نوازشریف کے چاہنے والے پہلے حیران ہوئے‘ پھر پریشان اور اب شدید غصے میں ہیں۔ آپ سوشل میڈیا دیکھیں تو ہر طرف شریف خاندان پر طعنے‘ طنز پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ لگتا ہے یہ خاندان جو چند صحافیوں‘ اینکرز یا سوشل ایکٹوسٹس کی آنکھوں میں آسمان پربیٹھا تھا‘ اچانک دھڑام سے نیچے آن گرا ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ سابق چیف جسٹس کھوسہ صاحب نے کیا سوچ کر یہ کام پارلیمنٹ کے ذمے لگایا تھا کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمی چیف کی تعینا تی‘ توسیع اور دیگر معاملات کو طے کریں۔ شاید یہ خواہش تھی کہ پارلیمنٹ ہی مقدس ادارہ ہے‘ وہی اس طرح کے معاملات کو طے کرے نہ کہ سپریم کورٹ۔ دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں یہی ہونا چاہیے تھا‘ لیکن کیا کریں ہمارے ملک کی سیاست کو وہ لوگ چلاتے ہیں جو اسے کاروبار سمجھتے ہیں نہ کہ عوامی خدمت ۔ میں شاید خوش قسمت رہا ہوں کہ شریف خاندان سے آخری اُمید آج سے بارہ سال قبل کچھ ماہ کے لیے باندھی اور چند ماہ بعد وہ ختم بھی ہوگئی تھی ۔ لندن میں جلاوطنی کے دنوں میں بڑے قریب سے شریف بھائیوںکو دیکھا اور سمجھا بھی اور اس کے بعد ان کی کسی بات پر بھروسہ کرنے کو دل نہ کیا ۔ جو باتیں وہ لندن میں کرتے تھے ‘پاکستان لوٹتے ہی سب کچھ اُلٹ کیا۔ ان کے نزدیک انقلاب وہی ہے جو انہیں پاور میں لے کر آئے اور ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے۔ لگتا ہے بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے‘ جس میں طے پایا کہ وہ اب جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کریں گے۔ کچھ دنوں بعد ہم نے سنا کہ چوہدری نثار علی خان اور شہاز شریف رات کے اندھیرے میں جنرل کیانی سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ نواز شریف سے ایک پریس کانفرنس میں پوچھا گیا توبھولا سا منہ بنا کر کہا: انہیں تو نہیں پتہ کہ شہباز اور نثار خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں۔ آپ ذرا تصور کریں کہ کیسے ان دونوں بھائیوں نے کام بانٹے ہوئے تھے۔ ایک بھائی اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار نبھا رہا تھا تو دوسرا بھائی اسی اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ملاقاتیں کررہا تھا۔ ایک بھائی ان لوگوں کا ہیرو بناہوا تھا جو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خلاف ہیں اور وہ اپنی تحریروں اور شوز میں نواز شریف کو ہیرو بنانے پر لگے ہوئے تھے‘ جبکہ دوسرا ان لوگوں کی اُمید بنا ہوا تھا جن کے خیال میں وہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل لے کر آئے گا ‘ان کی دوبارہ حکومت بنے گی اور مزے ہوں گے۔
ان دونوں بھائیوں نے اپنا امیج اس طرح بنا لیا ہے کہ جب چاہیں یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جائیں اور جب چاہیں جمہور پسند۔ مجھے حیرانی ان پر ہورہی ہے جنہوں نے اب ماتم شروع کیا ہے کہ ان کا چی گویرا ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا اورآرمی ایکٹ میں چیف آف آرمی سٹاف کو توسیع دینے کے لیے ہونے والی ترامیم میں ووٹ ڈالنے پر راضی ہوگیا ہے۔
چلیں ہم زیادہ پیچھے نہیںجاتے‘ جب ڈان لیکس سامنے آئی تھیں تو اچھا موقع تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اس وقت سٹینڈ لے لیتے اور کہتے کہ پاکستان مسائل کا شکارہے‘ ہمیں ان ایشوز کو حل کرانا ہوگا۔ جب دبائو زیادہ پڑ رہاتھا توپارلیمنٹ میں ایک تقریر کرتے اور بتاتے کہ جو لوگ ڈان لیکس پر ان کے خون کے پیاسے ہیں وہ بہتر ہے خود پاکستان کے وزیراعظم یا چیف ایگزیکٹو بن جائیں۔ لیکن نواز شریف نے اس کے اُلٹ کیا تاکہ ان کی کرسی اور خاندان کی عیاشیاں چلتی رہیں۔ انہوں نے خود ہی اپنے وزیروں کے خلاف انکوائری ٹیم بٹھا دی‘ ساتھ ہی اس رپورٹر کام نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ اخبار کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی۔ نواز شریف نے خود اپنے وزیروں کو اس کمیٹی کے سامنے پیش کرایا جس میں دو سیکرٹ ایجنسیز کے افسران شامل تھے۔ ان افسران نے نواز شریف کے وزیروں سے پوچھ گچھ کی اور چند دنوں بعد انکوائری رپورٹ کی روشنی میں دو وزیر برطرف کیے۔ یہ تھا ہمارا چی گویرا۔ اسی طرح کا کام مشاہد اللہ کے ساتھ کیا گیا۔ اس سے بی بی سی کو انٹرویو دلوایا گیا کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے بھی کوئی تھا۔ جونہی انٹرویو چلا تو مشاہد اللہ کو نیپال میں ہی فون کر کے کہا گیا کہ فورا ًاستعفیٰ دے دو۔ یہ تھا چی گویرا جس سے اب پوری قوم ناراض ہے کہ انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سٹینڈ کیوں نہیں لیا ؟
