ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ بیٹھے ہوئے‘ دہلی سے سری نگر آنے سے پہلے سردار پٹیل کے ساتھ ہونے والی وہ خفیہ گفتگو یاد آئی جس کی وجہ سے وہ اب کشمیر آئے تھے۔ مائونٹ بیٹن کو احساس تھاکہ وہ بہت اہم مشن پر سری نگر آئے ہوئے ہیں اور وہ اس مشن کی ناکامی افورڈ نہیں کر سکتے۔
ہری سنگھ معمولی راجہ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسی ریاست کا راجہ تھا جو اسے باپ دادا سے ملی تھی‘ جہاں پاکستان، ہندوستان، چین اور تبت کی سرحدوں نے ملنا تھا۔ راجہ ہری سنگھ اور مائونٹ بیٹن کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی۔ مائونٹ بیٹن کو یاد آیا‘ وہ برسوں پہلے اسی کشمیر میں پرنس ویلز کے ساتھ آیا تھا اور انہوں نے یہاں سرسبز میدانوں میں پولو اکٹھے کھیلی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے راجہ اور وائسرائے کو اپنی جوانی کے وہ دن یاد آئے‘ جب دونوں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر سوار تھے۔ وہ اپنے گھوڑوں کی سموں کی آوازیں آج بھی محسوس کر سکتے تھے۔
مائونٹ بیٹن کی جانب سے آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں موجود 565 ریاستوں کے راجوں‘ مہاراجوں میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن انہیں اپنی ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘ انہوں نے جو ٹائٹل پہلے برٹش حکومت کو سرنڈر کیے تھے‘ اب دوبارہ بھارتی یا پاکستانی حکومت کو سرنڈر کرنا ہوں گے۔ ان کے لیے یہ خیال ہی قیامت سے کم نہ تھا کہ وہ اب اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کے سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوں گے بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ غالباً پاکستان یا ہندوستان میں ان پر مقدمے چل سکتے تھے اور انہیں عام لوگوں کی طرح ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ان کی تمام مراعات اور عیاشیاں ختم ہونے جارہی تھیں۔ بہت سارے راجے بٖغاوت پر اترے ہوئے تھے اور وہ اتنی آسانی سے انگریز سرکار کی تقسیم سے خوش ہونے والے نہیں تھے۔ وہ سب چاہتے تھے وہ اسی طرح آزاد رہیں جیسے انگریز حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھانے سے پہلے وہ تھے۔ ان راجوں کا ایک وفد مائونٹ بیٹن سے بھی ملا تھا جس میں انہوں نے جہاں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا وہیں انہوں نے فرنگی سرکار کو اپنی ان خدمات کا بھی حوالہ دیا تھا جو وہ ان برسوں میں انجام دیتے آئے تھے۔ وہ راجے اب چاہتے تھے کہ جب انگریز ہندوستان سے واپس جا رہا ہے تو کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ انہیں پاکستان یا ہندوستان کے درمیان بانٹ کر چلا جائے اور وہ تخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ راجے چاہتے تھے کہ واپس جاتے ہوئے گورے ان کا وہی سٹیٹس بحال کرکے جائیں جو ان کے آنے سے پہلے تھا۔ بہت سارے راجوں‘ مہاراجوں کو مائونٹ بیٹن ذاتی طور پر جانتا تھا۔ کچھ تو اس کے بہت قریبی دوست تھے۔ جب وہ پرنس آف ویلز کے ساتھ برسوں پہلے ہندوستان آیا تھا تو وہ بہت ساری ریاستوں میں ان راجوں‘ مہاراجوں اور شہزادوں کا مہمان بنا رہا تھا۔ اس نے ان کی ریاستوں میں بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ ان راجوں کے ہاں اس نے ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھ کر شکار کھیلے تھے، زبردست قسم کی دعوتیں اڑائی تھیں۔ اور تو اور ایک راجے کے ہاں تو اس نے ایک انگریز گوری کے ساتھ بال روم میں ڈانس بھی کیا تھا جس کے بعد اس نے شادی کر لی تھی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے، پٹیالہ کے مہاراجہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تھے‘ جہاں انہوں نے وائسرائے پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ اگر ہندوستانی سیاستدان ہندوستان کو تقسیم کر سکتے ہیں تو وہ راجے مہاراجے ہندوستان کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان راجوں کے ذہن میں تھا کہ اگر ان کی نہ مانی گئی تو پھر وہ اپنی اپنی ریاستوں کی آزادی کے لیے اپنے ہاں نسل، مذہب، قوم، زبان، رنگ کی جنگ کو ابھار کر پورے ہندوستان میں آگ لگا سکتے ہیں۔ ان شہزادوں کے پاس اپنی پرائیویٹ آرمی تھی‘ جیٹ جہاز تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ ہندوستان میں ریلوے لنکس، کمیونیکیشن سسٹم کو ناکارہ کرکے انتشار پھیلا سکتے تھے۔ ٹیلی فون، ٹیلی گرام سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اور تو اور یہ کمرشل فلائٹس کو بھی ڈسٹرب کر سکتے تھے۔
