موجودہ حکومت کے ایک وزیر سے اتفاقاً رات گئے ملاقات ہو گئی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو بولے کہ جہاں بہت خوش ہیں وہیں پریشان بھی ہیں۔ میں نے کہا: آپ کی اس بات سے اماں سے بچپن میں سنی ہوئی ایک کہانی یاد آئی کہ ایک جن کی قید میں شہزادی نے جب ایک مدت بعد ایک انسان کو دیکھا تو پہلے مسکرائی اور پھر رو پڑی۔ وجہ پوچھی تو کہا: خوشی اس بات کی ہے کہ مدت بعد کوئی انسان نظر آیا اور روئی اس لیے ہوں کہ کچھ دیر میں جن آ کر تمہیںکھا جائے گا۔ میں نے پوچھا: اپنے خوش اور پریشان ہونے کی وجہ بھی بتا دیں۔ بولے: خوشی اس بات کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کا اثر بہت دن پاکستانیوں پر رہے گا اور ان کی توجہ ہماری گورننس اور مہنگائی پر نہیں پڑے گی۔ اقوام متحدہ جانے سے پہلے ہماری حکومت کا گراف بہت نیچے تھا جو تقریر کے بعد اوپر چلا گیا ہے‘ لہٰذا ایک لحاظ سے 'ستے خیراں‘ والا حساب ہے۔ جو کوئی تنقید کرنے لگتا ہے تو ہم اسے کشمیر اور ریاست مدینہ کا حوالہ دے کر چپ کرا دیتے ہیں۔ ہم بڑی کامیابی سے یہ دونوں کارڈز کھیل رہے ہیں۔ لیکن پریشانی یہ ہے جب یہ جنون کچھ دن تک اترے گا تو پھر ہم کیا کریں گے؟ میں نے کہا: پاکستانی نقطہ نظر سے تقریر تو وزیراعظم نے بہت اچھی کی‘ چاہے ناقدین کچھ بھی کہیں‘ اور آپ لوگوں کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ مزید چلتا رہے تاکہ ناقدین کو آپ کی گورننس اور دیگر ایشوز پر تنقید کی جرأت نہ ہو۔ بولے: لیکن مجھے ڈر ہے‘ اس تقریر کا اثر زیادہ سے زیادہ مزید پندرہ دن رہے گا۔ لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے‘ وہ پھر روزانہ کے مسائل میں پڑ کر حکومت سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا: ان پندرہ دنوں کا فائدہ اٹھائیں اور مزید ٹیکس لگائیں، پٹرول گیس کی قیمتیں بڑھا دیں، لوگ آرام سے ہضم کر لیں گے۔ ہنس کر بولے: اسی لیے تو آج پھر بجلی کی قیمت بڑھائی ہے۔ کسی طرف سے چوں نہیں ہوئی۔ گنوانے لگے کہ کیسے حکومت دھڑادھڑ ٹیکس اکٹھا کررہی ہے اور یہ کہ ٹارگٹ پورا ہوجائے گا۔ میں نے کہا: اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب لوگ کما ہی نہیں پارہے تو نیا ٹیکس کہاں سے دیں گے؟ ایک طرف ملکی معیشت نیچے جارہی ہے اور گروتھ نہیں ہورہی‘ دوسری طرف ٹیکسز کی ریکوری بڑھ رہی ہے۔ اگر معیشت اوپر نہیں جارہی تو پھر آمدن کہاں سے ہورہی ہے‘ جس پر ٹیکس لگاکر ریکور ہورہا ہے؟ بولے: بہت سارے سیٹھ ہیں جنہوں نے پیسہ دبا رکھا ہے‘ ان سے لے رہے ہیں۔ میں نے کہا: سرکار بجلی، گیس، پٹرول ٹیکس تو سب کو پڑتا ہے اس میں سیٹھ کہاں سے آگئے؟ پچھلے ایک سال میں گیس‘ بجلی‘ پٹرول کی قیمتیں بار بار بڑھائی گئی ہیں اور لوگوں کی انکم نہیں بڑھی۔ وہ بولے: ہم ٹیکس عام لوگوں سے تو نہیں لے رہے‘ بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ میں نے کہا: سرکار وہ بڑے لوگ ہی تو اکانومی کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ ہر حکومت کو لوٹ رہے ہیں۔ وہ وزیراعظم سے جا کر ملتے ہیں کہ برباد ہوگئے۔ وہ انہیں بتاتے ہیں: ملکی اکانومی تباہ ہوگئی ہے‘ ہمیں ریلیف دیا جائے۔ یہ ہر حکومت سے ریلیف لینے کے بعد اس حکومت کے گرنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اگلی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر کرپشن کے مقدمات ہیں۔ وہ سب نیب مقدمات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ جو کاروباری لوگ جنرل باجوہ صاحب سے ملے‘ ان میں دو تین ایسے ہیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور ملک کی معاشی تباہی کے وہ ذمہ دار ہیں۔ وہ بڑے بڑے ڈاکے مار کر مظلوم بن کر حکمرانوں کے پاس اپنا رونا رونے پہنچ جاتے ہیں۔ اب اینگرو کو ہی دیکھ لیں۔ اس پر مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کسانوں کو گیس مہنگی کرکے لوٹنے پر پانچ ارب روپے کا جرمانہ کیا۔ انہوں نے سات برس سے سٹے لے رکھا ہے جبکہ یہی اینگرو روزانہ حکومت پاکستان سے دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز اینگرو ٹرمینل کے کرائے کی مد میں لے رہا ہے۔ اپنا جرمانہ ادا نہیں کیا لیکن ہم سے وہ روز دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز لے رہا ہے۔ اب اسی کمپنی کے سربراہ آرمی چیف اور وزیراعظم سے اکانومی کا رونا رو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی کے دوست علی جمیل کو دیکھ لیں جو ایف بی آر میں دو ارب روپے کے ٹریکر سکینڈل کے مرکزی کردار تھے، وہ بھی وفد میں شامل تھے۔ انہیں پہلے علی زیدی نے قاسم پورٹ اتھارٹی کا بورڈ ممبر لگایا اور پھر حفیظ شیخ نے اٹھا کر سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ممبر لگا دیا۔ اب سمجھائیں‘ ایک ٹریکر کمپنی کے مالک کا سٹیٹ بینک آف پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ وہ ہنس کر بولے: علی زیدی پوری کوشش کررہے ہیں کہ پورٹ اینڈ شپنگ سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر مقبول صدیقی کی جگہ لے لیں۔ میں نے ہنس کر کہا: بالکل‘ انہیں لگنا چاہیے کیونکہ ان کے قریبی دوست عاطف رئیس کے خلاف فراڈ کا مقدمہ درج ہے۔ وہ چونکے اور بولے: عاطف رئیس وہی ہیں ناں جن کے گھر پر علی زیدی اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور انہیں ابھی پشاور میٹرو میں چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ ملا ہے؟ میں نے کہا: جناب جس عاطف رئیس پر سترہ کروڑ روپے کنٹریکٹ میں ایف آئی اے نے فراڈ کا مقدمہ درج کررکھا ہے‘ اسی عاطف رئیس کو چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ پشاور میں دیا گیا ہے۔ اب وہی وزارت علی زیدی کے دوست عاطف رئیس کے خلاف مدعی ہے جس کے موصوف وزیر بننا چاہتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کچھ دیر کے لیے کھلیں اور پھر بولے: تو یہ کھیل چل رہے ہیں۔ میں نے کہا: دیکھتے جائیں‘ آپ کو یاد ہے کراچی کے ہی ہمارے بابر غوری بھی پورٹ اینڈ شپنگ کے وزیر تھے اور ایسا ہاتھ دکھایا کہ کروڑں ڈالر کما کر آج کل ہوسٹن میں زندگی کے اچھے دن گزار رہے ہیں۔ آپ کے کچھ وزرا اسی راہ پر چل رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ وہ ہوسٹن کی بجائے شکاگو کو اپنا مستقل مسکن بنائیں گے۔
