سیراب خان پل پر کھڑا دوسری طرف سے اشارہ ملنے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج میں مسلمان افسران اور فوجیوں نے بغاوت کرنی ہے اور وہ وہاں واقع چوکی پر قبضہ کرکے انہیں سنگل دیں گے تو وہ پھر پل عبور کرکے کشمیر کے اندر آجائیں گے۔
رات کی تاریکی میں آخر وہ سگنل مل ہی گیا جس کا انتظار سیراب خان اور اس کے جنگجوئوں کو تھا۔ محاذ گرم ہونے کو تیار تھا۔ سیراب خان نے اپنی سٹیشن ویگن سٹارٹ کی اور اسے پل پر چڑھا دیا۔
کشمیر کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد سیراب خان کے جنگجو ایک چھوٹے سے شہر مظفر آباد میں بغیر کسی لڑائی کے داخل ہو چکے تھے۔ وہاں کسٹمز شیڈ میں کچھ سوئے جاگے اہلکاروں نے اس قافلے کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان کی تلاشی لی جا سکے۔ جونہی ان اہلکاروں کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی اور ٹرک ہیں تو ان میں سے ایک فون کی طرف بھاگا لیکن پٹھانوں نے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑ لیا اور تاروں سے باندھ دیا۔ سیراب خان یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اس کی ایڈوانس ٹیم نے اہم مقصد حاصل کر لیا تھا۔ اب ان پٹھانوں کے سامنے ایک سو پینتیس میل کا سری نگر تک کا سارا راستہ اوپن تھا۔ اس طویل راستے میں اب انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا تھا۔ جونہی صبح کا اجالا پھیلے گا تو اس وقت تک ہزاروں پٹھان ہری سنگھ کے دارالحکومت سری نگر پہنچ کر قبضہ کر چکے ہوں گے۔ سیراب خان مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ محل پر قبضہ کرنے کے بعد خود ناشتے کی ٹرے لے کر مہاراجہ کی خواب گاہ میں جائے گا اور ناشتے کے ساتھ یہ خبر بھی بریک کرے گا کہ چند لمحے بعد پوری دنیا کو پتا چلنے والا ہے کہ اب کشمیر پاکستان کا ہے۔
انہیں سہانی سوچوں میں گم سیراب خان کا یہ سارا خواب اس وقت ٹوٹ گیا جب اس نے دیکھا کہ اس کے اکثر پٹھان ساتھی رات کی تاریکی میں مظفر آباد کے بازاروں کی طرف نکل گئے تھے‘ جہاں انہیں بتایا گیا تھا کہ ہندوئوں کی دکانیں تھیں۔ وہ اس وقت سری نگر جانے کو تیار نہیں تھے۔ ان سب کا خیال تھا کہ کشمیر فتح ہو چکا ہے‘ اب ان کا راستہ کس نے روکنا ہے۔ وہ آرام سے بازار میں کچھ مال غنیمت اکٹھا کرنے کے بعد کل دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ان جنگجوئوں نے دکانوں کے تالے توڑ کر جو قیمتی چیز ملی نکال لی۔ سیراب خان اکیلا تھا جو اس کھیل میں شریک نہ ہوا۔ اس کی آنکھیں سری نگر پر تھیں جبکہ اس کے ساتھی مظفر آباد میں دکانوں کے تالے توڑ رہے تھے۔ سیراب خان اور اس کے چند ساتھیوں نے یہ صورت حال دیکھ کر سب کو روکنے کی کوششیں کیں۔ ان کی منتیں کیں، ترلے ڈالے بلکہ انہیں ان کے کپڑوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی کوشش بھی کرتے رہے کہ وہ یہ کام چھوڑیں اور سری نگر کا رخ کریں۔ وقت بہت کم تھا‘ بند کرو یہ کام‘ ہم نے سری نگر جانا ہے۔ سیراب خان چلاتا رہا‘ انہیں ایسا کرنے سے روکتا رہا‘ لیکن اس کی بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ لوٹ مار شروع ہو چکی تھی اور سیراب خان اکیلا کھڑا ہاتھ مل رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے سری نگر نکلا جا رہا ہے۔
اس رات سری نگر ان پٹھانوں کے ہاتھ نہیں لگنے والا تھا۔ اب انہیں ایک پاور سٹیشن تک پہنچنے کیلئے اگلے ستر میل کو اڑتالیس گھنٹوں میں کور کرنا تھا۔ وہ پاور سٹیشن جو پہلے ہی اڑایا جا چکا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کا محل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
مظفرآباد کے بازاروں سے فارغ ہونے کے بعد ان پٹھانوں نے سری نگر کا رخ کیا اور راستے میں آنے والے سب گائوں وہ فتح کرتے گئے بلکہ ان کے ساتھ وہ فوجی بھی شامل ہوگئے تھے جو مہاراجہ کی فوج کو چھوڑ چکے تھے؛ تاہم پچیس اکتوبر کو مہاراجہ کی آرمی نے ان جنگجوئوں کو بارہ مولہ میں روک لیا۔ وہاں بھی ایک خونریز جنگ ہوئی جس کے بعد بارہ مولہ کے لوگوں کا قتل عام ہوا۔ پھر قبائلی پٹھان کشمیری‘ مسلمان اور غیر مسلم کشمیریوں کے درمیان فرق نہ کر سکے۔ میجر خورشید انور نے جب ان سب کو مال غنیمت اکٹھا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو اسی لمحے وہ اپنا اثر ان جنگجوئوں پر کھو بیٹھا۔ دو دن تک پٹھانوں کا جرگہ اس بات پر بحث کرتا رہا کہ وہ اپنے کمانڈر خورشید انور کو قتل کر دیں یا پھر اسے بدل دیں؟ یوں دو قیمتی دن اس پر ضائع کر گئے اور مہاراجہ کو وقت مل گیا کہ وہ اب کوئی نیا کرتب دکھائے تاکہ وہ پٹھانوں کے ہاتھوں موت اور سری نگر پر ان کے قبضے سے بچ جائے۔
