ہندوستان کا گورنر جنرل مائونٹ بیٹن‘ جو خود کو ایک طرح سے چرچل کا لاڈلا سمجھتا تھا‘ کو اندازہ نہیں تھا کہ برطانیہ کا سب سے طاقتور سابق وزیر اعظم اسے اس طرح چارج شیٹ کر دے گا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے چرچل نے اسے پینے کو کچھ دیا‘ پھر سگار دیا اور ساتھ ہی ہندوستان کے گورنر جنرل پر حملے شروع کر دیے۔ چرچل نے بغیر لگی لپٹی کے کہا: مجھے ایک بات بتائو‘ تم نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ برٹش ٹروپس کو کشمیر میں بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں جا کر مسلمانوں کو کچل ڈالیں؟
چرچل بولتا رہا: مائونٹ بیٹن یہ تم نے دراصل ایک بڑا دھوکا کیا ہے۔ تمہیں علم نہیں تھا کہ نہرو اور گاندھی برطانیہ اور برطانویوں کے خلاف ہیں۔ وہ دونوں ہمارے دشمن ہیں۔ وہ ہمارے کبھی دوست نہیں رہے۔ ہندوستان میں ہمارے دوست تو مسلمان ہیں جبکہ تم نے برطانیہ کے دشمنوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہندوستان کی پاکستان کے خلاف پہلی فتح کی بنیاد رکھ دی ہے۔
گورنر جنرل کے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ چرچل نے لفظ انڈیا نہیں بلکہ ہندوستان استعمال کیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چرچل کے ذہن میں ہندوستان کے حوالے سے مستقبل کا کیا نقشہ تھا۔ چرچل اتنے غصے میں تھا کہ اس نے مائونٹ بیٹن کو کہا: تم فوری طور پر ہندوستان چھوڑ دو‘ تم برطانوی ریاست کے ان ''غداروں‘‘ کی جو مدد کر رہے ہو‘ اس کے لیے برطانیہ اور کنگ کے نام کو استعمال کرنا بند کر دو۔
مائونٹ بیٹن کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ چرچل یہ سلوک کرے گا۔ چرچل کو نظرآرہا تھا کہ وائسرائے نے جس طرح نہرو اور گاندھی کی مدد کی‘ وہ غلط ہے۔ اس سے پاکستان کمزور ہوگا اور مسلمان کمزور ہوں گے۔ چرچل کے خیال میں برطانیہ کے وائسرائے کو چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا کیونکہ گاندھی اور نہرو کے برعکس مسلمانوں کو وہ اپنا اتحادی سمجھتا تھا۔ اس کے خیال میں وائسرائے نے کشمیر کے معاملے میں جو رول ادا کیا‘ وہ بہت غلط تھا اور مائونٹ بیٹن نے پاکستان کو پہلے دن سے ہی ہندوستان کے نیچے لگا دیا تھا۔ اس کے نزدیک جو فوج مائونٹ بیٹن نے کشمیر بھیجنے کی منظوری دی تھی‘ وہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ واضح تھا کہ چرچل کیا چاہتا ہے۔ یہ کہ کشمیر پاکستان کے پاس جانا چاہیے‘ لیکن اس کے خیال میں مائونٹ بیٹن نے نہرو کے ساتھ مل کر کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ کرا دیا تھا۔
مائونٹ بیٹن‘ جو ایک شاہی شادی میں شرکت کیلئے لندن آیا تھا‘ کیلئے یہ دورہ جس نوٹ پر شروع ہوا‘ وہ خوش کن نہیں تھا۔ مائونٹ بیٹن اس شادی کے لیے جو تحفہ ہندوستان سے لایا تھا اس پر بھی بہت باتیں ہورہی تھیں۔ مائونٹ بیٹن اپنے ساتھ کپڑے کا وہ ٹکڑا لایا تھا‘ جو گاندھی نے اپنے چرخے پر خود بُنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ملکہ بہت خوش ہوگی لیکن جونہی اس نے وہ تحفہ پیش کیا اور کوئین میری نے وہ کھردرا کپڑا اپنے ہاتھ میں لیا تو چلائیں: مائونٹ بیٹن یہ تم کیا بیکار چیز اٹھا کر لے آئے ہو۔
ملکہ یہ سمجھیں کہ شاید مائونٹ بیٹن شہزادی الزبتھ کی شادی پر تحفے کے نام پر گاندھی کا لنگوٹ اٹھا لایا ہے۔
شادی کی تقریبات ختم ہوگئیں تو مائونٹ بیٹن چوبیس نومبر کو واپس ہندوستان کے لیے روانہ ہوا۔ مائونٹ بیٹن کی عدم موجودگی میں یہاں بہت کچھ ہوچکا تھا۔ لیاقت علی خان کا بیان آچکا تھا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ لے جا سکتا ہے‘ جبکہ وزیراعظم نہرو نے الزام لگایا کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام نے ہی دراصل وہ قبائلی لشکر کشمیر بھیجا تھا جس کے بعد صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ہندوستان کو اپنی فوجیں وہاں بھیجنا پڑیں۔ یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ خوست سے افغانوں کا ایک لشکر بھی کشمیر داخل ہوچکا ہے‘ جن کے پاس روسی ساخت کا اسلحہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے کانگریس کے اندر بہت سے لوگوں کو پریشان کر دیا تھا۔ کانگریس کے اس وقت کے صدر جے بی کرپلانی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری جنگ کے خطرے کے پیش نظر کانگریس کی صدارت چھوڑی دی۔ مائونٹ بیٹن جب واپس لوٹا اور اس نے یہ حالات دیکھے تو وہ کانپ کر رہ گیا۔ اس کی منظوری کے بغیر ہی ہندوستانی فوج نے کشمیر میں مسلح کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اب مائونٹ بیٹن کو ساری بات سمجھ آرہی تھی کہ کیوں وزیرداخلہ سردار پٹیل چاہتا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے لندن چلا جائے۔ لندن جانے سے پہلے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے گورنر جنرل کی حیثیت سے یہ تک اجازت دے دی تھی کہ پونچھ اور میرپور کے علاقوں میں فوج چھائونی میں سٹیشن کرے تاکہ جو وہاں پہلے موجود ہیں‘ ان کی جگہ لے سکیں۔ جونہی مائونٹ بیٹن کو پتہ چلا کہ اس کی غیر موجودگی میں کچھ اور کھیل کھیلا گیا ہے تو اس نے فوری طور پر وزیراعظم نہرو کو لکھا کہ میری عدم موجودگی میں جس مقصد کے لیے پونچھ اور میرپور فوج بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی وہ مقصد اب اچانک بدل گیا ہے۔ فوج نے وہاں پُرتشدد کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اب ہندوستان کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ اس فوج کی مدد سے وہ ان علاقوں میں جو چاہے منوا لے۔ مائونٹ بیٹن نے احتجاج کیا کہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس نے نہرو کو یاددہانی کرائی کہ یہ اخلاقی طور پر جائز نہیں کہ وہاں کے مسلمانوں کو فوج کی طاقت استعمال کرکے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے۔
اسی طرح لیڈی مائونٹ بیٹن لندن سے واپسی پر جہاز سے اتریں تو انہیں جو بریفنگ دی گئی‘ اس سے اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے خدشات درست تھے۔ وہ جہاز سے سیدھی گاندھی اور امیت کور سے ملنے چلی گئی؛ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں تھا ان سے زیادہ وہ وزیراعظم نہرو سے ملنے کی طلبگار تھی۔ تقریباً ہر روز اس کی نہرو سے بات ضرور ہوتی تھی۔ سرکاری ہائوس کی ڈائریوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں دو دسمبر کو ڈنر پر ملے تھے، تین دسمبر کو نہرو کے گھر پر ملاقات ہوئی تو چار دسمبر کو لیڈی مائونٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر نہرو اس سے ملنے گیا اوردونوں کے درمیان اس طرح کی ملاقاتیں پوری سردیاں جاری رہی تھیں۔ ایک دن نہرو کے گھرڈنر ہورہا تھاتو اگلے روز لیڈی مائونٹ بیٹن نہرو کو اپنے گھر بلا رہی تھی۔
دوسری طرف مائونٹ بیٹن اپنی محبوبہ کے ساتھ دہلی سے باہر جانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ یوں نومبر میں وہ مس یولا لیٹلیر کو ساتھ لے کر دہلی سے باہر چلا گیا۔ لیڈی مائونٹ بیٹن نہرو کی کمپنی میں بہت خوش رہتی تھی اور گھنٹوں اس سے باتیں چلتی تھیں۔ وہ نہرو میں اتنی گم ہوگئی تھی کہ لندن کے ان دوستوں کو بھی بھول گئی تھی جو اس کی دعوت پر اس سے ملنے ہندوستان آئے ہوئے تھے‘ بلکہ ایک دن لیڈی مائونٹ بیٹن کے منہ سے نکل گیا: مجھے لگتا ہے میں نے تو انہیں دیکھا تک نہیں۔ اگرچہ نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کے درمیان یہ ملاقاتیں عام گپ شپ کے لیے نہیں بلکہ مختلف سنجیدہ ایشوز اور آئیڈیاز پر گفتگو کے لیے ہوتی تھیں‘ لیکن یہ اتنی بھی خشک ملاقاتیں نہیں تھیں۔ یہ آئیڈیاز اس طرح کے تھے جنہوں نے دونوں کو جذبات سے بھر دیا تھا۔
اس دوران نہرو نے سردیوں میں لکھنو جانے کا پلان بنایا جہاں سروجنی نائیڈو، یونائیڈ صوبوں کی گورنر تھی۔ نہرو کے آنے سے پہلے یہ افواہ پھیل گئی کہ نہرو دراصل اپنی پرانی گرل فرینڈ کی بیٹی پدما نائیڈو کو شادی کے لیے پروپوز کرنے آرہا ہے۔ پدما یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھی اور خود کو تیار کرنے لگی کہ جب ہندوستان کا وزیراعظم نہرو اسے شادی کے لیے پروپوز کرے گا تو وہ کیسے اسے قبول کرے گی۔ جب نہرو ان کے گھر پہنچا تو پدما کو یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ اس کے ساتھ لیڈی مائونٹ بیٹن بھی تھی۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جب نہرو اسے پروپوز کرنے آئے گا تو ساتھ ہندوستان کے گورنر جنرل کی بیوی کو بھی لائے گا‘ جس کے رومانس کے چرچے اب پھیلنا شروع ہوگئے تھے۔ صدمے اور غصے سے بھری پدما نے بھاگ کر خود کو کمرے میں بند کر لیا اور نہرو بے بسی سے کھڑا تھا جبکہ لیڈی مائونٹ بیٹن حیرانی سے دیکھ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ اسے ان دونوں کے درمیان جاری عشق کا پتہ نہ تھا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اپنی ایک گوری تو دوسری دیسی محبوبہ کے درمیان بے بسی سے ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔ (جاری)