"RKC" (space) message & send to 7575

کشمیر کہانی …(19)

سب آنکھیں نہرو پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ سردار پٹیل کو کیا جواب دیتا ہے۔ نہرو کہیں اور کھویا ہوا تھا۔ نہرو کو اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی وہ باتیں یاد آئیں کہ جب دہلی سے میرٹھ تک بغاوت پھیل گئی تھی تو ہر طرف خون خرابہ ہو رہا تھا۔ پہلے انگریزوں کو مارا گیا تو بعد میں انگریزوں نے چن چن کر مسلمانوں اور ہندوئوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ دہلی سے جو لوگ جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے‘ ان میں دہلی کے کوتوال گنگادھر کا خاندان بھی شامل تھا۔ کوتوال اور اس کی بیوی جیورانی (بعض کتابوں میں اندرانی) دریائے جمنا کے کنارے اپنے چار بچوں کے ساتھ جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ یہ فیملی کشمیر سے تعلق رکھتی تھی۔ کشمیری خود بھی خوبصورت اور ان کی آنکھیں بھی خوبصورت ہوتی ہیں‘ اس لیے جب فرنگیوں نے اس فیملی کو بھاگتے ہوئے پکڑا تو ان کی آنکھوں کی وجہ سے فرنگی یہ سمجھے کہ اس کانسٹیبل کی ایک بیٹی اصل میں کسی انگریز کی بیٹی ہے‘ جسے وہ اغوا کر کے لے جارہے ہیں‘ تاہم اس کوتوال گنگا دھر کے ایک بیٹے کو انگریزی آتی تھی‘ اس نے فرنگیوں کو بتایا کہ وہ کشمیری ہیں اور باقی کچھ راہگیروں نے بھی ان کی مدد کی‘ اس طرح اس گنگا دھر اور اس کے خاندان کی جان چھوٹی۔ 
چار سال بعد اس کشمیری کوتوال کی بیوی جیورانی نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ‘جس کا نام موتی لال رکھا گیا۔ بعد میں اسی موتی لال کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جواہر لعل رکھا گیا۔ وہی جواہر لعل اب بھارت کا پہلا وزیر اعظم بنا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ سردار پٹیل کو کیا جواب دے کہ اسے اپنے پرکھوں کا کشمیر چاہیے یا نہیں۔ نہرو کو یاد آیا کہ جب وہ بچہ تھا تو اس نے اپنے باپ موتی لال کا قلم چرا لیا تھا تو باپ نے اسے اتنا مارا تھا کہ کئی دن تک وہ چل نہیں سکا تھا۔ اس کا باپ اکثر اس پر تشدد کرتا تھا‘ جس کا اثر نہرو پر ساری عمر رہا۔ کشمیر کی ان یادوں میں گم نہرو سے سردار پٹیل نے اس کے دل کی بات پوچھ لی۔ سردار پٹیل نے پوچھا: نہرو تم کشمیر چاہتے ہو یا پاکستان کو دینا ہے۔ نہرو نے فوراً جواب دیا‘ بالکل مجھے کشمیر چاہیے۔ اس سے پہلے کہ نہرو کچھ اور کہتا‘ سردار پٹیل نے ڈی جی ملٹری آپریشن مانک شاہ کو کہا: سن لیا آپ نے۔ اجلاس سے اُٹھ کر پٹیل خود آل انڈیا ریڈیو گیا اور کہا کہ سب مسافر اور دوسرے جہاز فوری طور پر ہندوستانی فوج کو سری نگر اتارنے کے لیے میسر ہوں۔ اگلے روز سردار پٹیل نے تمام جہازوں میں ہندوستان فوج کے دستے خود اپنی نگرانی میں بھجوائے۔ 
بڑے دنوں بعد ماؤنٹ بیٹن کو احساس ہوا کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ سردار پٹیل یہ سب انتظام پہلے سے کر کے بیٹھا تھا۔ اسی شام ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات آئن سٹیفن سے ہوئی تو وہ یہ جان کر حیران ہو گیا کہ ماؤنٹ بیٹن کا پورا جھکائو بھارت کی طرف ہو چکا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اسے بتایا: جناح تو ایبٹ آباد بیٹھے سری نگر فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ فاتح کی طرح شہر میں داخل ہو سکیں‘ تاہم پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن نے کنفرم کیا کہ یہ غلط تھا‘ کیونکہ جناح نے اکتوبر کا مہینہ کراچی اور لاہور میں گزارا تھا۔ وہ ایبٹ آباد نہیں گئے تھے۔
یوں ستائیس اکتوبر کی صبح ہندوستان نے اپنی فوجیں جہازوں کے ذریعے سری نگر اتارنا شروع کر دیں۔ سری نگر ایئرپورٹ خالی پڑا تھا اور قبائلی لشکر قبضہ کرنے کی بجائے بارہ مولا اور دیگر علاقوں میں اپنی کارروائیوں میں مصروف ہو گیا تھا‘ بجائے اس کے وہ ایئرپورٹ پر قبضہ کرتے تاکہ ہندوستان اپنی فوجیں نہ اتار پائے۔ نہرو نے بعد میں اپنی بہن کو لکھا کہ اگر ہم ایک دن بھی دیر کر دیتے تو سری نگر لشکر کے ہاتھ میں ہوتا۔ جب جناح صاحب کو یہ اطلاع دی گئی کہ ہندوستانی فوجیں سری نگر اتر گئی ہیں تو انہوں نے پاکستانی فوج کو حکم دیا کہ وہ جنگ شروع کرے؛ تاہم قائد اعظم کو اپنے احکامات اس وقت واپس لینا پڑے جب انگریز کمانڈر Auchinleck نے دھمکی دی کہ اگر پاکستانی فوج کشمیر لڑنے گئی تو وہ تمام برٹش افسروں کو ہٹا لیں گے۔ اسی دن لیڈی لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور آئیں تاکہ وہ مغربی پاکستان کے ریفیوجی کیمپوں کا دورہ کر سکیں۔ اگلی شام وہ پنڈی میں تھیں اور انہوں نے پاکستان آرمی کے ایکٹنگ کمانڈر ان چیف جنرل گریسی سے ملاقات کی۔ جنرل گریسی نے انہیں خبردار کیا کہ کسی لمحے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ جنرل گریسی نے ڈنر پر لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو یہ تک کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے اسے گرفتار کرنا پڑے۔ اگلے دن لیڈی ماؤنٹ بیٹن سیالکوٹ گئی تاکہ ہندو کشمیری مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کر سکیں جو ہندوستان جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان مہاجرین نے بھی اپنی طرف سے مسلمانوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کی کہانیاں بھی لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو سنائیں۔ ایک کشمیری سکھ نے یہاں تک لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ اس نے خود پاکستانی فوجی دستوں کو عام کپڑے پہنچے کشمیر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ 
یوں دہلی واپسی پر یہ سنی سنائی اطلاعات جب لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو سنائیں تو نہرو کو اپنے بد ترین خدشات پورے ہوتے نظر آنے لگے‘ جبکہ پہلی دفعہ ماؤنٹ بیٹن اس اثر و رسوخ اور تعلق سے خوف زدہ ہوا جو نہرو اور اس کی بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ تھا۔ ان کی دوستی اور تعلقات کی کہانیاں دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہو چکی تھیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی بیوی کو خبردار کیا کہ نہرو کشمیر کے بارے میں بہت جذباتی ہے‘ تاہم یہ بات دہلی میں پھیل رہی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ اس لیے بگڑ رہا ہے کیونکہ جناح اور نہرو ایک دوسرے کو ذاتی طور پر شدید نا پسند کرتے تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر ہر وقت شک ہی رہتا تھا۔ نہرو اس بات پر قائل تھا کہ جناح صاحب نے ہی قبائلی لشکر تیار کرا کے کشمیر بھیجا تھا جبکہ برٹش افسران‘ جو پوری صورت حال کو مانیٹر کر رہے تھے‘ کا کہنا تھا کہ جناح صاحب پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا‘ ہاں یہ ضرور تھا کہ پاکستانی حکومت نے کشمیر جانے والے راستے اور سپلائی کھول کر قبائلی لشکر کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں ڈالی تھی۔ 
بعد میں مورخین نے لکھا کہ حقیقت یہ تھی کہ اگر جناح صاحب روکنے کی کوشش کرتے تو بھی وہ لشکر کو نہیں روک سکتے تھے۔ اگر وہ پاکستان آرمی کو حکم دیتے کہ وہ قبائلی لشکر کو کشمیر جانے سے روکے تو پاکستان کے اندر ہی سول وار شروع ہو جانی تھی۔ پٹھان قبائل اور پاکستان آرمی ایک دوسرے سے لڑ پڑتے اور فائدہ افغانستان کو ہونا تھا جو موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح پاکستانی قبائل کو ساتھ ملایا جائے‘ جبکہ یہ بھی ممکن تھا کہ روس بھی اس کھیل میں شریک ہو جاتا۔
تاہم دہلی میں ایک حلقہ یہ کہہ رہا تھا کہ بہتر ہوتا جناح خود ہی نہرو کو یہ اطلاع دیتے کہ قبائلی لشکر نکل پڑے ہیں اور وہ انہیں نہیں روک سکتے۔ چونکہ جناح صاحب نے یہ نہیں کیا تھا‘ لہٰذا نہرو یہ سمجھ بیٹھا کہ یقینا یہ جناح صاحب کی سازش تھی ورنہ وہ اسے خود اطلاع دیتے۔ دوسری طرف نہرو بھی اس معاملے میں ناکام رہا۔ اس نے بھی جناح صاحب کو یہ اطلاع نہیں دی تھی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد مانگی ہے اور وہ اپنی فوج سری نگر بھیج رہا ہے۔ یوں جناح اس بات پر قائل ہو گئے کہ نہرو بندوق کے زور پر کشمیر پر قبضہ کر رہا ہے۔ نہرو کی دلی خواہش کا سب کو پتا اس وقت چلا جب اس نے اٹھائیس اکتوبر کو اپنی بہن کو خط لکھا کہ شاید مجھے اس سے فرق نہ پڑے کہ کشمیر مکمل یا جزوی طور پر آزاد ریاست بن جائے‘ لیکن اسے پاکستان کا حصہ بننے دینے کا مطلب ایک اور ظلم ہو گا۔ 
ماؤنٹ بیٹن نے اس صورت حال کو سلجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ بہتر ہو گا نہرو‘ پٹیل‘ جناح اور لیاقت علی خان کی دہلی میں ملاقات کرائی جائے اور مل بیٹھ کر کشمیر کے معاملے کو حل کر لیا جائے؛ تاہم ماؤنٹ بیٹن کو اس وقت اپنی شکست کا احساس ہوا جب جناح صاحب نے دہلی آنے سے انکار کر دیا اور سردار پٹیل لاہور جانے پر راضی نہیں تھا۔ ہندوستان کا گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن پھنس گیا تھا۔ آخرکار قائد اعظم نے نہرو سے ملاقات کے لیے ایک شرط رکھ دی جو ماؤنٹ بیٹن نے مان لی‘ لیکن ساتھ ہی کہا: نہرو اور سردار پٹیل کو ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے‘ ورنہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن کو اندازہ نہ تھا کہ تمام تر احتیاط کے باوجود کھیل پھر بھی بگڑنے والا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں