"RKC" (space) message & send to 7575

جمہوریت مررہی ہے؟

آج کل ہمارے دوست اکبر چوہدری ورجینیا‘ امریکہ سے آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں ان کا ڈیرہ عامر متین کے گھر ہوتا ہے‘ وہیں محفلیں جمتی ہیں۔ اکبر چوہدری شاندار آدمی ہیں‘ عمران خان کے کینسر ہسپتال کے لیے انہوں نے بہت چندہ اکٹھا کیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد لوگ پاکستان میں ایسے کاموں کے لیے عطیات دینے سے ڈرتے تھے تو انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے سینیٹر الگور سے دو تین ہزار ڈالرز کا عطیہ لیا اور وہ اس کی کاپیاں لوگوں کو دکھا کر پیسے اکٹھے کرتے تھے‘ تاکہ ان کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔
عامر متین بتانے لگے کہ پچھلے دنوں کانگریس میں کشمیر پر جو سماعت ہوئی ‘ اس میں اکبر چوہدری اور دیگر نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس محفل میں نظام الدین مہمند بھی موجود تھے‘ جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور اب اسلام آباد شفٹ ہورہے ہیں۔ اچانک ڈاکٹر نظام نے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے ‘پاکستانی میڈیا نے کشمیر ایشو پر کانگریس میں ہونے والی سماعت کو اہمیت نہیں دی؟ میں نے کہا :آپ نے بڑا مشکل سوال پوچھ لیا ہے‘ دنیا بھر میں میٖڈیا کے لیے کام کرنا مشکل ہورہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟ میرا جواب تھا کہ میڈیا اس وقت دنیا کے پاپولر لیڈروں کے ہاتھوں مشکل کا شکار ہے‘ پچھلے دنوں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہی خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ دنیا میں جمہوریت مررہی ہے اور پاپولر لیڈر جمہوریت کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ عوام ان لیڈروں کے رومانس میں پڑ کر شدید استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے لیڈرز خود کو کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتے‘ جس کے باعث جمہوریت کمزور ہوکر مررہی ہے۔ میں نے بات جاری رکھی: یہی دیکھ لیں اس وقت دنیا پر تین پاپولر لیڈر حکمرانی کررہے ہیں اور وہ میڈیا کو پسند نہیں کرتے۔ تینوں کی کوشش ہے کہ پورے معاشرے اور میڈیا کو کنٹرول کیا جائے۔ امریکہ میں دیکھ لیں‘ وہاں ٹرمپ اور میڈیا میں لڑائی چل رہی ہے اور لڑائی کی وجہ ٹرمپ کا وہ پہلا ایگزیکٹو آرڈر تھا جس کے تحت چھ مسلمان ملکوں سے لوگ امریکہ نہیں آسکتے تھے‘ کیونکہ یہ امریکن رائٹ ونگ کا ایجنڈا تھا۔ میڈیا سمجھتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو کمزور کررہے ہیں اور امریکہ کا جو کلچر رہا ہے ان روایتوں کے خلاف کام ہورہا ہے ۔ ٹرمپ کو تین سال ہو چکے ہیں اور ہر روز ٹرمپ یا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف لکھ یا بول رہے ہوتے ہیں‘ لیکن امریکہ میں ادارے بہت مضبوط ہیںاس لیے ٹرمپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ دوسری طرف آپ بھارت کو دیکھ لیں جہاں میڈیا اور معاشرے کو مودی حکومت نے کنٹرول کر لیا ہے۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ امرتا سین نے لکھا کہ اس کے دوست جب بھارت سے اسے امریکہ فون کرتے ہیں تو وہ مودی حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا‘ لیکن اچانک سب کی آوازوں میں خوف ابھر آیا ہے۔ سب ڈرتے ہیں کہ حکومت کو پتہ چل گیا کہ وہ اس کے خلاف رائے کا اظہار کررہے ہیں تو کارروائی ہوگی۔ امرتا سین کا کہنا ہے کہ یہ بہت خطرناک ٹرینڈ ہے‘ جب لوگ آپ سے ڈر کے مارے بات نہیں کرتے۔ 
مودی حکومت نے اپنی پارٹی کے ہندوتوا نعرے کی بنیاد پر جس بھارتی معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اس کو حکومت سے بہت سپورٹ ملی ہے‘اوپر سے مودی حکومت نے سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارت میں میڈیا اور لبرل آوازوں کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ نکالا گیا کہ جو بھی مودی یا حکومت کے خلاف بات کرے اس پر سوشل میٖڈیا کی ٹیمیں چڑھ دوڑتی ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ بھارت میں ان لوگوں کے خلاف سو سے زائد مقدمے درج کر کے وارنٹ جاری ہوئے جنہوں نے مودی کو خط لکھا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں پر ہونے وا لے حملوں پر انہیں تشویش ہے۔ اس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا کہ ان مشہور لوگوں نے وہ خط لکھ کر بھارت کو بدنام کیا ‘ کیونکہ وہ خط عالمی اخباروں میں بھی چھپا۔ بھارت میں یہ تبدیلی اچانک آئی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ عدالتوں سے لے کر میڈیا اور معاشرے تک‘ سب پر مودی حکومت نے اپنا کنٹرول کر لیا ہے۔ بھارت میں اپوزیشن بھی ایسے ختم ہوچکی ہے جیسے پاکستان میں اب اس کا وجود نظر نہیں آتا اور یہ بات کسی بھی جمہوریت کے لیے بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ اب یہ خوفناک رجحا نات پاکستان میں بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ عمران خان میڈیا کی طاقت کی بنیاد پر ابھرے تھے‘لیکن انہیں بھی میڈیا اسی طرح برا لگتا ہے جیسے دنیا کے دیگر ملکوں میں وہاں کے لیڈروں کو۔ عمران خان صاحب نے پہلے دن ہی میڈیا کے خلاف محاذ کھول لیا تھا ۔ مبینہ طور پر ان کی حکومت اور پارٹی سوشل میڈیا کو ہتھیار کے طور پر مخالفین کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اور وزیروں کی کرپشن پر کوئی بات نہ کرے‘ سوال نہ کرے‘ اور جو کرے گا اس کی خیر نہیں۔ پاکستان میں اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا کہ عمران خان بار بار امریکہ اور چین میں کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس اگر وہ طاقت ہوجو چینی لیڈروں کے پاس ہے تو وہ پاکستان کی تقدیر بدل دیں‘ مطلب یہ تھا کہ انہیں میڈیا ‘ عدالتیں‘ پارلیمنٹ اور معاشرے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے اختیارات چاہئیں ‘جس کے بعد ہر کوئی انہیں جواب دہ ہو‘ لیکن وہ کسی کو جواب دہ نہ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب وزیراعظم صاحب سے ہم صحافیوں اور اینکرز کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے باقاعدہ نام لے کر کہا کہ اگر عامر متین‘ رئوف کلاسرا اور محمد مالک ان کی حکومت پر تنقید نہ کریں تو معیشت ٹھیک ہوجائے گی ۔ ہم حیرت سے تکتے رہ گئے کہ اگر میڈیا ان کی حکومت کی غلطیاں نہ نکالے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ 
یہ بات طے ہے کہ پاپولر لیڈرشپ اداروں اور ان کے کردار پر یقین نہیں رکھتی‘ چاہے وہ امریکہ ہو‘ بھارت یا پاکستان۔ ان سب کے مزاج ایک جیسے ہیں۔ حکمران سمجھ لیتا ہے کہ اسے لوگوںنے ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے اور اب اس کے پاس مینڈیٹ ہے کہ وہ جو چاہے کر گزرے ‘اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی سوال پوچھا جائے گا ۔ پاکستان میں یہ رجحانات غیرمحسوس انداز میں اسی طرح شروع ہورہے ہیں جیسے بھارت میں۔ وہاں بھی جب اس طرح کے واقعات شروع ہوئے اور ہم نے بھارتی دوستوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ ان کا معاشرہ اور جمہوریت کسی اور طرف چل پڑے ہیں تو بھارتی دوست ہمارا مذاق اڑاتے اور کہتے تھے کہ گاندھی جی اور نہرو کا اتنا اثر ہے کہ ہندوستان میں ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔یہ زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ میں نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں بھی دو سال پہلے کہا تھا کہ بھارت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی‘ کیونکہ مودی جی خود بھارتی جمہوریت اور معاشرے کے بڑے دشمن بن کر ابھریں گے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ دو سال کے اندر اندر یہ سب کچھ ہو جائے گا مگر آج دنیا بھر کا میڈیا بھارت کے بارے میں جو رپورٹس اور تبصرے شائع کررہا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ ایک مغربی کالم نگار کو پڑھ رہا تھا جس نے لکھا تھا کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ہم بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتے رہے اور وہاں تو اب لوگ بات کرتے ڈرتے ہیں۔ 
شاید آپ کو لگے کہ میں زیادہ ردعمل دے رہا ہوں ‘لیکن پاکستان میں وہ نشان دھیرے دھیرے ابھرنا شروع ہورہے ہیں کہ حکمران یا پارٹی کے سیاسی لیڈروں پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ لوگوں کے ذہنوں میںیہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ ان کا لیڈر بہت مہان چیز ہے جو غلط کام کرہی نہیں سکتا‘ لہٰذا جو اس پر تنقید کرتے ہیں وہ سزا کے قابل ہیں۔ ایک عام حکمران کو ایک مہاتما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مقصد بادشاہوں ‘ راجوں‘ مہاراجوں اور شہزادوں کے دور سے نکل کر عام انسان کو یہ حق دینا تھا کہ ان کے حکمران انہیں جواب دہ ہوں گے‘ لیکن جمہوریت کا یہ نیا خوفناک روپ وہی پرانا دور واپس لا رہا ہے جب رعایا کو بادشاہ سے سوال کرنے یا تنقید کا حق نہیں تھا‘ کہ جو کرے گا اسے لٹکا دیا جائے گا۔
کسی نے درست لکھا تھا کہ ہر دور کے اپنے اپنے فاشسٹ اور فاشزم ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں