ایک طرف کشمیر میں پٹھان اور سکھ لڑائی کے لیے تیار ہو رہے تھے تو دوسری طرف دہلی میں وزیر اعظم نہرو کوشش کر رہا تھا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم کو یہ تاثر دیتا رہے کہ اس کا کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
نہرو نے ایک تار برطانوی وزیر اعظم ایٹلے کو بھیجی جس میں کہا: اس مرحلے پر کشمیر کی مدد کرنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ریاست پر اثر انداز ہو رہا ہوں تاکہ وہ بعد میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے۔ لیکن نہرو کی ساکھ کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب اس تار کے اگلے روز ہی مہاراجہ ہری سنگھ نے مائونٹ بیٹن کو لکھا کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ چاہتا ہے۔
چند عالمی مؤرخین میں اس بات پر بہت کنفیوژن ہے کہ ہندوستان نے فوج مہاراجہ کے الحاق سے پہلے بھیجی یا بعد میں؟ یہ بھی واضح نہیں کہ آیا الحاق کی دستاویزات کا وجود بھی تھا یا نہیں کیونکہ ہندوستان کے آرکائیو میں مہاراجہ کے دستخطوں سے اصلی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ اس پر بھی سوالات موجود ہیں کہ مہاراجہ نے الحاق کی دستاویزات پر کب دستخط کیے تھے‘ کیونکہ جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا تو وہ اپنی ریاست پر کنٹرول کھو چکا تھا۔ ان حالات میں جب وہ خود ایک ریفیوجی بن چکا تھا‘ تو کیا اس کے پاس واقعی اتھارٹی تھی کہ وہ الحاق کا اعلان یا دستخط کر سکتا؟
اس دوران پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے فوری طور پر برطانیہ تار بھیجی جس میں اس نے استدعا کی کہ برطانوی حکومت کسی صورت کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہ کرے‘ جب تک وہاں کشمیری یہ فیصلہ نہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس تار کے پہنچنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ نہرو اور مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا تھا اور کشمیر میں ہندوستانی فوجی دستے پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
اگرچہ یہ کہا جا رہا تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے‘ جس کی وجہ سے کشمیری مسلمان پاکستان کی طرف لٹے پٹے جا رہے ہیں اور جس کے ردعمل کے طور پر قبائلی لشکر انہیں بچانے کیلئے داخل ہوا تھا؛ تاہم دہلی میں کسی کو علم نہ تھا کہ مہاراجہ کی فوج نسل کشی کررہی ہے‘جس وجہ سے لشکر کشمیر میں بدلہ لینے پہنچ گیا ہے۔ دہلی میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پاکستانی حکومت قبائل کو استعمال کرکے قبضہ کرنا چاہ رہی ہے۔ لیکن نہرو کی مسلمانوں کی نسل کشی سے لاعلمی کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا تھا کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ نہرو عمر بھر برطانوی سامراج پر شدید تنقید کرتا رہا ہے کہ وہ ہندوستان میں princely states کا تحفظ کرکے راجوں، مہاراجوں، شہزادوںاور جاگیرداروں کا تحفظ کررہے ہیں۔ نہرو ان مہاراجوں کے شدید خلاف تھا۔ مہاراجہ نے تو کشمیر کی ریاست پر ڈنڈے اور طاقت سے حکمرانی کی تھی اور اس ریاست کی اکثریت اس مہاراجہ سے نفرت کرتی تھی۔ ہو سکتا ہے نہرو نے یہ جواز تراش لیا ہو کہ مہاراجہ کو چھوڑیں، اسکے دوست نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ نے بھی ہندوستان سے کشمیر میں فوجیں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن حکومت پاکستان کے نزدیک شیخ عبداللہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
اس پس منظر میں جب گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی موجودگی میں دہلی میں بحث ہورہی تھی کہ کشمیر میں فوج بھیجی جائے یا نہیں تو سردار پٹیل نہرو کی طویل تقریر سن کر چلایا تھا: جواہرلعل تم کشمیر چاہتے ہو یا ہم پاکستان کو دے دیں؟
تاہم نہرو اب بڑی تیزی سے اپنی کابینہ کے ارکان کی طرف سے دبائو اور خوف کا شکار ہورہا تھا کہ اگر کشمیر میں ہندوستان نے قبائلی لشکر کو نرم قسم کا جواب دیا تو پھر پورے ہندوستان میں اس کا اثر ہوگا اور کمیونل فسادات بھڑک پڑیں گے۔ لہٰذا بہتر ہوگاکہ وہ قبائلی لشکر کے مقابلے فوج کو سخت جواب کے لیے تیار کرے۔ لیکن مائونٹ بیٹن اس بات کے خلاف تھا کہ مسلم علاقوں میں ہندوستانی فوج بھیجی جائے‘ خصوصاً میرپور اور پونچھ میں۔ اگرچہ مائونٹ بیٹن مسلسل نہرو کو فوجی آپریشن کے حوالے سے گائیڈ کر رہا تھا‘ لیکن اب وہ نہرو کو لائن کراس کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ نہرو کو روکنے کے لیے مائونٹ بیٹن نے کہا: ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ فوج غلطیاں کرے گی‘ جس سے وہاں صورتحال بگڑ جائے گی۔ مسلم علاقوں میں دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہندوستانی فوج کے لیے مشکل ہوجائے گا اور وہ بہت سارے لوگ مار دیں گے‘ یوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو کشمکش تھی وہ مزید بڑھ جائے گی۔ مائونٹ بیٹن ہر قیمت پر ہندوستانی اور پاکستانی افواج کو ٹکرائو سے بچانا چاہتا تھا۔ مائونٹ بیٹن نے نہرو کو کہا: بہتر ہوگا وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ طے کرے۔