وہ بولا: اور کوئی نئی تازی؟ میں نے کہا: ارشد شریف آج کل آپ کے ایک اہم وزیر کے سکینڈل پر کام کررہے ہیں۔ بولے: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا: ایک بڑبولے وزیر کے بارے ان کے پاس کچھ دستاویزی ثبوت ہیں کہ امریکہ میں انہوںنے اپنی کمپنی کو دیوالیہ ظاہر کیا تھا۔ وزیر صاحب ہنسے اور کہا: تو جو امریکہ میں دیوالیہ ہوا وہ پاکستان کو امیر کرے گا؟ میں نے کہا: جب موصوف کی سنسنی خیز واردات سامنے آئے گی تو کیا کیا لطیفے نہ ہوں گے۔
ان وزیر صاحب نے اچانک خود پر سنجیدگی طاری کی اور بولے: دیکھا جائے تو سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ اپوزیشن جیل میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے کو کوئی تیار نہیں۔ میڈیا کو ہم نے ٹائٹ کرکے کنٹرول کر لیا ہے اور ان کے لیے ٹرائل کورٹ بن رہے ہیں۔ عوام کشمیر کی تقریر سے خوش ہیں، باقی مسائل کے حل میں انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ میڈیا میں ہمارے ناقدین بھی وزیراعظم کی تقریر کی تعریفیں کرنے پر مجبور ہیں۔ تو پھر خطرہ کہاں سے ہے؟
میں نے کہا: میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو عمران خان نے نواز شریف دور میں کی تھی۔ عوام کبھی نئی حکومت کے خلاف کم از کم دو سال تک سڑکوں پر باہر نہیں نکلتے۔ عمران خان پہلے سال ہی نکل کھڑے ہوئے اور ساری انرجی سڑکوں پر لگاتے رہے۔ اب اپوزیشن وہی کرنے جا رہی ہے۔ انہیں ایک سال مزید انتظار کرنا چاہیے اور یہ تسلی رکھیں کہ عمران خان کی ٹیم میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ مسائل کو حل کرسکے اور عوام کو مطمئن کرسکے۔ وہی زرداری والی بات کہ ہم حکومت کو نہیں گرائیں گے بلکہ یہ اپنے بوجھ سے خود گرے گی۔ اس وقت سارا زور سوشل میڈیا اور چینلز کو کنٹرول کرنے پر لگا ہوا ہے۔ ہر حکمران کی طرح یہ بھی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اگر ٹی وی چینلز قابو میں رہیں، اینکرز منہ بند کرکے رہیں تو پھر عوام کو راضی کرنا مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا: نواز شریف اور زرداری سے زیادہ یہ لوگ میڈیا پر خرچ نہیں کرسکتے اور ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اپوزیشن ایک سال مزید انتظار کرے اور حکومت کو مزید فیصلے کرنے دے۔ کچھ فیصلوں کے نتائج تو سامنے آرہے ہیں کہ کاروباری حضرات اب بنی گالہ کے بعد پنڈی کا رخ کررہے ہیں۔
وہ وزیر صاحب بولے: چلیں جی آپ کچھ بھی کہتے رہیں عوام تو ہم سے آج کل راضی اور خوش ہیں۔ میں نے کہا: جی بالکل عوام کا خوش اور مطمئن ہونا بنتا ہے‘ لیکن وہی آپ والی بات کہ بس پندرہ بیس دن ہی یہ سب راضی رہیں گے‘ اس دوران جو نئے نئے بم گرانے ہیں وہ گرا لیں، عوام خوشی سے سہہ لیں گے۔