اب وائسرائے کیلئے ان کی دھمکیوں کے آگے جھک جانے کا مطلب تھا کہ پورے برصغیر کو ہی ایک ایسے آتش فشاں پر چھوڑ دیا جائے‘ جو پھٹ کر پورے ہندوستان‘ پاکستان کو تباہ کر سکتا تھا۔ سینکڑوں ریاستیں کیسے ایک ساتھ رہ سکتی تھیں‘ خصوصاً جب ان کے ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہوں اور جن کا رنگ، نسل، مذہب، زبان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ یہ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور چین یقینا اس سے خوش ہوگا‘ اس لیے چین بھی گوروں کے ذہن میں تھا۔
اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے وائسرائے ہند نے جو پلان بنا کر لندن بھیجا تھا‘ وہ کچھ ترامیم کے ساتھ واپس بھیجا جا چکا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ وہ یہ پلان نہرو کو دکھا دیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن عمر بھر اپنے اندرونی وجدان پر بھروسہ کرتا آیا تھا‘ اور اس کے خدشات ہمیشہ درست نکلتے تھے۔ نہرو کو وہ پلان دکھانے سے پہلے مائونٹ بیٹن نے اپنے سٹاف کے ساتھ یہ بات شیئر کی تو وہ دہشت زدہ ہو گیا۔ سٹاف نے وائسرائے کو بتایا کہ یہ بہت خطرناک آئیڈیا ہے۔ اگر اس کی بھنک مسلمانوں کے راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو پڑ گئی تو سارا پلان خطرے میں پڑ جائے گا۔ مسلمان یہ سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے‘ وائسرائے نے نہرو اور کانگریس کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا پلان بنا کر اس کی منظوری لندن سے لے لی ہے۔
وائسرائے ہند بڑے غور سے اپنے سٹاف کے خدشات سنتا رہا‘ جو اسے روک رہے تھے کہ اسے ہندوستان کی تقسیم کا پلان نہرو کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اپنی انگلیاں اپنے سامنے پڑی میز پر دھیرے دھیرے بجا کر گہری سوچ میں غرق رہا۔
جب اس کے سٹاف نے وہ سب باتیں کر لیں تو وائسرائے بولا: آپ سب لوگ درست ہیں۔ عقل کا یہی تقاضا ہے کہ یہ پلان نہرو کو نہیں دکھانا چاہیے۔ اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کی باتوں میں بہت وزن ہے۔ پھر وائسرائے نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے کہا: وہ عمر بھر اپنی اندرونی آوازوں کو سنتا آیا ہے اور اب کوئی اندرونی آواز کہہ رہی ہے کہ اسے پلان نہرو کو دکھا کر اس کی رائے لینی چاہیے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کا بار بار اپنے گمان کی طرف اشارہ دراصل فروری 1941ء کے حوالے سے تھا‘ جب وہ جنگ عظیم دوم کے دوران برٹش نیوی کو کمانڈ کر رہا تھا۔ وہ اپنے بحری جہازوں کو Bicay کے ذریعے جبرالٹرز کی طرف جا رہا تھا‘ جب انہیں اطلاع ملی کہ دو جرمن بحری جہاز بھی Saint Nazire کی طرف جا رہے ہیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ ان جرمن جہازوں کو پکڑیں۔ اس پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے عملے کو Brest کی طرف رخ موڑنے کا کہا۔ عملے نے احتجاج کیا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جرمن بحری جہازوں کو Saint Nazire کے ذریعے جا کر پکڑیں نہ کہ Brest کی جانب سے۔ اس پر مائونٹ بیٹن نے کہا: میرا وجدان کہتا ہے کہ ہمیں Brest جانا چاہیے۔ میں اگر ان جرمن بحری جہازوں کا کپتان ہوتا تو میں سورج ڈوبنے کے بعد Saint Nazire کا روٹ نہ لیتا بلکہ Brest کے روٹ کو ترجیح دیتا۔ وہی ہوا۔ مائونٹ بیٹن اپنے جہازوں کو اسی طرف لے گیا اور جرمن جہاز وہیں سے گزر رہے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اب ایک دفعہ پھر لارڈ مائونٹ بیٹن کا وجدان کہہ رہا تھا کہ اسے لندن پلان سامنے لانے سے پہلے نہرو کو خفیہ طور پر یہ پلان پڑھوانا چاہیے۔ اسی رات مائونٹ بیٹن نے نہرو کو اپنی سٹڈی میں بلایا اور لندن پلان کا ایک مسودہ اس کے حوالے کرکے کہا: اسے پڑھیں اور بتائیں‘ اگر اسے اوپن کیا جائے تو کانگریس کا کیا ردعمل ہوگا؟ نہرو نے خود کو بہت اہم تصور کیا کہ وائسرائے ہند اسے وہ مسودہ دکھا رہا تھا جو ابھی تک کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ نہرو خوشی خوشی مسودہ گھر لے گیا اور رات کو ہی اسے پڑھنا شروع کر دیا۔
جوں جوں نہرو تقسیم کا مسودہ پڑھتا گیا اور کا رنگ فق ہوتا چلا گیا ۔ جب نہرو آخری صفحے پر پہنچا تو وہ تقریباً چیخ پڑا کہ یہ لارڈ مائونٹ بیٹن ہندوستان کی تقسیم کا کیاخوفناک منصوبہ بنا کر بیٹھا ہے۔ (جاری)