''میں اس وقت شدید غصے میں ہوں۔ جس بات پر مجھے غصہ ہے وہ ہرگز ہنسنے یا مذاق کی نہیں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں میرے آبائواجداد پیدا ہوئے‘ اور کچھ بزرگوں نے ہجرت کی۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں میں خود پیدا ہوئی‘ میں نے اپنے بچوں کو یہیں جنم دیا اور انہیں اس ملک سے محبت کرنا سکھایا۔ میرے پاس اور کوئی ملک یا دھرتی نہیں جسے میں اپنا ملک کہہ سکوں۔ پاکستان ہی میرا سب کچھ ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کی زمین میں میرے دادا دادی اور دیگر بزرگ دفن ہیں۔ میں خود بھی یہیں مرنا اور اس دھرتی کے سینے میں دفن ہونا چاہتی ہوں۔ یہ ملک‘ میرا ملک ہے۔ میرا گھر ہے۔ دنیا کا کوئی اور ملک یا کونہ نہیں جسے میں اپنا ملک کہہ سکوں۔ میرا سب کچھ یہی ہے۔مولانا کو کیسے جرأت ہوئی کہ وہ میرے ملک کے بارے میں اس طرح کی باتیں کریں جو انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیں۔ خاتون اینکر (مہر عباسی) نے پوچھا: مولانا کیا پاکستانی ریاست یہ سب انتشار افورڈ کر سکتی ہے؟ مولانا نے جواب دیا: اگر ملک یہ انتشار افورڈ نہیں کرسکتا تو پھر 'فارغ‘‘ (خدانخواستہ) ہوجائے... مولانا فضل الرحمن، حافظ حسین احمد اور مولوی کفایت اللہ خون خرابہ، افراتفری اور لاشیں گرانے کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ خود ''فارغ‘‘ ہوں‘ پاکستان کیوں فارغ ہو۔ یہ لوگ خون بہانا چاہتے ہیں، یہ سب اپنی اپنی انا کے لیے اپنے معصوم پیروکاروں کو قتل کرانا چاہتے ہیں... مجھے یہ ٹی اینکرز بھی زہر لگ رہے ہیں جن کی یہ سب باتیں سن کر باچھیں کھل رہی ہیں۔ ان سب کو کیسے جرأت ہوئی کہ وہ مولانا کی طرف سے پاکستان کو فارغ کرنے کی بات پر دانت نکالیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ سب اینکرز اور صحافی مولانا کی اس بات کی سخت تنقید اور مذمت کرتے‘ لیکن وہ الٹا مزے لے رہے ہیں... یہ بے رحم لوگ اپنی انائوں اور مالی مفادات کے غلام ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے‘ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ میں شدید ہرٹ ہوں۔ یہ جو اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں‘ یہ تو پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ انہوں نے پاکستان کو آج تک قبول نہیں کیا۔ اس لیے یہ خوش ہیں یہ کہہ کر پاکستان (خدانخواستہ)فارغ ہو جائے لیکن ہم ہرگز خوش نہیں کیونکہ اس ٹکڑے سے محبت کرتے ہیں جس کا نام پاکستان ہے‘ جس نے ہمیں نام دیا، شناخت دی۔ کہتے ہیں‘ کمزور لوگوں کا آخری ہتھیار بد دعا ہوتا ہے اور میں بد دعا دیتی ہوں اس ملک کے سب دشمن تباہ و برباد ہو جائیں‘‘۔