تاہم جب گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی سخت ضرورت تھی کہ وہ ہندوستان میں موجود ہوتا تاکہ ہندوستانی فوج کو اس اہم موڑ پر مانٹیر کر سکتا‘ اسے اچانک لندن جانا پڑ گیا۔ اسے اپنے بھتیجے کی شادی پر اپنی بیگم ایڈونا کے ساتھ جانا تھا۔ پہلے یہ پلان تھا کہ وہ اپنے ساتھ نہرو کو بھی لندن لے جائے گا‘ جو اب اس مرحلے پر مشکل لگ رہا تھا۔ سردار پٹیل گورنر جنرل کا حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ اسے کچھ دن چھٹی پر لندن جانا چاہیے؛ تاہم لیڈی مائونٹ بیٹن یہ سب پلان سن کر پریشان ہوئی کہ جب پورا ہندوستان اور پاکستان اس بری حالت میں تھے تو وہ کیسے لندن شادی پر جا سکتے تھے۔ اسے اس خیال سے بھی وحشت محسوس ہوئی کہ اسے لاکھوں پناہ گزینوں کے ریلیف کا کام چھوڑ کر لندن جانا پڑے گا۔ اس نے مائونٹ بیٹن کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مرحلے پر لندن کا دورہ کینسل کر دے؛ تاہم مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری کا یہ خیال تھا کہ اگر یہ دورہ کینسل کیا گیا تو یہ شک ہوگا کہ ہندوستان اس وقت کسی بڑے بحران سے گزر رہا تھا اور لندن کو یہ تاثر دینا مناسب نہ ہوگا۔
اگر اس وقت ہندوستان میں کوئی کام کررہا تھا تو وہ لیڈی مائونٹ بیٹن تھی جو پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھی اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کررہی تھی حتیٰ کہ اس کی بڑی بیٹی نے شکایت کی کہ جب وہ ماں بن رہی تھی تو اس کے ماں باپ کے پاس اسے ملنے یا دیکھنے کا وقت نہ تھا۔ دوسری طرف لیڈی مائونٹ بیٹن اور مائونٹ بیٹن کے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ دونوں کے درمیان لڑائیاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ میاں بیوی میں فاصلے بڑھ رہے تھے۔ آخر دس نومبر کو دونوں جہاز پر سوار لندن روانہ ہوگئے۔ لیڈی مائونٹ بیٹن لندن پہنچ کر بھی غصے سے بھری ہوئی تھیں اور یہ بات لندن کی سوشل محفلوں میں لوگوں نے واضح طور پر محسوس کی۔ جونہی مائونٹ بیٹن لندن روانہ ہوا نہرو نے فوری طور پر کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔ بارہ نومبر کو سری نگر میں خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا: ہم ہندوستانی اور کشمیری ہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔
کشمیر سے واپسی پر نہرو نے برطانوی وزیراعظم کو لکھا کہ کیسے کشمیر میں کرسچین کانونٹ سکول، لائبریریاں اور ہسپتال تباہ کر دیے گئے۔ مسلمان عورتوں پر بھی ظلم کیے گئے۔ ان کے کانوں سے بالیاں تک نوچ لی گئی تھیں۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ سب پاکستان سے آئے قبائلی لشکر نے کیا۔ نہرو نے برطانوی وزیراعظم کو مزید لکھا: ان حالات میں کشمیر کے لوگ جو زیادہ تر مسلمان ہیں‘ اب ہندوستان سے اپیل کررہے ہیں کہ انہیں تحفظ دیا جائے۔
ادھر لندن اترتے ہی لیڈی مائونٹ بیٹن اپنے پرانے محبوب سے ملنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھیں۔ دوسری طرف مائونٹ بیٹن نے سوچا کہ چرچل سے ملاقات کر لی جائے۔ چرچل مائونٹ بیٹن کو پسند کرتا تھا اور جب وہ ہندوستان کو آزادی دینے کے بل کی مخالفت کررہا تھا تو اس وقت وزیراعظم ایٹلے نے مائونٹ بیٹن سے کہا تھا کہ وہ چرچل کو راضی کرے اور مائونٹ بیٹن نے حیران کن طور پر چرچل سے یہ تقریباً ناممکن بات منوا لی تھی۔
مائونٹ بیٹن کا خیال تھا‘ چرچل اسے شاباش دے گا‘ لیکن اسے پتا نہ تھا کہ چرچل غصے سے بھرا بیٹھا ہے۔ جونہی دونوں کا آمنا سامنا ہوا‘ تو وہ چلایا: مائونٹ بیٹن تم نے یہ کیا کردیا ہے۔ تم نے برطانیہ کو دھوکا دیا ہے۔ تم فوری طور پر ہندوستان کو چھوڑ دو۔ ہندوستان میں برطانوی بادشاہ کے نام پر برطانیہ کے غداروں کی حمایت کرنا بند کرو۔ یہ تم نے کشمیر پر کیا گھنائونا کھیل کھیلا ہے؟ مائونٹ بیٹن چرچل کے اپنے خلاف سنگین الزامات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ (جاری)