مزے کی بات ہے کہ جس رپورٹر کی ڈان لیکس خبر کو جھوٹا کہا‘ اس کے خلاف کارروائی کی‘ نام ای سی ایل پر ڈالا‘ وزیراعظم کی کرسی سے ہٹنے کے بعد اسے ملتان بلوایا اور انٹرویو دے کر ڈان لیکس کی تصدیق کی۔ ذرا اندازہ کریں کہ جب وزیراعظم تھے تو اس خبر پر اپنے وزیروں کی انکوائری کروائی‘ انہیںبرطرف کیا اور جب کرسی چلی گئی تو اسی رپورٹر کو بلا کر کہا کہ جو تم نے لکھا تھا وہ سب سچ تھا‘ بلکہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اور کیا کچھ اس اجلاس میں کہا گیا تھا۔ اب مجھے بتائیں اس لیڈر سے قوم امیدیں باندھ بیٹھی تھی کہ وہ آرمی چیف کی توسیع کے قانون پر سول برتری کی جنگ لڑے گا اور وہ فتح یاب ہوں گے۔ اسی طرح جب پانامہ کا سکینڈل سامنے آیا تو اس وقت بھی نواز شریف نے وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے ماتحتوں کے سامنے جا کر انکوائری بھگتی۔ اگر ان کے اندر جمہوریت اور سیاست کے لیے عزت ہوتی یا وزیراعظم کے عہدے کا پاس ہوتا تو یقین کریں وہ استعفیٰ دے دیتے‘ لیکن سول ملٹری افسران کے سامنے پیش نہ ہوتے ‘تاکہ وزیراعظم کے عہدے کی عزت خراب نہ ہو۔
نواز شریف کے پاس ماضی میں اس وقت مواقع تھے جب وہ وزیراعظم تھے اور بہت سے قانونی اختیارات استعمال کرسکتے تھے۔ اگر وہ اس وقت کھڑے نہیں ہوئے تو کیوں یہ سب لوگ سمجھ بیٹھے تھے کہ نواز شریف جو اَب ہسپتال کے بستر پر پڑے ہیں‘ جمہوریت اور سول بالادستی کی جنگ لڑیں گے؟ وہ کیوں لڑیں گے جب ان کی بیٹی ضمانت پر ہے‘ ای سی ایل پر نام ہے‘ بچے مفرور ہیں اور ابھی ایک ہفتے بعد انہیں اپنی ضمانت میں توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے درخواست کرنی ہے۔ وہ اس وقت اپنے خاندان کو بچائیں یا چند لوگوں کے اس خواب کی تعبیر کے لیے سب کو قربان کر دیں کہ وہ سول بالادستی چاہتے ہیں؟
ہمارے اکثر دانشوروں کا یہی المیہ ہے کہ انہیں ہر دورمیں یہ سیاستدان استعمال کرتے ہیں اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ پہلے ان سب نے امیدیں بینظیر بھٹو سے باندھ لیں کہ وہ سول بالادستی کی جنگ لڑیں گی۔ اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ بینظیر بھٹو اندر کھاتے جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کر کے اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے اور دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ڈیل کرتی رہیں ۔ اس طرح ہمارا یہ دانشور گروہ نواز شریف کو ہیرو سمجھ بیٹھا کہ وہ اب ان کیلئے مزاحمت کا نشان بن کر اُبھرے گا۔ یہ سب لوگ بھول گئے تھے کہ ان سیاستدانوں نے سیاست کو عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندانوں کو امیر سے امیر تر بنانے‘ بیرون ملک منی لانڈرنگ‘ محل خریدنے اور بچوں کوبچپن سے ہی ارب پتی بنانے کیلئے استعمال کیا تھا ۔ اگر نواز شریف کے بچوں کی پانچ براعظموں میں جائیدادیں نکل آئیں تو زرداری کے بچوں کی بیرون ملک دولت کی تفصیلات پڑھتے ہوئے آپ کی سانس پھول جائے گی۔ ان سیاست دانوں کو دولت اور جمہوریت میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اور انہوں نے دولت کا انتخاب کیا ۔
ابھی جو عمران خان کے حامی بڑے نعرے لگارہے ہیں کچھ دن گزرنے دیں انہیں بھی بہت جلد نواز شریف اور زرداری کے جیالوں کی طرح جمہوریت اور سول بالادستی یاد آجائے گی۔ سب کو سول بالادستی اور جمہوریت اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد یاد آتی ہے۔ اقتدار میں ہوں تو یہ جھکنے کی بجا ئے لیٹ کر حکومت کرتے ہیں‘ جیسے پہلے زرداری اورشریفوں نے کی یا اب عمران خان کررہے ہیں۔ مجھے تو خطرہ ہے جو دانشور آج نواز شریف سے مایوس اور عمران خان سے سخت خفا ہیں اور ان پر پھبتیاں کس رہے ہیں ‘ وہ کل کو عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد انہیںاپنا نیا نجات دہندہ سمجھ کر ان کے پیچھے لگ جائیں گے کہ وہ اب ان کی سول بالادستی کی جنگ لڑیں گے‘ جیسے کبھی یہ سب زرداری اور بینظیر بھٹو سے مایوس ہو کر اپنا انقلابی ٹھرک پورا کرنے کے لیے نواز شریف کو چی گویرا سمجھ کر اس کے پیچھے لگ گئے تھے۔