یہ سب کچھ لکھا ہے اسما حامد اعوان صاحبہ نے جو لاہور میں ایک پروفیسر ہیں۔ میں نے ان کی فیس بک وال پر سے انگریزی سے اردو میں یہ ترجمہ کیا ہے۔ اسما حامد صاحبہ ان چند لوگوں میں سے ہوں گی جن کے خیالات، تحریروں یا تجزیوں سے میں متاثر ہوں۔ ان سے پہلے ڈاکٹر ظفر الطاف سے متاثر رہا ہوں۔ میجر عامر کے آج بھی سیاسی تجزیے اور اندر کی خبروں تک رسائی مجھے متاثر کرتی ہے جبکہ بابر اعوان کی ذہانت کا قائل رہا ہوں‘ جن کے پاس دنیا کے ہر مشکل مسئلے کا فوری حل موجود ہوتا ہے‘ جس پر وہ فوری عمل کرکے نتائج بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
اب اس فہرست میں جواضافہ ہوا‘ وہ اسما اعوان صاحبہ ہیں۔ ان کے میں فیس بک سٹیٹس عرصے سے پڑھ رہا ہوں۔ آپ انہیں بلاگر کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی میں لکھتی ہیں اور کیا کمال لکھتی ہیں۔ ایسے ایسے موضوعات پر لکھا اور اس انداز میں لکھا کہ پڑھنے والا اش اش کرنے لگے۔ انہوں نے پوٹھوہار کے گائوں، پرانے کلچر، رواج، خوشی غمی کی روایات، بزرگوں کی کہانیاں، تقسیم سے پہلے ہندوئوں مسلمانوں کے ایک دوسرے کے مذہبی تہوار پر رواداری‘ برداشت اور بھائی چارے پر جس طرح لکھا وہ اپنی جگہ قابل تحسین ہے۔ نوجوان نسل کے لیے ان کے بلاگ ایسے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ اس سے تسلی نہ ہوئی تو میں نے ان بلاگز کے سکرین شاٹس لے کر انہیں اپنے ٹویٹر اکائونٹ @klasrarauf پر ٹویٹ کرنا شروع کیا تاکہ ان کی خوبصورت تحریریں دنیا کے بڑے حصے تک پہنچیں۔ انہوں نے جو بلاگز اپنے بچوں کے بارے لکھے ہیں جب وہ باہر پڑھنے گئے‘ وہ انسان تو چھوڑیں کسی وحشی تک کا سینہ چیر دیں۔ اپنے بچوں سے دوری کا جو نفسیاتی اور جذباتی نقشہ اسما نے اپنے بلاگز میں کھینچا وہ کسی کو بھی رلا دے۔ میں ان کی اس کیفیت کو پورا اس وقت نہ سمجھ پایا‘ لیکن اب جب میں خود اس دردناک تجربے سے گزر رہا ہوں تو سمجھ آئی ہے کہ بچے دور ہوں تو آپ پر دن رات کیا گزرتی ہے۔ کیسے ایک ایک لمحہ آپ پر بھاری گزرتا ہے‘ بلکہ یوں کہیں‘ مجھے اپنے گائوں میں برسوں پہلے اماں کی تڑپ اب سمجھ آتی ہے کہ جب نعیم بھائی بہاولپور میڈیکل کالج پڑھنے گئے تھے تو اماں کی کیا حالت ہوتی تھی۔ ہر وقت لبوں پر ایک ہی جملہ ہوتا ''جتھاں پیر ہووے، اوتھاں خیر ہووے‘‘ ایک دن پولیس افسر عمر شیخ کو اسی طرح پردیس میں رہتے اپنے بچوں کی یاد میں رات گئے آنسو بہاتے دیکھا تو بھی مجھے اماں یاد آئی تھیں۔ اسما اعوان کے وہ غیرمعمولی بلاگز مجھے کالم نگار اظہارالحق کی یاد دلاتے ہیں‘ جو آسٹریلیا میں رہائش پذیر اپنے پوتوں کی جدائی میں ایسے کالم لکھتے ہیں کہ دھرتی بھی چند لمحوں کے لیے سورج اور چاند کے گرد گھومنا بھول جائے۔ اسما اعوان نے جوان لڑکیوں اور شادی کے بعد مسائل پر لکھا اور خوب لکھا۔ کون سا ایسا معاشرتی پہلو ہوگا جس پر نہ لکھا ہو‘ چاہے وہ ان کے بچپن کی یادوں سے جڑا‘ ان کے گھر کا بہاری مالی اور اس کی رنگدار خوبصورت ٹوکری ہو‘ جس میں وہ سبزیاں پھل اور سودا خرید کر لاتا تھا۔
آج وہی اسما اعوان ہم سب صحافیوں سے ناراض ہیں۔ وہ اس ملک کی ایلیٹ سے ناراض ہیں۔ انہیں لگتا ہے ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ وہ صحافیوں سے اس لیے ناراض ہیں کہ صحافیوں کے نزدیک یہ معمولی بات ہے کہ ایک بندہ ٹی وی اینکر اور کیمرے کے سامنے کھل کر یہ بات کہہ دے کہ اگر ان کی باتیں نہیں مانی جاتیں''تو پھر فارغ کریں اس ملک کو‘‘ (اللہ نہ کرے)اور ہم سب دانت نکالیں؟ کسی کو احساس نہیں کہ مولانا نے کیا کہہ دیا؟
اسما اعوان کا غصہ جائز ہے کیونکہ میں نے اسلام آباد میں بائیس برس سے رپورٹر کے طور پر بڑے قریب سے دیکھا ہے کہ جو جذبات اس ملک اور دھرتی سے پاکستان کے عام لوگوں میں پائے جاتے ہیں‘ وہ یہاں آپ کو کم ملتے ہیں۔ یہ چوبیس کلومیٹر پر پھیلا اسلام آباد حکمرانوں کی چراگاہ بن چکا ہے۔ بلکہ کچھ برسوں میں اسلام آباد ان سیاستدانوں کے دور میں زیادہ تباہ ہوا۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سی ڈی اے کے ایک ٹھیکیدار کو اٹھا کر اسلام آباد کا مالک یا میئر لگا دیا۔ وجہ کیا تھی اتنی مہربانی کی؟ اس ٹھیکیدار نے اسلام آباد اور مری میں شریفوں کو گھر تعمیر کرکے دیے تھے۔ یہ ویژن تھا لیڈر کا۔ بڑے بڑے ایکسپورٹرز کی سن لیں‘ جن کے لیے روپیہ گرایا گیا۔ عدالت میں انکشاف ہوا کہ اکثر ایکسپورٹرز ڈالرز پاکستان لانے کی بجائے بیرون ملک رکھتے اور جائیدادیں خرید لیتے ہیں۔
بیوروکریسی دیکھ لیں جو کسی بھی ملک کی جان ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چھبیس ہزار کے قریب غیرملکی شہریت لے چکے ہیں۔ بابوز کے بچے پہلے ہی باہر سیٹل ہیں۔ یہاں سے کھل کر کماتے اور باہر بھیجتے ہیں۔ یہ اب ہر دوسرے بابو کی کہانی ہے۔ میں نے ایک سٹوری بریک کی تھی۔ عدالت نے رپورٹ منگوا لی‘ پتہ چلا کہ فیڈرل سیکرٹری تک غیرملکی نیشنل ہیں۔ فارن آفس تک کے بابوز تو سپریم کورٹ تک کو نام نہیں دے رہے تھے۔ ان بابوز میں سے کسی نے رونڈا، صومالیہ کی نیشنلٹی نہیں لی۔ وہ یورپ، امریکہ‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا سے کم پر راضی نہ ہوئے۔ جن لوگوں نے جائیدادیں باہر خرید لیں بچے باہر سیٹل کر دیے، انہیں پاکستان سے اتنی محبت ہے کہ وہ یہاں سے روز کتنا حلال حرام کما کر باہر جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہو تو اکثر کہیں گے: اس ملک کا مستقبل نہیں ہے۔ ان کا مستقبل باہر ہے۔ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پانچ براعظموں میں جائیدادیں ہیں۔ دوبئی میں دس ارب ڈالرز کی جائیدادیں صرف پاکستانی خرید چکے اور ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ حکمرانوں اور بابوز کاروباریوں کو اس ملک اور دھرتی پر ترس نہیں آتا تو پھر اکیلے مولانا کو کیوں آئے؟
مولانا کو ہر حکمران اور بیوروکریٹ کی طرح صرف اس وقت تک ملک سے دلچسپی ہے جب تک اقتدار سے انہیں حصہ مل رہا ہے۔ جس جس حکمران اور بابوز کی کمائی کم یا بند ہوگی وہ اس دن مولانا صاحب کی طرح نفرت سے کہہ دے گا: فارغ کرو اس ملک کو(خدانخواستہ)۔ اب اسے لوٹنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