پٹھانوں کے لشکر کے بارہ مولہ میں دو دن وقت ضائع کرنے، وہاں بازاروں اور گھروں سے مال غنیمت اکٹھا کرنے اور غیر مسلمانوں کو مارنے میں جو وقت ضائع کیا گیا تھا اس کے بعد اب اصل کھیل شروع ہو رہا تھا۔
ادھر سری نگر میں مہاراجہ کو ایک اور مشکل در پیش تھی۔ اسے یہ بتایا جا رہا تھا کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرتا ہے تو پھر لداخ، جموں اور کشمیر کے دیگر حصوں کے نان مسلم اس فیصلے کو پسند نہیں کریں گے جبکہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا ہے تو گلگت بلتستان اور کشمیر میں اکثریتی مسلمان اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے؛ تاہم ایک بات پاکستان کے حق میں جاتی تھی کہ کشمیر کے تمام راستے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مہاراجہ کے پاس ایک اور بھی آپشن تھا کہ وہ کشمیر کے مختلف قوموں اور مذاہب کے نمائندوں کو بلا کر ان سے یہ سب آپشن شیئر کرکے مشورہ مانگ سکتا تھا۔ لیکن مہاراجہ اس وقت کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ وہ جتنے بڑے خواب لے کر اپنے محل میں سو رہا تھا‘ اتنی وہ ان خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کر رہا تھا۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پاکستان یا بھارت اسے ہرگز ایک آزاد ملک نہیں رہنے دیں گے۔ ہندوستان کو پاور ٹرانسفر ہونے سے کچھ دن پہلے ہی مہاراجہ نے اپنے وزیراعظم کو برطرف کر دیا تھا‘ جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ مہاراجہ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا مشورہ دے رہا تھا۔ اس کی جگہ نیا وزیراعظم میجر جنرل جنک سنگھ کو لگا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر حکومت نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ stand still agreements پر مذاکرات کرنے کا اعلان کر دیا؛ تاہم بھارت جواب دینے سے پہلے اس معاہدے کے فوائد اور نقصانات پر غور کرنا چاہ رہا تھا۔ بھارت نے وقتی طور پر ریاست کو اکیلے چھوڑ دیا تھا۔ بھارت نے ابھی تک مہاراجہ کو نہیں کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے۔ اگرچہ ریڈکلف ایوارڈ کے اعلان کے بعد اب کشمیر بھی بھارت کے ساتھ سڑک کے زریعے لنک ہو چکا تھا۔ بھارت سمجھ رہا تھا کہ وہاں مسلم آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے مہاراجہ اور ریاست کے لیے ابھی بہت مشکلات تھیں کہ وہ ہندوستان ساتھ الحاق کا سوچیں؛ تاہم ہندوستان سے مہاراجہ کی حکومت نے اس وقت پہلا بڑا رابطہ کیا جب راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر عبدالحق نے کشمیر کو پٹرول، چاول، چینی اور دیگر اشیا کی سپلائی روک دی اور بحران پیدا ہونا شروع ہوا۔ مہاراجہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ اسے مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ یوں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے پہلی دفعہ ہندوستان سے پانچ ہزار گیلن پٹرول کی درخواست کی تاکہ ان کا ٹرانسپورٹ سسٹم بالکل ہی نہ بیٹھ جائے۔ دوسری طرف مہاراجہ کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اگست کے پہلے ہفتے میں اپنے وزیراعظم کو ہٹا کر جنرل جنک سنگھ کو وزیراعظم بنایا تھا تو اکتوبر میں اس نے جنک سنگھ کو بھی برطرف کر دیا اور اس کی جگہ مہر چند مہاجن کو وزیراعظم لگا دیا۔ مہر مہاجن دراصل ایک مشہور وکیل تھے اور متحدہ پنجاب کے جج بھی رہے تھے۔ بعد میں وہ مشرقی پنجاب کے پنجاب ہائی کورٹ کے بھی جج لگا دیے گئے تھے۔ وہ بعد ازاں چیف جسٹس کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
مہر مہاجن نے وزیراعظم بنتے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک مشورہ دیا جسے سن کر ہری سنگھ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اسے نئے چوائس پر فخر محسوس ہوا۔ وہ جس کام کے لیے مہر مہاجن کو لایا تھا وہ مہاجن نے شروع کر دیا۔ مہر مہاجن نے کاغذ قلم لیا اور غیرمعمولی خط لکھنے بیٹھ گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو ہرگز یہ اندازہ نہ تھا جو خط اس کا نیا وزیر اعظم لکھ رہا تھا‘ اس سے کشمیر میں تباہی آنے والی تھی۔ (جاری)