وزیراعظم عمران خان کو غالباً یہ احساس ہوگیا ہے کہ اب انہیں ہی اوپننگ کے لیے آنا پڑے گا۔ ان کے اوپنرز انہیں وہ سٹارٹ دینے میں ناکام رہے ہیں جس کی وہ توقع لگا بیٹھے تھے۔ نو ماہ تک یہ وزیر باتیں کرتے رہے اور خان صاحب قوم اور صحافیوں سے وقت مانگتے رہے۔ پہلے سو دن کا کہا گیا‘ پھر چھ ماہ کا‘ جب کچھ نہ ہوسکا تو نو ماہ بعد انہوں نے وزارتوں میں تبدیلی کر دی۔ جو وزیر ایک وزارت چلانے میں ناکام رہا اسے کہا گیا: بیٹا کوئی بات نہیں تم دوسری ٹرائی کرو۔ ماسوائے عامر کیانی کے کسی اور وزیر کو گھر نہ بھیجا گیا ۔ اسد عمر نے خود وزیر بننے سے انکار کر دیا ۔ عامر کیانی کے دور میں دوائیوں کی قیمتوں میں وہ اضافہ ہوا کہ پوری قوم چیخ اٹھی۔ ان وزیروں نے زیادہ تر وقت ٹی وی شوز پر گزارا اور اپنے مخالفین کو بتاتے رہے کہ وہ کرپٹ تھے اور انہوں نے ملک کو برباد کر دیا۔ قوم نے نو دس ماہ تک تو یہ سب کچھ سنا لیکن پھر لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تو محض باتوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ دوسرے ان وزیروں نے عمران خان کو صحافیوں اور میڈیا گروپس کے ساتھ لڑانے پر لگا دیا۔ عمران خان کو یہ احساس دلایا گیا کہ میڈیا آپ کی وجہ سے اپوزیشن کے دنوں میں ریٹنگ لے رہا تھا۔ یوں پہلے دن سے عمران خان صاحب اور ان کے دو تین وزیروں‘ مشیروں نے میڈیا کو سینگوں پر اٹھا لیا۔ میڈیا میں بحران پیدا کیا اور مالکان نے سیدھا الزام حکومت پر دھر دیا ۔ اس طرح اگر میڈیا میں کچھ حامی عمران خان کے تھے تو وہ بھی نہ رہے۔ یوں میڈیا کے ساتھ لڑائی نے بھی نئی حکومت کو نقصان دیا۔ ایک طرف وہ لوگوں کو ریلیف نہ دے سکے‘ اوپر سے میڈیا نے مزید تڑکا لگایا اور چند ماہ بعد عمران خان کو لگا کہ وہ تو اکیلے کھڑے ہیں۔ ان کے حامیوں نے کسی حد تک عمران خان کا دفاع کرنے کی بھی کوشش کی کہ نئی حکومت ہے‘ دس سال کا پچھلی حکومتوں کا گند ہے‘ تجربہ کار نہیں ہیں‘ یہ لوگ سیکھ رہے ہیں۔ کچھ دن لگیں گے۔ صبر کریں۔ اور پھر عوام کا اپنا صبر ختم ہوگیا جب گیس ‘ بجلی اور آخر میں پٹرول کی قیمتیں اوپر لے جا ئی گئیں۔
اونٹ کی کمرپر آخری تنکا دوائیوں کی قیمتوں کا ہوا ۔ تین ہزار ارب روپے کے قرضے لینے کے باوجود بات نہ بن سکی۔ وزیر اپنی مستی میں رہے اور انہیں احساس نہ ہوا کہ وہ اپنے نو ماہ ضائع کر چکے ہیں جن میں وہ لوگوں کے اعتماد پر سواری کرتے ہوئے بہت اہم کام کرسکتے تھے۔ اب بہت دیر ہوچکی تھی اور ایک ہی حل بچ گیا تھا کہ وہ چند وزیروں کے محکمے تبدیل کریں تاکہ لوگوں کو لگے کہ خان صاحب کسی کو نہیں بخشیں گے اور لوگوں کو نئی امید دلائی جائے کہ نئی ٹیم اب ڈیلیور کرے گی۔ یوں پوری فنانشل ٹیم لائی گئی جس کے سربراہ حفیظ شیخ ہیں اور پھر گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو بھی ہٹا دیا گیا ۔میری خبر ہے کہ مرکز کے بعد پنجاب اور خبیر پختونخوا میں بھی وزیر ہٹائے اور کچھ نئے لائے جانے والے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان سے فنانشل پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ وہ کام اب کچھ اور لوگ کریں گے اور عمران خان کو غالباً کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اصلی ایجنڈے پر کام کریں ۔
