آج وزیراعظم عمران خان بھی وقت پر قومی اسمبلی پہنچے ہوئے تھے۔وہ جو پچھلی پارلیمنٹ میں پانچ سال نہیں گئے اور جب سے وزیراعظم بنے ہیں شاید چند دفعہ ہی گئے ہوں گے‘ بلکہ جب وزیراعظم سے پوچھا جاتا تھا کہ وہ اسمبلی کیوں نہیں جاتے تو کہتے تھے کہ میں کیا کرنے جائوں‘ پارلیمنٹ میں کوئی سنجیدہ کام ہوتا ہی نہیں۔ آج آرمی ایکٹ کو منظور کرانے کے لیے وہ خود ہال میں موجود تھے کہ شاید پورے سال میں یہ واحد سنجیدہ کام تھا۔
قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں ارکانِ اسمبلی کو اچھے بچوں کی طرح آرمی چیف کی مدتِ توسیع کے قانون پر ووٹ ڈالتے یاد آیا کہ اس قانون پر جماعت ِاسلامی سمیت کچھ پارٹیوں نے ووٹ نہیں ڈالا ‘ بلکہ امیر ِجماعت اسلامی مسلسل کئی دنوں سے اس پر تنقید بھی کررہے تھے۔ اس اسمبلی کی پریس گیلری سے بہت مناظر دیکھے ہیں اور دھیرے دھیرے ان سیاستدانوں سے دل بھر گیا۔ اب نہ ان پر پیار آتا ہے اور نہ ہی غصہ۔ بیس برس قبل جب اس پارلیمنٹ میں جانا شروع کیا تھا تو ہمارے سیاسی رومانس کے دن تھے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی پارٹیوں نے جنرل مشرف کو ٹف ٹائم دیا ہوا تھا۔ وہ جنرل مشرف کے ایل ایف او کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھے اور روز ہمیں خواجہ آصف جذباتی تقریریں کر کے گرماتے تھے۔ ایک دن خواجہ آصف کو محسوس ہوا کہ کچھ مصالحہ ڈالا جائے تاکہ عوام کی آنکھوں میں آنسو بھی لائے جائیں‘ تو وہ ہاؤس میں کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ باندھ کر تقریبا ًآنکھوں میں آنسو لا کر چلائے کہ ان کے والد خواجہ صفدر نے جنرل ضیا کی جو حمایت کی تھی وہ غلط تھی اور وہ اس پر قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا کہ دیکھیں کوئی تو ہے جو اپنے باپ کی ماضی میں کی گئی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگ رہا ہے اور وعدہ کررہا ہے کہ آئندہ ایسا نہ خود کرے گا نہ اس کی حمایت کرے گا۔ وہی خواجہ آصف بیس برس بعد اسی پارلیمنٹ میں نواز لیگ کے ارکانِ پارلیمنٹ کو سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ اعلیٰ قیادت کا فیصلہ ہے کہ ہم نے آرمی ایکٹ کی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے۔ اگرچہ ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز لیگ کے تقریباً ستر فیصد ایم این ایز اس ترمیم کے خلاف تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کا تین سال پرانا بیانیہ خراب ہوگا کہ الیکشن چرایا گیا تھا اور عمران خان کو سلیکٹ کیا گیا تھا۔
مجھے یاد ہے دو ہزار تین میں اپنے انگریزی اخبار کے لیے میں کچھ اہم سیاستدانوں کے پروفائل کررہا تھا اور اکثر سیاستدانوں کو ان دنوں جمہوریت کی محبت کا دورہ پڑا ہوا تھا ‘ وہ ماضی میں فوجی جرنیلوں کی حمایت پر یا تو شرمندہ تھے یا قوم سے معافی مانگ رہے تھے۔ ایک شادی میں خبیرپختونخوا کے ایک سیاستدان مل گئے جو جنرل مشرف کی حکومت میں شامل تھے۔ مجھے ہنس کر کہنے لگے: یہ آپ نے کیا سیاستدانوں کے انٹرویوز میں ان کے اعترافات اور معافی نامے شائع کرنے شروع کر دئیے ہیں؟ جب مشرف کی حکومت ختم ہوگی تو آپ نے میرے پاس آنا ہے اور میں بھی پورے دل سے معافی مانگ لوں گا اور آپ نے شائع کرنی ہے۔ میں ان کا منہ تکتا رہ گیا۔ وہ بولے: رئوف صاحب آپ بہت بھولے ہیں‘یہ سب سیانے لوگ ہیں۔ یہ انہی فوجی حکومتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں‘ مزے کرتے ہیں اور جب اقتدار چلا جاتا ہے تو آپ جیسے لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے یہ لوگ بڑا سیریس منہ بنا کر قوم سے معافی مانگ لیں گے اور آپ بھی بھاگ کر چھاپ دیتے ہیں اور اگلی دفعہ یہ لوگ پھر قطار میں کھڑے ہو کر آمروں کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی بات اس وقت یاد آئی جب وہ خواجہ آصف جو خواجہ صفدر کے معاملے میں معافی مانگتے تھے اور آئندہ غلطیاں نہ دہرانے کا وعدہ کرتے تھے‘ بھی ووٹ ڈال رہے تھے۔
