہی تھی۔ وہ پٹرول ‘ گیس‘ بجلی اور ڈالر کے ساتھ جو کھیل کھیلنا تھا کھیل گئے ۔ اب نئے وزیرخزانہ کے لیے یہ آسان ہوگا کہ وہ کچھ مزید غیر مقبول فیصلے بھی کریں گے تو سب کہیں گے کہ انہیں وقت دیا جائے۔ یوں آدھا کام اگلا وزیرخزانہ کرے گا جس میں گیس اور بجلی کی مزید قیمتیں بڑھیں گی اور لوگوں کو مہنگائی کا نیا تجربہ ہوگا ‘لیکن پھر سب یہی کہیں گے کیا کریں نئے وزیر کو وقت دیں۔ ویسے عمران خان جب اپنی کابینہ بنا رہے تھے تو انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ انہیں ایسا وزیر خزانہ بنانا ہے جس کو لوگ طعنے نہ دے سکیں یا جس کے اپوزیشن دور کے ویڈیو کلپس ٹی وی شوز میں نہ چلائے جا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسد عمر کے خلاف کوئی سازش ہوئی ہے؟ اگر اسد عمر پرفارم نہیں کر پا رہے تھے تو اور کون سا وزیر کررہا تھا؟ مراد سعید کے علاوہ کوئی وزیر ایسا نظر نہیں آتا جس نے اپنی وزارت کو بہتر چلایا ہو اور عوام کا بھروسہ جیتا ہو۔ مجھے حیرانی اس پر ہے کہ آخر ان دو تین دنوں میں ایسا کیا ہوا ‘ اسد عمر‘ جسے امریکہ بھیجا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات فائنل کریں ‘کو واپس پہنچتے ہی برطرف کر دیا گیا۔ ایک بات واضح ہے کہ اسد عمر کو امریکہ جانے سے پہلے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ واپسی پر وزیرخزانہ نہیں رہیں گے۔ وہ صحافیوں سے ملاقات کے وقت بڑے پراعتماد تھے۔ شاید پچھلے دنوں جو قومی اداروں کے بڑوں اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات ہوئی اس میں بڑے فیصلے کیے گئے کہ اس طرح ملک نہیں چل پائے گا۔ یہ بات طے کی گئی کہ کچھ وزیروںاور پنجاب میں بیوروکریسی کو تبدیل کیاجائے۔ جہانگیر ترین کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ غلام سرور خان کو قائل کریں کہ وہ کسی اور وزارت میںچلے جائیں لیکن غلام سرور خان نے دھمکی دی کہ انہیں ہٹایا گیا تو وہ پارٹی میں نہیں رہیں گے۔ اس طرح کچھ اور وزیروں نے بھی یہی جواب دیا تھا‘ جس کے بعد عمران خان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں کہ کس کو ہٹائیں اور کسے نہ ہٹائیں کیونکہ قومی اسمبلی کے اندر چند ووٹوں سے ہی حکومت چل رہی ہے۔
ذرائع کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے حوالے سے بھی اہم فیصلے ہوئے ہیں۔ ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ دن پہلے تک عمران خان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف بھی باتیں سننا شروع ہوگئے تھے جس سے دوستوں نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ بھی بدل جائیں لیکن اب ذرائع کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ابھی بزدار پر ہی بھروسہ کیے بیٹھے ہیں۔ جب آئی جی اور چیف سیکرٹری ہی بزدار کو چلائیں گے تو پھر ان کے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس طرح شہباز شریف کی بیوروکریسی کو واپس لایا گیا ہے اور ان سب کو اب بزدار یا عمران خان کی بجائے کچھ اور لوگ چلائیں گے۔ دوسری طرف بزدار کی کوشش ہے کہ وہ جتنے ماہ وزیراعلیٰ رہ سکتے ہیں وہ رہیں کیونکہ انہیں بھی لگتا ہے لانگ ٹرم شاید وہ نہ چل پائیں ۔ ویسے بزدار صاحب کو بھی داد دیں کہ انہوں نے بھی ہرگز کوشش نہیں کی کہ ان آٹھ ماہ میں آگے بڑھ کر اقتدار کے گھوڑے کی لگامیں تھام کر خود سواری کریں ۔ وہ ابھی تک وہی سیاست کررہے ہیں جو تحصیل کونسل لیول پر کی جاتی ہے۔ بزدار صاحب اس پر خوش ہیں کہ انہیں ڈیرہ غازی میں اپنی مرضی کے افسران لگوانے کا اختیار رہے گا ‘چاہے لاہور میں چیف سیکرٹری یا آئی جی کسی کا بھی ہو ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب تک یہ بندوبست چلتا ہے یا پھر بزدار صاحب کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو اسد عمر کے ساتھ ہوا ہے اور اچانک ہوا ہے!