نہرو اور سردارپٹیل کو علم نہ تھا کہ جناح صاحب اور ماؤنٹ بیٹن کے درمیان کیسی سیکرٹ انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے۔دراصل جب قائداعظم کو علم ہوا کہ بھارت نے اپنی فوجیں سری نگر میں اتار دی ہیں تو انہوں نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ پاکستانی افواج کشمیر بھیجیں۔ جنرل گریسی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک انہیں دہلی سے سپریم کمانڈر حکم نہیں دیں گے وہ فوج نہیں بھیجیں گے۔ جنرل گریسی نے قائداعظم کا یہ حکم دہلی میں سپریم کمانڈر تک بھی پہنچایا ‘جو خود پاکستان پہنچا اور قائد اعظم کو وضاحت دی۔ سپریم کمانڈر کا کہناتھا کہ اگر پاکستانی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو پاکستانی فوج میں موجود تمام برٹش افسران کو فوج چھوڑنی پڑے گی۔ اس پر قائداعظم نے حکم واپس لے لیا۔قائداعظم نے کہا: پھر بہتر ہے نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور آئیں اور اس معاملے پر بات کریں۔ سپریم کمانڈر نے دہلی جا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جناح صاحب کا پیغام دیا ۔ماؤنٹ بیٹن جناح صاحب سے ملنے کو تیار ہوگیا‘ تاہم اس نے نہرو کو یہ بات نہیں بتائی کہ لاہور جانا دراصل قائداعظم کی شرط تھی ۔ ماؤنٹ بیٹن کو اندازہ تھا کہ اگر یہ بات نکل گئی تو کابینہ نہرو کو لاہور نہیں جانے دے گی۔ طے ہوا کہ یکم نومبر کو لاہور میں جناح صاحب‘ نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کشمیر پر مذاکرات ہوں گے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اندازہ نہ تھا کہ اندر کھاتے کیا کھچڑی پک رہی تھی ۔ وزیرداخلہ سردارپٹیل نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے مذاکرات کے خلاف تھا۔پٹیل نے کہا: اگر بات کرنی بھی ہے توجناح صاحب دہلی تشریف لائیں‘ تاہم نہرو لاہور آنے کے حق میں تھا ۔ نہرو اور سردارپٹیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کا معاملہ آخر کار گاندھی جی تک جا پہنچا ۔ کابینہ کے اندر بھی سردارپٹیل نے اس ملاقات کے خلاف خاصا ماحول بنا لیا تھا اور کابینہ کی اکثریت جناح نہرو ملاقات کے خلاف تھی۔ اب فیصلہ گاندھی جی نے کرنا تھا ۔
رات گئے وی پی مینن کو برلہ ہاؤس سے فون آیا کہ وہ فوراً گاندھی جی کے پاس پہنچیں ۔ مینن پہنچا تو نہرو اور سردار پٹیل موجود تھے۔ وی پی مینن کو بھی نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے ملاقات پر اعتراض تھا۔ گاندھی جی نے وی پی مینن سے پوچھا :آپ کو نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے ملاقات پر اعتراض کیوں ہے؟ وی پی مینن کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی‘ کیونکہ وہی تھا جو مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویزات لایا تھا اور اس کی یہ بات بڑی مشہور ہوگئی تھی کہ ہم نے کشمیر لے لیا ہے اب ہم اسے ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھیں گے۔ وی پی مینن نے گاندجی جی کو نہرو اور سردارپٹیل کی موجودگی میں بتایا کہ جب یہ بات مجھے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے بتائی تھی میں نے اس وقت بھی اس ملاقات کی مخالفت کی تھی۔ مینن نے گاندھی جی سے اس مخالفت کی وجوہات بیان کیں۔ جب گاندھی‘ نہرو‘ سردارپٹیل اور وی پی مینن کے درمیان یہ بحث جاری تھی توسب نے نوٹ کیا کہ نہرو کی طبیعت بگڑ رہی تھی‘اُسے شدید بخار ہورہا تھا۔ یوں اب یہ ناممکن لگ رہا تھا کہ نہرو لاہور جا سکے گا ۔ جب یہ فیصلہ ماؤنٹ بیٹن تک پہنچا تو اس نے گہری سانس لی اور بولا: کسی حد تک یہ درست فیصلہ ہے‘ کیونکہ اگر نہرو جناح صاحب سے ملنے لاہور گیا تو کابینہ کے وزرااُ سے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ تاہم ماؤنٹ بیٹن نے کہا :پھر بہتر ہے میں خود لاہور جناح صاحب سے ملاقات کروں گا۔ ماؤنٹ بیٹن نے جناح صاحب کو اگلی صبح فون کیا اور بتایا کہ نہرو کی طبیعت خراب ہے‘ وہ اب اکیلا ہی لاہور آرہا ہے ۔ نہرو کے اس دورۂ لاہورکے کینسل ہونے پر پاکستان کو محسوس ہوا کہ یہ نیا کھیل اور سازش ہے‘ لہٰذا پاکستان نے سخت بیان جاری کر دیا ۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا: نہرو کی بیماری ایک بہانہ ہے ‘ہندوستان‘ مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ ساتھ مل کر کشمیر پر سازش کررہے ہیں اور پاکستان کے دوستانہ انداز کو نظرانداز کررہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارت دراصل جان بوجھ کر لشکر کا بہانہ کررہا ہے‘ ورنہ اس نے پہلے سے ہی فوجیں سری نگر بھیجنے اور کشمیر پر جارحیت کا پلان بنا رکھا تھا۔
