وزیر اعظم جناب عمران خان نے دنیا ٹی وی کے سینئر اینکرپرسن کامران خان کے ساتھ انٹرویو میں کچھ ایسے اعتراف کیے ہیں جن کا رونا میرے اور عامر متین جیسے لوگ کئی سالوں سے روتے آ رہے تھے کہ ایک دن خان صاحب کی بے نیازی رنگ لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تجربہ نہ تھا حکومت کا اور یہی کچھ پنجاب میں ہوا کہ وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی کام ابھی سیکھ رہا ہے‘ دھیرے دھیرے سب سیکھ جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی پیدائشی جینئس نہیں ہوتا اور دھیرے دھیرے بندہ کتابوں، تجربوں اور حالات سے سیکھ جاتا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کبھی جناب وزیر اعظم نے سیکھنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اس ملک میں حکومت کے سربراہ بن گئے تو انہیں کن کن صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہیے تاکہ گورننس میں مسائل پیدا نہ ہوں؟ اور یہ کہ سربراہ حکومت کے لیے کون کون سے لوازمات ضروری ہوتے ہیں؟
وہ کئی دفعہ اپنے انٹرویوز میں کہہ چکے تھے کہ ایک دن وزیر اعظم بنیں گے اور بن کر دکھایا بھی۔ کبھی وہ شرمیلے تھے‘ بات نہیں ہوتی تھی‘ اور پھر وہ دن بھی دیکھا کہ ان سے اچھی تقریر شاید ہی پاکستان میں کوئی سیاستدان کر سکتا ہو۔ لوگ عمران خان کا مقابلہ بھٹو کے ساتھ کرنے لگ گئے تھے کہ پاپولر بھی بھٹو جیسے ہیں اور تقریریں بھی ان کی طرح شاندار کرتے ہیں‘ لیکن ایک فرق دونوں میں تھا‘ جو اَب محسوس رہا ہے۔ بھٹو بہت کتابیں پڑھتے تھے، ملکی اور غیر ملکی حالات سے خود کو بہت باخبر رکھتے تھے۔ بھٹو جلدی فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ جناب وزیر اعظم کے فیصلے روز بدل رہے ہوتے ہیں‘ جسے لوگ یُو ٹرن کا نام دیتے ہیں۔ بھٹو کے پاس ایشیا کی بہترین لائبریری تھی اور انہیں بہت پڑھا لکھا وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا۔ محسوس ہوتا ہے‘ موجودہ وزیر اعظم کا مطالعہ صرف مسلم ہسٹری تک محدود رہا۔ غالباً وہ جدید کتابیں نہیں پڑھتے۔ خان صاحب کو پارلیمنٹ کا بھی کوئی خاص تجربہ نہیں‘ کسی قائمہ کمیٹی کے ممبر نہیں بنے‘ پارلیمنٹ کے وقفۂ سوالات میں نہیں بیٹھے۔ ممکن ہے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے بارے میں بھی زیادہ نہ جانتے ہوں۔ وہ کبھی کبھار پارلیمنٹ آتے اور ایک آدھ تقریر کر کے نکل جاتے۔ غالباً ان کا خیال تھا‘ بس یہی سب کچھ ہے‘ یہ کون سا مشکل کام ہے‘ یہ کون سی راکٹ سائنس ہے۔
ہم اس وقت بھی کہتے تھے: کل کو حکومت مل گئی تو آپ کو کچھ پتہ نہیں ہو گا اور آپ بیوروکریسی کے ہاتھوں کھیلیں گے۔ پی اے سی میں چالیس وزارتوں کے سیکرٹری آتے ہیں اور وہاں وفاقی سیکرٹریز کا پتہ چلتا ہے کون کتنے پانی میں ہے۔ اگر پی اے سی میں بیٹھتے تو پتہ ہوتا کہ حکومت، ایشوز، مسائل اور چیلنجز کیا ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے۔ یہ بھی پتہ ہوتا کہ فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں اور اچھے بیوروکریٹ میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر انہیں بیوروکریسی کے مزاج سے تعارف ہو جاتا۔ جب دس سال ممبر پارلیمنٹ رہے تو فارن منسٹری، فنانس، داخلہ اور پلاننگ کی کمیٹیوں میں بیٹھنا چاہیے تھا تاکہ ان ایشوز کو سمجھتے۔ غالباً وہ ایک دن بھی ان میں سے کسی کمیٹی میں نہیں بیٹھے‘ نہ کسی کی بات سنی‘ نہ اپنی سنائی‘ لہٰذا آج جب ہمیں کہتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں تھا‘ حکومت کس بلا کا نام ہے تو حیرت نہیں ہوتی۔ جب وزیر اعظم کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو یہ اعتراف کیا تھا کہ انہیں ہرگز علم نہ تھا‘ حکومت میں اتنے مسائل ہوتے ہیں اور وہ ان مسائل سے بے خبر تھے۔ باخبر کیسے ہو سکتے تھے کیونکہ جہاں ان سب باتوں کا ذکر ہوتا ہے وہاں تو وہ کبھی گئے ہی نہیں۔