مجھے پریس گیلری میں بیٹھے یاد آیا کہ انہی خواجہ آصف اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے مشرف دور میں ایم ایم اے کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ ایم ایم اے والے جنرل مشرف کے ساتھیوں سے خفیہ مذاکرات کررہے تھے اور روز ہمیں اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ارکان چیخ چیخ کر بتاتے تھے کہ ملک اور قوم کے ساتھ کتنا گھنائونا مذاق ہو رہا ہے۔ ہمیں پانچ سال تک قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ ایم ایم اے وردی کے ساتھ جنرل مشرف کو صدر بنانے کا وہ کام کررہی ہے جس کی قیمت نسلیں ادا کریں گی۔ پانچ سال تک ہمیں یوں لگا کہ یہ دونوں پارٹیاں اب جمہوری فیصلے کریں گی اور ان کی حکومتیں آئیں تو یہ جمہوریت کو آسمان پر لے جائیں گے۔ ہمارے جیسے بھولے اس پر یقین کر بیٹھے‘ پھر کیا ہوا‘ آصف زرداری نے صدر اور وزیراعظم گیلانی نے پہلی فرصت میں جنرل کیانی کومدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی۔ گیلانی صاحب نے رات کو قوم سے خطاب کر کے یہ خوش خبری سنائی‘ مطلب یہ تھا کہ آپ ہماری حکومت کو‘ جو بڑے بڑے سکینڈلز میں ملوث تھی‘ کچھ نہ کہیںہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ مجھے یاد ہے زرداری دور میں عجیب کام ہو رہا تھا کہ ایک ریاست میں کئی ریاستیں بیک وقت کام کررہی تھیں۔ زرداری گیلانی صاحبان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا‘ ان کو بس اسی سے غرض تھی کہ انہیں نہ روکا جائے ‘اور پھر انہیں کسی نے نہیں روکا‘ یوں انہوں نے پانچ سال پورے کر لیے۔
وہی بینظیربھٹو جو جنرل مشرف کے وردی میں صدر بننے کے خلاف تھیں‘ جنرل مشرف سے خفیہ مذاکرات کررہی تھیں اور بدلے میں اپنے سارے مقدمات ختم کرارہی تھیں۔ جب ایم ایم اے اقتدار میں حصہ لینے کے لیے ڈیل کررہی تھی تو اسی پیپلز پارٹی نے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھا اور پھر وہی پیپلز پارٹی ایم ایم اے کی طرح جنرل مشرف سے پاور شیئر نگ کیلئے خفیہ ملاقاتیں کررہی تھی۔ اسی طرح نواز شریف کا دور ہم نے دیکھا۔ وہ بھی پارلیمنٹ سے دور رہے۔ آٹھ ماہ تک وہ پارلیمنٹ نہیں گئے اور نہ ہی سینیٹ نے ایک سال ان کی شکل دیکھی۔ وہ بھی وزیراعظم بننے کیلئے پارلیمنٹ گئے تھے‘ اس سے زیادہ انہیں بھی عمران خان کی طرح پارلیمنٹ سے دلچسپی نہ تھی۔ جو وزیراعظم آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ ہی نہ جائے اسے کیا حق ہے کہ ووٹ کی عزت کا نعرہ لگائے؟
عمران خان بھی اُن دنوں فوجی حکومتوں پر برستے تھے اور جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ صدر بنانے کے خلاف تھے۔ ان کی تقریریں سنیں تو اندازہ ہوا کہ شاید ان سے بڑا جمہوریت پسند کوئی نہیں ‘ لیکن دھیرے دھیرے انہیں بھی سمجھ آنا شروع ہوگئی کہ اقتدار کے لیے انہیں کچھ طاقتوروں سے دوستیاں نبھانا ہوں گی۔ ہم نے ابھی کچھ دن پہلے پرویز الٰہی کے منہ سے سنا کہ کیسے عمران خان کو پارٹی بنا کر دی گئی اور ان کے لوگ توڑ کر وہ ساتھ لے گئے۔ خیر پرویز الٰہی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں( ق) لیگ کس نے بنا کر دی تھی‘ جس کی بنیاد پر وہ وزیراعلیٰ اور شجاعت حسین وزیراعظم بن بیٹھے تھے۔ جنہوں نے انہیں (ق) لیگ بنا کر دی تھی انہوںنے ہی عمران خان کو (ق) لیگ کے بندے توڑ کر دئیے کہ اب تم بھی کچھ دن حکمرانی کا شوق پورا کر لو۔ ان سب کے شوق پورے ہوئے ہیں۔ ایم ایم اے نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر شوق پورا کیا‘ زرداری ‘گیلانی نے جنرل کیانی کے ساتھ مل کر پانچ سال پورے کر لیے‘ اب عمران خان نے بھی وہی راستہ چنا ہے۔ نواز شریف اقتدار میں ڈیل نہ لے سکے تھے تو انہوں نے اب لے لی۔ ان کے حامی مفت میں پریشان اور افسردہ ہیں۔ پاکستانی سیاستدان ڈیل اور ڈھیل کے بغیر نہیں چل سکتے۔ یہ سب اس وقت تک وردی کے خلاف ہیں جب تک یہ انہیں کوئی ڈیل دے کر اقتدار میں نہیں لاتی یا ڈھیل دے کر باہر نہیں بھجوا دیتی‘ چاہے بینظیر بھٹو‘ زرداری‘ نواز شریف یا اب عمران خان ہوں۔ سب جماعتوں کے ارکان کو قومی اسمبلی میں اچھے بچے بنے دیکھ کر یاد آیا کالج میں ہمیں این سی سی کی تربیت کرائی جاتی تھی ۔ بہت سے رائٹ لیفٹ ٹرن اور اباؤٹ ٹرن کے بعد ایک اونچی آواز میںعسکری آرڈر آتا تھا ''جیسے تھے‘‘۔ مطلب دوبارہ اسی پوزیشن پر چلے جائیں جہاں سے شروع کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بھی دوبارہ وہیں جا کھڑی ہوئی ہیں جہاں سے شروع کیا تھا۔
صرف ایک حکم آنے کی دیر تھی ...جیسے تھے!