اگرچہ معاملات بہت بگڑ چکے تھے اور نہرو جناح ملاقات کینسل ہونے سے کشمیر کے معاملے پر کسی بھی پیش رفت کا امکان کم ہو چکا تھا‘ تاہم ماؤنٹ بیٹن جناح صاحب سے ملنے لاہور آ گیا‘ لیکن جناح صاحب کو بھی پتہ تھا کہ فیصلہ کن طاقت نہرو اور سردارپٹیل کے پاس ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کے پاس جناح صاحب کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے کی پاورز نہیں تھیں۔ یوں اس ملاقات سے کچھ نہ نکلا‘ بلکہ اس ملاقات کا یہ نقصان ہوا کہ پاکستانی گورنر جنرل اور ہندوستانی گورنر جنرل‘ جو پہلے ہی ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے‘ ان کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی ۔ دونوں اس ملاقات کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو ان کے ایک دوسر ے پر شکوک و شبہات مزید بڑھ چکے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن یہ سوچے بیٹھا تھا کہ جناح صاحب دراصل قبائلی لشکر کو ساری ہدایات دے رہے تھے کہ کشمیر فتح کرنا ہے‘ جبکہ جناح صاحب کو یہ یقین تھا کہ ہندوستانی فوجوں کو براہ راست احکامات ماؤنٹ بیٹن ہی جاری کررہا ہے۔
اس ملاقات کے تین دن بعد پاکستان ٹائمز نے رپورٹ شائع کی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن دراصل کشمیر میں بھارتی فوجوں کے آپریشن کی کمانڈ کررہا ہے‘ جبکہ پاکستان میں تعینات دو سینئر برٹش سفارت کاروں کو یہ فکر تھی کہ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں جو تاثر پاکستان میں بن رہا ہے اس سے لوگوں میں برطانیہ کے خلاف جذبات ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان‘ جس کے قیام کو ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے ‘ کے بڑے مسائل میں سب کو ماؤنٹ بیٹن کا ہاتھ نظر آنا شروع ہوگیا تھا‘ جیسے ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان میں پرسرار تاخیر‘ سکھ لیڈروں کو گرفتار نہ کرنا‘ جو تقسیم سے پہلے ہی پنجاب میں بہت بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا کررہے تھے اور رہی سہی کسر کشمیر پر ہندوستان کے قبضے سے پوری ہوگئی ۔ پاکستانی حکومت ماؤنٹ بیٹن کے اس رویے پر اتنی ڈسٹرب تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے گریفٹی سمتھ کوبا قاعدہ طنزیہ طور پر مبارک باد دی کہ برطانیہ نے پاکستان پر پہلی فتح حاصل کر لی ہے ۔ پاکستانیوں میں یہ احساس روز بروز بڑھ رہا تھا کہ برٹش حکومت کی ناک گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے ہاتھ میں ہے‘ جب وہ چاہے مروڑ دے‘ جبکہ ماؤنٹ بیٹن کی اپنی ناک نہرو کے ہاتھوں میں تھی اور نہرو کی ناک سردارپٹیل نے پکڑ رکھی تھی جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ رہی سہی کسر لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے پوری کردی تھی ‘جو ہندوستان کے وزیراعظم نہرو اور اپنے خاوند ماؤنٹ بیٹن کے درمیان ایک بڑا لنک بن گئی تھی ۔
دوسری طرف کشمیر میں لڑائی اب اُڑی تک پھیل چکی تھی۔ پانچ نومبر کو ایک سو بیس ٹرک پراسرار طور پر جموں شہر میں آئے۔ انہوں نے مقامی مسلمانوں کو بتایا کہ انہیں پاکستان کی سرحد کے قریب لے جا کر چھوڑ دیا جائے گا۔ پانچ ہزار کے قریب مسلمان مرد‘ عورتیں اور بچے ان ٹرکوں میں بیٹھ گئے ۔ ان مسلمانوں کو پتہ نہ چلا کہ کب وہ ٹرک پاکستانی سرحد کی طرف جانے کی بجائے جموں سے دور چلے گئے۔ ٹرکوں کو روک کر گارڈز باہر نکلے‘ مسلمان عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو باہر نکالا اور مشین گنوں کے ساتھ سب کو بھون ڈالا‘ چند سو بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ‘ باقی مارے گئے۔
دوسری طرف سکھ دستے‘ جو کشمیر میں لڑ رہے تھے وہ سست ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ خبریں پھیل رہی تھیں کہ انہوں نے بھی ایک آزاد سکھ ریاست کا مطالبہ شروع کردیا ہے‘ جس میں امرتسر‘ شملہ اور مشرقی پنجاب کے علاقے شامل ہوں۔ ہندوستان کی حکومت کو خبر پہنچی کہ اس پلان میں پٹیالہ کے مہاراجہ کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں لڑتے قبائلیوں میں سکھوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور وہ یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خاتمے کے بعد سکھ ریاست پٹیالہ پر چڑھائی کریں گے اور کسی دن وہاں سے دہلی جا پہنچیں گے ‘جہاں کبھی پٹھانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔ پٹھانوں کے ہندوستان پر حکومت کرنے کے پرانے خواب جاگ رہے تھے ‘ یوں ہندوستان کی دو خطرناک لڑاکا قومیں ایک دفعہ پھر آمنے سامنے اور ایک دوسرے سے پرانے بدلے لینے کو تیار تھیں ۔ سوا سو سال پہلے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے پٹھانوں اور سکھوں کے درمیان شروع ہونے والی جنگیں دوبارہ پوری قوت سے نمودار ہورہی تھیں ۔اس دفعہ کشمیر میدان جنگ بننے والا تھا ۔ ( جاری)