کچھ عرصہ قبل ہم صحافیوں کی ملاقات پنجاب ہائوس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ہوئی تھی۔ ملاقات کرانے والے شہباز گل تھے‘ جو نئے نئے وزیر اعلیٰ کے ترجمان لگے تھے۔ شہباز گل ایک ذہین اور حاضر جواب شخص ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو میڈیا اور عوام میں قابل قبول بنانے کیلئے شہباز گل کی شکل میں ایک بہتر بندے کا انتخاب کیا تھا۔ پنجاب‘ جہاں تیس سال سے زائد شریف خاندان نے حکومت کی اور بیوروکریٹس خاندانوں سمیت ان کے گھرانے کے ملازم بن گئے تھے‘ میں بزدار جیسے بندے کو چلانا آسان کام نہ تھا۔ خصوصاً جب وہ کسی سے آنکھ ملا کر بات کرنے تک کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ اسی لیے بزدار صاحب کے انتخاب پر آج تک ماسوائے عمران خان صاحب کے پورا ملک حیران ہے۔
ان حالات میں شہباز گل نے صحافیوں سے انہیں ملانے کا کام شروع کیا جو ہر حکمران کرتا ہے تاکہ شروع کے دنوں میں میڈیا کو ساتھ ملایا جائے اور کچھ دن گزارے جائیں۔ یقینا پنجاب میں یہ کام آسان نہ تھا‘ خصوصاً جب خان صاحب کو کمزور ترین وزیر اعلیٰ کی ضرورت تھی‘ جو سانس بھی ان سے پوچھ کر لے۔ اگرچہ یہ ایک بڑا جوا تھا جو انہوں نے کھیلا اور اب بھی جبکہ ایک سال ہونے والا ہے وہ اپنی چوائس کو درست ثابت نہیں کر سکے۔ اس ملاقات کے بعد اکثریت کی رائے بزدار صاحب بارے کچھ بدل گئی تھی۔ شاید اس کی وجہ ان کا سادہ اور مؤدب اندازِ گفتگو تھا۔ وہ بڑے سخت سوالات بھی سکون سے سن کر جواب دیتے رہے تھے۔ جہاں وہ جواب نہ دے پاتے، شہباز گل کمی پوری کر دیتے۔ مسلسل دس سال تک شہباز شریف کے ہٹو بچو اور مار دھاڑ سٹائل کے بعد جہاں لوگوں کیلئے ایسا وزیر اعلیٰ ہضم کرنا مشکل تھا‘ وہیں صحافی بھی حیران تھے؛ تاہم اس ملاقات کے بعد میں نے تین چار کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی ''کیا بزدار بدل رہا ہے‘‘۔ اس کے بعد میرے دوست اکثر میرا مذاق اڑاتے‘ جب بھی پنجاب میں ایک کے بعد دوسرا بھنڈ لگتا۔ گورننس نہ ہونے کے برابر۔ پنجاب میں خود پارٹی کے اندر اور باہر وزیر اعلیٰ بننے کے کئی امیدوار تھے‘ خصوصاً جنہوں نے عمران خان پر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ ان کے لیے بڑا جھٹکا تھا کہ دور دراز کے پہاڑوں سے ایک نامعلوم بندے کی لاٹری نکل آئی تھی۔ ان سب کا خیال تھا کہ یہ چند ماہ نہیں نکال پائیں گے۔ وہ اپنے تلواریں، چاقو‘ چھریاں تیز کیے مچان پر چھپے وار کرنے کے انتظار میں تھے۔ بزدار صاحب کو بھی اپنی صلاحیتوں کا اندازہ تھا‘ لہٰذا انہوں نے ہیرو بننے کی کوشش نہیں کی‘ نہ ہی گورننس کے ایشوز میں کوئی دلچسپی دکھائی۔ فرنٹ پر ان کا چہرہ تھا لیکن سٹیج کے پیچھے کئی طاقتور لوگ ان کی ڈوریاں سنبھالے بیٹھے تھے‘ جیسے پتلی تماشہ کے کرداروں ساتھ ہوتا ہے۔ چہرہ کسی اور کا، سامنے کوئی اور، سکرپٹ کسی نے لکھا ہوتا ہے، ہدایت کار اور پروڈیوسر کوئی اور لوگ‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کٹھ پتلی کرداروں کی آوازیں بھی اپنی نہیں ہوتیں۔ یوں بزدار صاحب کو پتہ بھی نہیں تھا کہ کون آئی جی لگ رہا ہے، کون چیف سیکرٹری ہو گا اور ان کو کون چلائے گا۔ سب نے انہیں پس ماندہ اور سادہ سمجھ کر ٹریٹ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بھی کوئی جلدی نہیں دکھائی۔ وہ 'جو جہاں ہے جیسے ہے‘ کی بنیاد پر کام چلانے لگے۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری لگانا‘ ہٹانا ان کے مینڈیٹ سے اوپر کی چیزیں ہیں‘ لہٰذا ان معاملات میں زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے‘ لیکن جہاں ان کا زور چل سکتا ہے وہ ان کا اپنا سٹاف ہے‘ لہٰذا وہاں سے کام شروع ہوا اور وہی لوگ وزیر اعلیٰ ہائوس میں لائے گئے‘ جو خود مزے کریں اور نئے وزیر اعلیٰ اور ان کے رشتہ داروں کا کام بھی چلتا رہے۔ یوں جو دو تین ایماندار لوگ ان کی لاہور والی ٹیم میں شامل تھے انہیں ایک ایک کرکے ہٹایا گیا اور جن کو وہاں لایا گیا‘ ان کی ریپوٹیشن کسی سے پوچھ لیں‘ وہ پہلے مسکرائے گا‘ پھر قہقہہ لگا کر منہ پر انگلی رکھ لے گا۔ جو پولیس افسر ان کے سب معاملات لاہور آفس میں دیکھتا ہے‘ اس کے نام سے اندازہ لگانا کافی ہے کہ کیا کھیل چل رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ مجھے شہباز گل سے ہزار اختلاف ہو لیکن اگر پنجاب میں حکومت کی کچھ عزت بچی ہوئی ہے کہ وہاں چھوٹا موٹا کام چل رہا ہے تو وہ شہباز گل کی محنت سے ہی نظر آتا ہے‘ جو اب بھی ٹویٹر پر سہی‘ عوام کی کچھ داد رسی کرتے نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا بزدار بدل گیا؟ جس پر میرے دوست اکثر میرا اب تک مذاق اڑاتے ہیں۔ سب کا خیال ہے کہ بزدار صاحب پر میں نے اس لیے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے کہ وہ سرائیکی ہیں۔ میں ہنس کر ان کو جواب دیتا ہوں: سرکار یہ درست ہے کہ وہ سرائیکی علاقے سے ہیں لیکن وہ خود کو سرائیکی نہیں سمجھتے۔ میرے ساتھ سرائیکی ضرور بولتے ہیں جب بھی ملیں گے لیکن وہ خود کو اول و آخر بلوچ اور بلوچی کو مادری زبان سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں ان کو سینگوں پر اٹھا لوں تو میرے اپنے علاقے کے لوگ کہیں گے‘ یار تجھے کیا ہو گیا ہے؟ چالیس سال بعد سرائیکی علاقوں سے کوئی وزیر اعلیٰ بنا ہے اور تم اسے سانس نہیں لینے دے رہے۔ تیسرے‘ میرے سینٹرل پنجاب کے دوست کہتے ہیں: تم لوگوں کو نہ ہمارا وزیراعلیٰ اچھا لگتا ہے‘ نہ اپنا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ سب کو علم ہے‘ بزدار صاحب کے پاس ماسوائے اپنا سٹاف رکھنے کے کوئی مصروفیت نہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں جو ان کا اپنا گھر ہے وہاں بڑی تبدیلی کرانی ہو تو اس علاقے کے تین چار سردار بنی گالہ سے وہ مطالبات منظور کرا لیتے ہیں۔ بنی گالہ سے ہی فہرست بن کر جاتی ہے کہ کون کہاں رہے گا۔ اور سب سے بڑی وجہ یہ کہ مجھے بزدار صاحب سے کوئی لمبی چوڑی توقعات نہیں کہ ان کو ہر وقت نیزے کی نوک پر رکھا جائے۔ ہاں جیسے سب کا ہوتا ہے‘ انکے رشتہ داروں‘ یار دوستوں کو کانسٹیبل‘ انسپکٹرز یا چھوٹے موٹے افسران کی ٹرانسفر‘ پوسٹنگ کی عیاشی ملی ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں: اب اتنا تو بنتا ہے‘ یہ نہیں کہ بندہ وزیر اعلیٰ ہو اور اتنے چھوٹے موٹے کام بھی اس کے یار دوست رشتہ دار نہ کرا سکیں۔
یہ سب کہانیاں گھڑ کر میں دوستوں کا منہ وقتی طور پر بند کرا دیتا ہوں۔ خیر میں ایک آئیڈیلسٹ بندہ ہوں۔ اسلام آباد میں بزدار صاحب سے ارشد شریف کے گھر کھانے پر طویل ملاقات ہوئی تھی۔ میں سیاستدانوں کی اداکاریاں دیکھ دیکھ کر کب کا تائب ہو چکا ہوں کہ انہیں کبھی مشورے نہ دوں کیونکہ یہ سب اقتدار انجوائے کرنے آتے ہیں‘ عوام کی خدمت کرنے نہیں۔ماضی کے ایک دو تجربے بھی یاد تھے کہ بیوقوفی میں ایک آدھ کے اصرار پر مشورہ دے بیٹھا تھا اور انہوں نے چند دن بعد سب وہی کام کیے میں نے جن سے دور رہنے کی تجویز دی تھی۔ پھر بھی میں نے اپنے علاقوں کی پسماندگی اور غربت کو سامنے رکھ کر ارشد شریف کے گھر کھانے کی میز پر لمبی دانشوری جھاڑی تھی اور بزدار صاحب کو اللہ لمبی عمر دے صبر کے ساتھ وہ سب سنتے اور سراہتے رہے۔
آج جب ڈیرہ غازی خان میں ایک زمین کے تنازع پر ڈیرہ پولیس کے اہلکار رات گئے ایک گھر میں گھسے‘ دو شیرخوار بچیوں کی مائوں کو اٹھایا، تین مردوں کو بھی پکڑا‘ گالیاں دیں، تھپڑ مارے، نیند سے جاگی مائوں کو گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا اور روتی بچیوں کو پیچھے پھینک گئے تو میرا خیال تھا‘ بزدار ایک بلوچ ہیں اور اپنے علاقے کی ان عورتوں پر ہونے والے ظلم پر تڑپ جائیں گے۔ وہ فوراً ڈیرہ غازی خان جائیں گے اور ظالم پولیس افسران کے چنگل سے آزاد کرا کر ان مائوں کو ان کی چار دن سے روتی شیرخوار بچیوں سے ملا دیں گے اور آر پی، ڈی پی او اور دیگر افسران جو اس گھنائونے کام میں ملوث تھے‘ کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔
الٹا ڈیرہ غازی خان کے صحافیوں کو وزیر اعلیٰ کے دفتر سے فون گئے کہ شرم کرو‘ ایسے خبریں ہائی لائٹ کرکے اپنے وزیر اعلیٰ کیلئے سبکی کا سامان پیدا کر رہے ہو۔ سردار کی لاہور میں عزت خراب ہو رہی تھی کہ ان کے اپنے گھر کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے ایک ملزم کو سرنڈر کرانے کیلئے دو مائوں کو چار دن تک اغوا کیے رکھا۔
میں ایک دفعہ پھر غلط نکلا۔ میں ارشد شریف کے گھر دیے گئے طویل اور جذباتی بھاشن دینے پر خود کو کوس رہا ہوں۔ خود سے ناراض ہوں کہ ایسے ہی اپنا اور اس میز پر بیٹھے دیگر دوستوں کا وقت برباد کیا۔ حکمران بھول جاتے ہیں چار دن کی چاندنی پھر وہی اندھیری راتیں۔
سب حکمرانوں کی طرح بزدار صاحب نے نہ بدلنا تھا‘ نہ وہ بدل سکے۔