پاکستان اور ہندوستان جیسے معاشروں میں ظلم کرنا شرم نہیں بلکہ بہادری اور طاقت کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ کمزور کا گلا اور طاقتور کے پائوں ہی سمجھداری تصور کئے جاتے ہیں۔ہندوستان سے بھی کمزوروں پر ظلم کی کہانیاں منظرعام پر آتی ہیں تو حیرانی نہیں ہوتی۔جو خطے طویل عرصے تک غلام رہ چکے ہوں ان میں نفسیاتی غلامی بہت اندر تک چلی جاتی ہے۔ وہ اپنے آقائوں اور مالکوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے سے کمزور طبقات کے لیے ظالم ثابت ہوتے ہیں۔یہ سب باتیں مجھے رانا اشرف کی ایک رپورٹ پڑھتے ہوئے ذہن میں آئیں۔اس رپورٹ کے مطابق پنجاب کے گاؤں مڈھ رانجھا سے تعلق رکھنے والی رانی بی بی نے زندگی کے 19 قیمتی سال اپنے خاوند کے قتل کے جھوٹے الزام میں جیل میں گزار دیے۔رانی بی بی کو 1998ء میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا‘ گرفتاری کے وقت اس کی عمر 13 سال تھی۔ قتل کے الزام میں اس کے ماں باپ اور بھائی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔باپ قید کے دوران مر گیا جبکہ بھائی بھی 15 سال قید میں گزارنے کے بعد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا ہے۔2014ء میں ایک فلاحی تنظیم FFR نے رانی کی اپیل لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی اور 2017ء میں ہائیکورٹ نے انہیں رہا کر دیا۔لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ جیل انتظامیہ کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے آپ کو بے گناہ قید کاٹنی پڑی ۔
رانی بی بی کی رہائی کے لیے کام کرنے والی فلاحی تنظیم نے پنجاب حکومت کے خلاف ہرجانے کی پٹیشن دائر کر دی ہے اور انصاف کی عدم فراہمی کے بدلے معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔تنظیم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت غلط سزاؤں کے خلاف کارروائی کے لیے قانون سازی کرے ۔ 2019 ء میں اس فلاحی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 2010ء سے 2018ء کے دوران سزائے موت کے 310 کیسز کی سماعت کی اور ہر پانچ میں سے دو قیدیوں کو جھوٹے الزام کے تحت سزا ہونے کا انکشاف ہوا۔رانی بی بی نے ہرجانے کے دعوئے میں پنجاب حکومت سے کوئی خاص رقم کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ معاوضے میں ایک بستر‘ ایک کمبل‘ کپڑے‘ واشنگ مشین اورایک چولہے کی مانگ کی ہے۔رانی کا کہنا تھا کہ اسے معلوم نہیں معاوضے کی کتنی رقم ملتی ہے‘ لیکن امید ہے پنجاب حکومت ہرجانے کے طور پر اتنی رقم دے گی کہ یہ چیزیں میں اپنے گھر کے لیے خرید سکوں۔رانی بی بی اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ چار ماہ قبل اس نے دوسری شادی کر لی ہے‘ وہ اور اس کا خاوند لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزارا کر رہے ہیں‘لیکن لاک ڈاؤن کے باعث ان کا روزگار بھی بند ہے۔
یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے ایک دفعہ پھر پینڈرل مون کی شہرہ آفاق کتاب Strangers in Indiaیاد آئی جو انگریز کمشنر نے 1934ء میں اپنے ایک ماتحت افسر گرین لین کے ساتھ ہونے والی بحث پر لکھی تھی۔اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے ایک سو سال پہلے بھی بے گناہ پھانسی چڑھ جاتے تھے اور آج بھی چڑھ رہے ہیں یا جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔گرین لین ابھی جوان تھا‘ لہٰذا وہ بے گناہوں کو پھانسی لگتے اور جیلوں میں بند ہوتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ گرین لین اور دوسرے ہندوستانی مجسٹریٹ رات دن اَن پڑھ کسانوں کی شہادتیں اور بیانات قلم بند کرتے ‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نوے فیصد شہادتیں جھوٹی ہیں۔ ہندوستان میں جھوٹی گواہیاں عام تھیں‘ مخالفت اور موافقت میں گواہی ہر لمحہ دستیاب ہو سکتی تھی۔گرین لین حیران ہوتا کہ غریب اور سادہ لوح انسانوں پر یہ قانون کیوں تھوپ دیا گیا۔ گورنر جنرل وارن ہیسٹینگز نے ان قوانین کو ہندوستان کے ساتھ سخت ناانصافی قرار دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا یہ قوانین لوگوں کے سماجی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔انگریزوں کو شدت سے احساس تھا کہ ہمیں سادہ اور مختصر قوانین بنانے چاہئیں اور ایسی عدالتیں بنانی چاہئیں ‘جو وکلا کے ہتھکنڈوں اور گواہوں کی جعل سازی سے محفوظ رہیں۔ ایسی عدالتیں جہاں ہر شخص آزادی سے گواہی دے سکے۔ایک وقت تو یہ بھی آیا کہ افواہ تک کو عدالت میں شہادت تسلیم کیا جانے لگا۔ جلد ہی بڑی کچہری اور وکلاکی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا اور وہ تمام قانونی مشینیں بن گئیں جنہوں نے ہر جگہ ہولناکی پھیلا دی۔ لیکن کیا نتیجہ نکلا؟ سادہ لوح انسان جھوٹ بولنے کے کام میں ماہر ہوتے گئے۔ غیر ذمہ دار وکلاکا کچہریوں میں اجتماع رہنے لگا ‘ وہ رشوت ستانی کی فضا میں سانس لینے لگے اور مقدمہ بازی ہندوستانیوں کا قومی مشغلہ بن گیا۔ عدالتیں دشمنوں اور مخالفوں کو سزا دلوانے کی مشینیں بن گئیں۔ عدالت ایک ایسی تضحیک گاہ تھی جس میں جج‘ وکیل ‘گواہ اور پولیس مسخرہ پن سے کام لیتے ہوئے اپنا پارٹ ادا کرتے ہوئے ان شہادتوں کو استعمال میں لاتے تھے جن کے متعلق انہیں پتا تھا کہ وہ جھوٹ ہیں۔ اس نظام کو وکلاکی تائید حاصل تھی ‘لہٰذا اسے کوئی بدلنے کو تیار نہ تھا۔ بعض انگریز افسروں نے مجسٹریٹ لگنے سے انکار کر دیا اور اپنی پوسٹنگ دیگر محکموں میں کرا لیں۔ گرین لین کو اس کا سینئر افسر سمجھاتا تھا کہ تمہارا کیا خیال ہے گورنر جنرل اور دوسرے اعلیٰ انگریز افسران جو تیس سال سے اس نظام کی بے انصافی پر شور مچا رہے ہیں اور اس وجہ سے لوگوں کو بداخلاق ہوتا دیکھ رہے ہیں‘ کیا اب اتنی مدت بعد وہ اسے کسی اور نظام کے ساتھ تبدیل کرنا گوارا کر سکیں گے؟یہ نظام یونہی چلتا رہے گا‘ لہٰذا دماغ سوزی کیوں کی جائے‘ چاہے بے گناہ کو جیل ٹھونس دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ پھانسی پر بھی لٹکا دیا جاتا ہے۔ اگر پولیس معزز انسانوں سے جھوٹی گواہیاں طلب کرتی ہے تو تم اس حقیقت سے انکار کیوں کرتے ہو؟ یہ تو ایک آسان طریقہ ہے جس سے تم جلد مانوس ہوجائو گے۔ قاتل روپیہ یا سونا دے کر سزا سے بچ سکتا ہے‘ جسمانی تشدد سے سچ بلوایا جاتا ہے۔ یہ ہتھکنڈے ہمارے انگلینڈ میں نارمن آباواجداد کے تھے‘ لیکن یہ ہندوستان کی دیہاتی آبادی کے لیے نہایت موزوں ہیں‘ اگرچہ مغربی روشن خیالی اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ جب تک ہمارا راج ہندوستان میں ہے یہ طریقِ قانون کبھی نہیں بدلے گا۔تم جانتے ہو اگر برطانوی باشندوں کو علم ہو جائے کہ ہندوستان کی عدالتوں میں کیا کچھ ہوتا ہے تو انہیں بے حد صدمہ ہوگا‘ وہ ہرگز یہ بات نہ مانیں گے۔میں تو سمجھتا ہوں ہندوستانی پولیس کے پاس بہت خون موجود ہوگا جب دل چاہا سفید کپڑوں پر لہو ڈال کر برآمدگی دکھا دی۔
گورے مجسٹریٹ افسران سمجھتے تھے کہ یہ فوجداری قوانین ہندوستان جیسے معاشرے کے لیے نہیں ‘بلکہ یہ یورپی معاشروں کے لیے تھے جہاں جھوٹی گواہی بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ وہی قوانین اٹھا کر ہندوستان کے پس ماندہ معاشرے پر انگریزوں نے تھوپ دیے کہ اس طرح یورپ اور ہندوستان کا معاشرہ برابر کا انصاف لے گا۔اس قانون نے ہندوستانی پولیس کے لیے آسانی پیدا کر دی کہ کوئی بھی قتل ثابت کرنے کے لیے ایک دو عینی شاہد چاہئیں تھے۔ عینی شاہد نہ ملتے تو پولیس خود ہی عینی شاہد پیدا کر لیتی۔ گرین لین کا کہنا تھاکہ ویسے بھی ہندوستانیوں کے نزدیک جھوٹ بولنا کوئی جرم نہیں‘ چاہے ان کی جھوٹی گواہی سے بندہ پھانسی لگ جائے یاعمر بھر جیل میں رہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے گرین لین نے کہا تھا کہ وہ روزانہ اپنی عدالت میں یہ کام ہوتے دیکھتا ہے کہ کیسے قتل میں پولیس آرام سے جھوٹے گواہ پیش کرتی ہے اور ہندوستانی اعتماد کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور وہ حیرانی سے ان جھوٹے لوگوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے جن کے نزدیک ایک انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
گوروں کی گفتگو پڑھتے ہوئے مجھے رانی یاد آئی جو 13 سال کی عمر میں جیل گئی اور جب 19 سال بعد باہر آئی تو اس کا ہرجانے کا دعویٰ دیکھیں کہ اسے صرف اتنے پیسے چاہئیں کہ وہ ایک بستر‘ ایک کمبل‘ چند کپڑے‘ واشنگ مشین اورایک چولہا خریدسکے۔ رانی کی 19 برس قید کے بدلے ہرجانے کے طور پر اشیاکی فہرست پڑھ کرپہلے ہنسی اور پھر رونا آیا۔پھر اس انگریزافسر کی پیش گوئی یاد آئی جس نے 1934ء میں کہا تھا کہ چھوڑو جی ہم دماغ سوزی کیوں کریں‘ہندوستان میں کچھ نہیں بدلے گا۔ یہاں یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