مجھ سے پوچھیں تو اگر کسی وزیر کی کارکردگی نے سب کو متاثر کیا ہے تو وہ مراد سعید ہیں ۔ مراد سعید نوجوان اور جذباتی وزیر ہیں اور ایسے لوگ ہی شاید سسٹم سے لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔ مراد سعید کی کارکردگی کو جرمن سفیر نے بھی ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا جب انہوںنے پاکستان سے اپنے گھر جرمنی میں پاکستان پوسٹ آفس کی سروس سے چیزیں بھیجیں اور تین یا چار دن کے اندر اندر وہ ان کے گھر ڈیلیور ہوگئیں ‘جو انہوں نے بعد میں ٹویٹر پر شیئر کیں اور حیرت کا اظہار بھی کیا ۔ مراد سعید نے اپنا نام اپوزیشن کے دنوں سے بنایا ہوا ہے جب وہ اکیلے پارلیمنٹ میں شریف حکومت کا سامنا کرتے تھے اور بہت سارے سکینڈلز اٹھاتے تھے۔ مراد سعید نے ہمت اور حوصلے سے لوگوں کی باتیں سنی ہیں اور ہمت نہیں ہاری ۔ انہوں نے جس طرح اپنی وزارت کو چلایا ہے اس کو ان کے ناقدین بھی سراہتے ہیں ۔ جو بات مراد سعید نو ماہ سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں طارق باجوہ جیسے گورنر سٹیٹ بینک کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کہ انہوں نے پاکستان کے دو سو ارب ڈالرز معاملے کو خراب کیا اور وہ اسحاق ڈار کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ آخر ان کی مانی گئی اور گورنر سٹیٹ بینک کو جانا پڑا ۔ یہ مراد سعید کی کامیابی ہے۔
اب یہ سب کچھ دیکھ کر عمران خان صاحب نے خود ریگولر پریس کانفرنس کرنا شروع کر دی ہے۔ اب وہ وزیروں کو ساتھ بٹھا کر خود بات کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے جب وزیراعظم کی طرف سے دعوت آتی ہے تو سب صحافی جاتے ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان نے وزیروں کو کہا تھا کہ وہ صحافیوں کو بلا کر بریف کریں کہ وہ کیا کیا اقدامات کررہے ہیں‘ لیکن اکثر صحافی نہیں جاتے تھے لہٰذا پھر عمران خان کو خود سامنے آنا پڑا جس کی وجہ سے تقریباً سب صحافی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی اس طرح کی پریس کانفرنسوں کا جہاں فائدہ ہورہا ہے وہیں کچھ نقصان بھی ہوتا ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ جو بات کسی وزیر کی کوئی نہیں سنتا ‘ عمران خان جب وہی بات کرتے ہیں تو سب اسے سنتے ہیں اور اسے اہمیت ملتی ہے کہ ملک کا وزیراعظم اگر یہ بات کررہا ہے تو یہ پالیسی معاملہ ہے اور بہت سنجیدہ بات ہے۔ لیکن نقصان یہ ہورہا ہے کہ ایسے موقعوں پر صحافی وزیراعظم سے ملکی صورتحال اور سیاسی ایشوز پر سوال کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ صحافیوں کو خبر چاہیے ہوتی ہے جو کہ محض وزارت کے کچھ ریفارمز پیکیج کی وجہ سے نہیں بن سکتی‘ اور عمران خان بھی سیاست پر بات کرتے ہیں یوں بات ریفارمز سے نکل کر سیاست تک جاتی ہے اور پھر وہاں سے زرداری اور نواز شریف تک جا پہنچتی ہے اور ٹی وی چینل پر وہ بریکنگ خبر بن جاتی ہے اور ریفارمز پیچھے رہ جاتی ہیں۔
سوموار کے روز بھی عمران خان نے خود بلدیاتی ریفارمز کا پیکیج میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اوروزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے علاوہ جہانگیر ترین اور راجہ بشارت بھی موجود تھے۔ عمران خان نے خود سب کو بریف کیا اور سمجھداری یہ کی کہ انہوں نے سیاسی سوالات نہیں لیے‘ جس کی وجہ سے خبروں کا محور بلدیاتی ریفارمز ہی رہیں ۔ جب پریس کانفرس ختم ہوئی تو صحافیوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو گھیر لیا ۔ وزیراعلیٰ فارغ ہوئے تو میں ایک سائیڈ پر کھڑا تھا ۔ مجھ پر نظر پڑی تو میری طرف مڑے اور کہا: کلاسرا صاحب مبارک ہو‘ مٹھائی کھلائیں۔ میں نے کہا :جی ستاں مبارکاں ‘جب کہیں مٹھائی کھلاتے ہیں ۔ سب صحافی حیران ہوئے کہ کس بات کی مبارک اور کس بات کی مٹھائی۔ مجھے بھی علم نہ تھا کہ سردار عثمان بزدار کس بات کی مجھے مبارک دے کر مٹھائی مانگ رہے ہیں۔ وہ مسکرا کر بولے: جناب میں نے میانوالی مظفرگڑھ یا ایم ایم روڈ‘ جسے خونیں روڈ کہا جاتا ہے ‘ تعمیر کرنے کی منظور دے دی ہے۔ آپ نے اس معاملے کو بڑے عرصے سے اٹھایا ہوا تھا ۔ اب یہ طویل سڑک بنے گی۔ وہ مجھے بتانے لگے: چکوال سے میانوالی‘ بھکر‘ لیہ‘ مظفرگڑھ تک اب یہ طویل سڑک بنے گی جس پر سینکڑوں لوگ حادثوں میں مارے جاچکے ہیں۔ میں نے کہا :یہ تو واقعی مٹھائی بنتی ہے۔ میں نے کہا: ایک اور درخواست ہے کہ اس اہم سڑک پر بس بجری نہ ڈال دی جائے بلکہ اس کو کارپٹ کیا جائے اور ون وے بنایا جائے تا کہ حادثوں میں کمی آئے۔ وزیراعلی بولے :جی بالکل یہ ون وے ہی بنائی جائے گی ۔
میں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا شکریہ ادا کیا ۔ مجھے اپنے جرنلزم کے استادوں کی بات یاد آئی کہ اکیلی خبر کچھ نہیں ہوتی۔ خبر کو مرنے نہ دیں۔ خبر کا فالو اَپ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ پیچھے لگے رہیں۔ اسی وزیر اعظم آفس میں نو ماہ پہلے عمران خان صاحب سے انہی صحافی دوستوں کی موجودگی میں ایم ایم اے روڈ کی تعمیر کا معاملہ اٹھایا تو سب نے میرا مذاق اڑایا‘ سوشل میڈیا پر بھد اڑائی گئی‘ لطیفے بنائے گے۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ اب نو ماہ کے مسلسل فالو اَپ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اسی ہال میں اسی سڑک کی مبارک دے کر مٹھائی مانگ رہے تھے!