پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح بیوروکریسی زوال کا شکار ہوئی ہے اس کے بعد نوجوان بیوروکریٹس کے رول ماڈل تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ کوئی اب عوام کی سروس پر یقین نہیں کرتا۔ اکثر دوست یہی سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی کا مطلب حکمرانی اور عیاشی ہے نہ کہ عوامی خدمت‘ لیکن ابھی بھی کوئی ایک آدھ افسر بھولے بھٹکے سے نکل آتا ہے جس سے مکمل مایوسی سے بندہ بچ جاتا ہے اور کچھ روشنی نظر آنے لگتی ہے۔
جب لیہ گائوں سے واپس لوٹا اور جس طرح کے حالات‘ گنے کی ٹرالیاں اور ان سے پیدا شدہ مسائل دیکھے اور اس پر ایک کالم لکھا تو میرا خیال تھا بس ایک ڈیوٹی تھی پوری ہوگئی۔ اب نہ ہمیں حکمرانوں سے کوئی امید ہے نہ ہی بیوروکریسی یا پولیس افسران سے۔ کبھی یقینا امید رہتی تھی ‘لیکن دھیرے دھیرے خود کو سمجھایا‘ تاہم ابھی کچھ افسران حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔میں نے کالم اپنے فیس بک پیج پر شیئر کیا‘ جہاں چھ لاکھ کے قریب دوست موجود ہیں تو عجیب سی حیرانی ہوئی کہ کمنٹس کے سیکشن میں ڈسڑکٹ پولیس افسر لیہ حسن اقبال نے کمنٹ کیا ہوا تھا۔ میں نے دوبارہ پڑھا کہ شاید مجھے کوئی غلطی لگی ہو۔ڈی پی او صاحب نے اس کالم‘ جس میں لیہ‘ جھنگ‘ شور کوٹ اور گڑھ مہاراجہ کے علاقوں میں مسافروں اور عام لوگوں کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی گئی تھی‘ کے جواب میں لکھا تھا کہ انہوں نے اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اقدامات کیے ہیں اور فوری طور پر گنے کی ٹرالیوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو حل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی لیہ پولیس کے فیس بک پیج پر ڈی پی او حسن اقبال نے اپنا موبائل اور دیگر نمبرز دے کر کہا: کہیں بھی گنے کی ٹرالیوں کی وجہ سے مسئلہ ہو یا روڈ بلاک ہو تو فوراً اطلاع دی جائے‘لیہ پولیس مدد کرے گی۔ میں نے فیس بک پر جواب میں لکھا کہ لیہ شوگر مل انتظامیہ کے ساتھ بھی ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاکو بات کرنی چاہیے کہ کبھی ملیں گنا مختلف پوائنٹس سے خود اٹھواتی تھیں‘ جس سے سڑکوں پر ٹرالیوں کی بھرمار نظر نہیں آتی تھی‘اب ملوں نے گنا خود اٹھوانا بند کر دیا ہے‘ جس سے نہ صرف کسانوں پر ٹرانسپورٹ کا خرچہ بڑھ گیا ہے بلکہ سڑکوں کی حالت بھی خراب ہوگئی ہے۔ خیر حسن اقبال کہنے لگے: وہ ڈی سی صاحب سے بات کریں گے اور یہ معاملہ لیہ شوگر مل کے ساتھ اٹھائیں گے۔ میں نے کہا : سیس فنڈ کا بھی پتہ کر لیں کہ ملیں کسانوں سے یہ کٹوتی کرتی ہیں کہ ان علاقوں میں سڑکیں بنائی جائیں گی جہاں سے گنا خریدا جاتا ہے۔ وہ سیس فنڈ ز کہاں جارہا ہے؟ کیونکہ فارم ٹو مارکیٹ روڈز کی حالت بہت خراب ہے۔اس کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب میجر اعظم سلیمان صاحب کا میسج تھا کہ ڈپٹی کمشنر جھنگ کو بھی میسج کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں گنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایشوز کو ایڈریس کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جھنگ میں بھی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
اعظم سلیمان سے صرف ایک ملاقات بہت عرصہ پہلے اسلام آباد میں کہیں کھانے پر ہوئی تھی ‘جب وہ سیکرٹری داخلہ تھے۔ مجھے ایک کم گو اور سمجھدار افسر لگے جو باتیں کم اور کام زیادہ کرتے ہیں۔جب بھی کوئی اہم ایشو اپنے شو میں اٹھایا یا ٹوئٹر پر بات کی تو میجر اعظم سلیمان نے خود ان چیزوں یا باتوں پر فیڈ بیک دیا‘ جس سے مجھے لگا کہ وہ میری کہی ہوئی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ جس کے بعد میں مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے لگ کیا کیونکہ کچھ افسران انہیں سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ خیر میجر اعظم سلیمان صاحب نے جھنگ کی انتظامیہ کی طرف سے بنایا گیا وہ اشتہار بھی بھیجا جو ان کی ہدایت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ میں نے میجر اعظم سلیمان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے کسانوں اور مسافروں کے ایشوز کو اہمیت دی؛ تاہم میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ میجر صاحب حیرانی ہورہی ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب کو تو اس بات کی فکر ہے کہ ایک کالم میں لیہ شورکوٹ اور جھنگ کے علاقوں میں گنے کی ٹرالیوں کی وجہ سے مسافر رل گئے ہیں‘ آپ نے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر بہادر کو فون پر ہدایات بھی دی ہیں ‘ تاہم مجھے حیرانی ہے کہ ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او جھنگ کو لاہور سے چیف سیکرٹری یا آئی جی کے دفتر سے فون یا ہدایت جائے گی تو ٹرالیوں میں پھنسے مسافروں کی مدد کریں گے؟ اگر میں کالم نہ لکھوں‘ چیف سیکرٹری وہ کالم نہ پڑھیں تو پھر کسی ضلعے کا ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او خود سے جاننے کی کوشش نہیں کرے گا کہ اس کے ضلعے میں عوام کی کیا حالت ہے‘ سڑکیں کس حال میں ہیں‘ ان اضلاع سے گزرنے والے مسافرکیسے سردیوں کی راتوں میں گھنٹوں بے بسی سے پھنسے رہتے ہیں اور انہیں کہیں سے پولیس یا انتظامیہ سے مدد نہیں ملے گی؟
یہ کیسے افسران جھنگ جیسے ضلعے میں پوسٹ کیے گئے ہیں جو بابو بن کر حکومت کررہے ہیں۔ چیف سیکرٹری کو جتنی فکر ہے اتنی ان کے ماتحت کو کیوں نہیں؟ گنوں کے اس موسم میں جھنگ میں یہ افسران سارا دن کیا کرتے ہیں اگر انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے علاقے میں کیسے ہر طرف ٹریفک جام ہے‘ ٹرالیاں الٹی پڑی ہیں‘ سڑکوں پر دونوں اطراف سے گنے کی ٹرالیوں نے راستہ بند کردیا ہے اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ سب کچھ ان بابوز نے اللہ پر چھوڑ دیا ہے کہ رات بھر ٹرالی مالکان خود لڑیں مریں کہ کس کا قصور ہے ‘کس نے لائن توڑی یا کون سا ڈرائیور گاڑی پیچھے کرے گا۔
میں نے کہا :سر جی ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں‘ آپ کی مہربانی کہ کالم میں لوگوں کی مشکلات پڑھ کر قدم اٹھایا۔ ڈی پی او اور ڈی سی او جھنگ کو ہدایات دیں‘ ورنہ کون کرتا ہے آج کل۔ اس سے لگتا ہے آپ پنجاب میں واقعی بیوروکریسی کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تاکہ گورننس بہتر ہو اور لوگوں کو کچھ سکون اور تبدیلی محسوس ہو۔ شاید اسی لیے عمران خان نے آپ کوچیف سیکرٹری بنا کر پنجاب بھیجا ہے اور اب تک کم عرصے میں آپ نے کوشش بھی اچھی کی ہے اور کچھ اچھے افسران کو اضلاع میں لگایا گیا ہے جن کی ریپوٹیشن اچھی بتائی جارہی ہے‘ لیکن اگر جھنگ کے ڈی پی او یا ڈی سی او کو جھنگ کے ایشوز اور مسائل کا پتہ چیف سیکرٹری یا آئی جی کے دفاتر سے جانے والی فون کالز سے چلے تو پھر وہ افسران اس قابل نہیں کہ وہ ڈی سی یا ڈی پی او لگ سکیں۔ میں نے کہا: معاف کیجیے گا اگر میں چیف سیکرٹری ہوتا تو یقین کریں ان افسران کی اس نالائقی کے بعد میں ڈی سی اور ڈی پی او کو برطرف کرتا اور ساتھ ہی ایک پریس ریلیز بھی جاری کرتا جس میں عوام کو بتایا جاتا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ فلاں ضلعے میں افسران کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ضلعے کے عوام کس بڑی مصیبت کا شکارہے۔ جنہیں لاہور سے بتایا جارہا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ڈی سی یا ڈی پی او کی ڈیوٹیاں پوری کرسکیں‘ لہٰذا انہیں معطل کر کے او ایس ڈی بنایا جارہا ہے۔ میں نے کہا :میجر اعظم سلیمان صاحب یقین کریں یہ اتنا بڑا میسج ہوتا کہ پورے پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز نے راتوں رات ٹھیک ہوجانا تھا اور عوام کی بہتری ہونے لگتی۔میجر اعظم سلیمان نے کہا: میں نے بیوروکریسی کو تین ماہ دیے ہوئے ہیں کہ وہ رزلٹ دیں۔ نہیں دیں گے تو اس طرح ہوگا کہ جس ضلعے کا ڈپٹی کمشنر یا کمشنراور دیگر افسران ڈلیور نہیں کریں گے وہ معطل ہوں گے۔ او ایس ڈی لگیں گے اور پریس ریلیز بھی جاری ہوگا کہ افسران کو کس وجہ سے معطل کیا یا ہٹایا گیا ہے۔
بیوروکریسی کی کھال بھی بہت موٹی ہے اور اتنی آسانی سے یہ کام کرنے والی نہیں‘ لیکن کم گو طبیعت کے مالک اعظم سلیمان بھی سنجیدہ لگتے ہیں کہ تین ماہ کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوتے ہی اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنرز اور دیگر افسران کو رعایت نہیں ملے گی۔دیکھتے ہیں اس مہا بھارت میں کون جیتتا ہے... کیونکہ سیانے کہتے ہیں پرانی عادتیں مشکل سے جاتی ہیں۔ چیف سیکرٹری اعظم سلیمان عزم کئے ہوئے ہیں کہ تین ماہ کا وقت پورا ہونے کے بعد رعایت نہیں ہوگی اور بیوروکریسی بھی قسم کھائے ہوئے ہے کہ وہ خود سے کوئی کام نہیں کرے گی‘ جب تک کہ جھنگ کے ڈی سی اور ڈی پی او کی طرح انہیں بھی لاہور سے فون پر ہدایات نہیں ملتیں۔