اب اگر حکومت کا علم نہیں تھا تو کیا چوائس تھی؟ بلا شبہ کسی وزیر اعظم کے لیے ضروری نہیں کہ اسے سب کچھ پتہ ہو‘ وہ سب جانتا ہو۔ ایسی صورت میں سمجھ دار سربراہ حکومت تین کام کرتے ہیں: پہلا‘ وہ اپنی بیوروکریٹک ٹیم بہت طاقتور اور قابل بناتے ہیں تاکہ وہ پورا نظام چلائے‘ دوسرا‘ وہ کابینہ اعلیٰ لوگوں کی تشکیل دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ حکومتی کام کو آگے بڑھا سکیں۔ تیسرا‘ صوبوں میں قابل بندے لگاتے تاکہ ان پر بوجھ نہ پڑے اور وہاں کا وزیر اعلیٰ اور وزرا خود پرفارمنس دکھائیں‘ ہر وقت ان کی طرف نہ دیکھتے رہیں۔
تو کیا جناب عمران خان نے یہ تینوں کام کیے؟
بیوروکریسی سے شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے لیے ایسے افسر کا انتخاب کیا جو یقیناً وفادار ہو گا‘ لیکن اسے فیڈرل حکومت اور پھر پنجاب کی بیوروکریسی کا تجربہ نہیں۔ وہ ایک جونیئر افسر تھا ایک چھوٹے صوبے کو چلا کر آیا تھا۔ پھر آگے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں سے دفتر بھر دیا۔ یوں ایک جونیئر افسر کی تعیناتی سے پنجاب کی بیوروکریسی ناراض ہوئی۔ اس نے ایک جونیئر افسر سے تعاون نہ کیا‘ یوں کام ٹھپ ہو گیا۔
دوسرا کام تھا‘ کابینہ کی ٹیم اعلیٰ بناتے تاکہ وہ سب مل کر ملک کو گمبھیر مسائل سے نجات دلاتے۔ ایسا بھی نہ ہو سکا۔ پھر ہر بندہ ایسی پوسٹ پر لگایا گیا جس کا اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ دو تین مثالیں دیکھ لیں۔ اعظم سواتی کا وزارت پارلیمنٹ سے کیا تعلق یا خالد مقبول صدیقی‘ ایک میڈیکل ڈاکٹر‘ کا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا؟ یا پھر عامر کیانی کا ادویات سے کیا تعلق تھا کہ پورا وفاقی وزیر بنا دیا گیا؟ عوام کی جیبوں پر ادویات کی مد میں چالیس ارب سے زائد کا بوجھ ڈالا گیا اور آج کل وہ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ پھر مشیر ایسے لگائے جو سب ذاتی دوست ہیں یا پارٹی کو چندہ دیتے رہے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے کاروبار تھے اور وہ اپنے اپنے کاروبار کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں کی نا تجربہ کار ٹیم کا کاروباری دوستوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ جہانگیر ترین، ترین کے ماموں شمیم احمد خان، خسرو بختیار کے بھائی، مونس الٰہی اور دیگر کی ملوں نے عوام کی جیب سے تین ارب روپے کی سبسڈی نکال لی اور ساتھ میں شوگر کی قیمت کو پچپن روپے سے بہتّر روپے تک بھی لے گئے۔ اس وقت چینی کی قیمت سو روپے فی کلو سے اوپر ہے۔ اب پندرہ لاکھ ٹن چینی امپورٹ ہو رہی ہے۔ یہی حال گندم کا ہوا۔ ابھی پنجاب میں گندم کا سیزن ختم نہیں ہوا تھا کہ آٹا مارکیٹ سے غائب ہو گیا اور بہت سارے لوگوں نے پیسہ بنا لیا۔ اب گندم بھی امپورٹ ہو رہی ہے۔
تیسرا آپشن تھا‘ پنجاب‘ خبیر پختون خوا میں ایسے وزرائے اعلیٰ لگاتے جو ڈیلیور کرتے۔ عثمان بزدار صاحب کا نام جناب وزیر اعظم نے بھی پہلی دفعہ ہی سنا ہو گا۔ کسی نے کان میں پھونک دیا ہو گا کہ 'ع ‘نام کا بندہ بہترین رہے گا‘ لہٰذا وہ عارف علوی ہوں یا عثمان بزدار‘ سب کو اعلیٰ عہدے دے دیے۔
اس ناتجربہ کاری کا اثر عوام بھگت رہے ہیں۔ بزدار صاحب سے پوچھیں تو کہتے ہیں: میں نیا نیا ہوں‘ سیکھ رہا ہوں۔ جناب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ابھی سیکھ رہے ہیں۔ جب یہ لوگ سیکھ جائیں گے تو پھر یقینا ڈیلیور بھی کریں گے۔ اس دن کا انتظار آپ بھی کریں‘ ہم بھی کرتے ہیں۔ ویسے قوم کو اتنی جلدی کیا ہے، اتنا سیاپا کیوں ڈالا ہوا ہے۔صبر کریں بچے حکومت کرنا سیکھ رہے ہیں، سیکھ لیں گے تو سب ٹھیک کر لیں گے۔ کیا ہوا جو ادویات کے نام پر‘ چینی کے نام پر اربوں روپے جیبوں سے نکال لئے یا لوگ آٹا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
پچھلے کرپٹ تو موجودہ نالائق نکلے ہیں۔ کرپٹ خطرناک تھے یا نا اہل؟ قسمت دیکھ لیں‘ ہمیں انتخاب بھی کرنا پڑا تو کرپٹ اور نااہلوں میں سے۔ تیسرا آپشن نہیں تھا۔ آگے سمندر تو پیچھے کھائی۔ کھائی میں گرو یا ڈبکیاں کھائو۔ کرپٹ حکمران قوم کو کھائی میں دھکا دے گئے تو نا اہل حکمران سمندر میں ڈبکیاں دے رہے ہیں۔