سندھی ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ کا نام پہلی دفعہ گائوں میں ٹی وی سکرین پر 1985 میں سنا اور پڑھا تھا اور ان سے ملاقات پینتیس برس بعد 31 مئی کو ہمارے دوست اور دانشور پروفیسر فتح ملک کے ہونہار صاحبزادے طاہر ملک کے گھر ڈنر پر ہوئی۔ پروفیسر طاہر کو پتہ تھا کہ میرا 80 کی دہائی میں نورالہدیٰ شاہ کے لکھے ڈرامے ''جنگل‘‘ سے کتنا رومانس جڑا تھا لہٰذا ان کا پیغام تھا کہ آج رات ڈنر پر وہ ہمارے گھر آرہی ہیں‘ تم بھی آ جانا۔
میرے لیے یہ ایک فین لمحہ تھا‘ اگرچہ دو تین سال قبل نورالہدیٰ شاہ سے کراچی میں سرسری سلام دعا اس وقت ہوئی تھی جب میں اسلام آباد سے کراچی سب کے گرو شکیل عادل زادہ کی صاحبزادی کی شادی میں شرکت کیلئے گیا تھا۔ میں دیوان صاحب کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے شادی ہال میں پہنچنے کی جتنی جلدی تھی اقبال دیوان اتنی ہی سستی دکھا رہے تھے۔ میرے ذہن پر پنجاب کا قانون سوار تھا کہ رات دس بجے بتیاں گل ہو جاتی ہیں اور ہال بند۔ اقبال دیوان‘ جو شاندار بیوروکریٹ رہے اور بہت خوبصورت کہانیاں لکھتے ہیں‘ بولے: سائیں! یہ سندھ ہے یہاں لوگ دس بجے شادی ہال جانا شروع کرتے ہیں‘ فکر نہ کریں شادی مس نہیں ہوگی۔ وہی ہوا‘ ہم نو دس بجے کے قریب وہاں پہنچے تو ابھی لوگوں کی آمد شروع ہورہی تھی اور ہال تقریباً خالی تھا۔ شکیل عادل زادہ صاحب نے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کا خیال تھا‘ انہوں نے واٹس ایپ پر رسماً مجھے دعوت نامہ بھیج دیا تھا اور میں بھی رسماً واٹس ایپ پر مبارکباد دے کر جان چھڑا لوں گا۔
اس لیے مجھے اپنے سامنے دیکھ کر ان کے منہ سے نکلا: ارے آپ۔ خیر‘ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک میز پر لے گئے اور بولے ان سے ملیے یہ ہیں نورالہدیٰ شاہ۔ میز پر باقی چہرے اجنبی تھے‘ سوچا‘ یہاں بیٹھ گیا تو شاید ان سب کی محفل خراب ہوگی لہٰذا سلام کرکے اگلی میز پر بیٹھ گیا۔ دل میں تمنا ہی رہی کہ ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کی جاتیں‘ کوئی آٹوگراف لیا جاتا‘ کوئی ساتھ تصویر کھنچواتے۔ میری یہ تمنا اب طاہر ملک نے پوری کر دی۔
ڈرائنگ روم میں پروفیسر فتح ملک، پروفیسر شاہد صدیقی، طاہر ملک اور نورالہدیٰ شاہ‘ موجود تھے۔ نورالہدیٰ شاہ کو سلام کرنے بعد کہا: آپ مجھے نہیں جانتی ہوں گی لیکن میں آپ کو 1985 سے جانتا ہوں جب نیا نیا ٹی وی ہمارے گائوں آیا اور آپ کا لکھا ہوا ڈرامہ جنگل ٹیلی کاسٹ ہونا شروع ہوا۔ سکینہ سموں اور محمد شفیع کے کرداروں نے پورے گائوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ماموں منظور کے گھر کی حویلی میں موجود اکیلے ٹی وی کے گرد پورا گائوں اکٹھا ہوجاتا اور پن ڈراپ خاموشی میں ڈرامہ دیکھا جاتا۔ سب لوگ سانس روک کر رکھتے اور اس وقت سانس لیا جاتا جب وقفہ آجاتا۔
نورالہدیٰ شاہ مسکرا پڑیں۔ مجھے علم تھاکہ انہوں نے ساری عمر اس طرح کے کمنٹس سنے ہوں گے۔ زندگی میں شہرت شروع میں اچھی لگتی ہے، لوگوں کا آپ کی تعریف کرنا اچھا لگتا ہے، اپنے ساتھ فوٹو کھنچوانا، آٹوگراف لینا سب کچھ دل کو بھاتا ہے‘ پھر آپ کو ایک دن احساس ہوتا ہے آپ کو شہرت اور نام تو مل گیا‘ لیکن آپ کی سب سے قیمتی شے آزادی آپ سے چھن گئی ہے۔ آپ ایک پبلک پراپرٹی بن چکے ہیں۔ ایک سٹیج وہ بھی آتی ہے‘ کوئی تعریف کرنے لگے تو آپ ڈر جاتے ہیں کہ وہی پرانے کمنٹس وہی پرانی کہانی اور وہی فین۔ زندگی میں فین نہ ہوں تو بھی زندگی بے رنگی اور پھیکی اور اگر فین بن جائیں تو بھی مسلسل شہرت کے قیدخانے میں بند۔
نورالہدیٰ شاہ نے جب جنگل جیسا شاہکار ڈرامہ لکھا تو ان کی عمر صرف چھبیس برس تھی۔ ایک نوجوان لکھاری نے پورے سندھ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جنگل ڈرامہ سندھ کے جاگیرداری اور وڈیرہ کلچر پر ایک کاری وار تھا۔ سندھی جاگیردار اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں ہونے دیتے تھے تاکہ جائیداد تقسیم نہ ہو اور یہ ڈرامہ اسی طرح کے کرداروں اور ان کی سوچ کے گرد گھومتا تھا۔ اس دوران انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں۔ سندھ کے بعض حلقے ناراض تھے کہ اس سے سندھ کا نام بدنام ہورہا ہے۔ نورالہدیٰ شاہ کے والدین بھی پریشان تھے کہ کوئی بیٹی کو نقصان نہ پہنچا دے۔ خیر ہارون رند جیسے بڑے پروڈیوسر نے ڈرامہ جاری رکھا۔
میں نے سوال کیا تو کہنے لگیں: زندگی میں صاف ظاہر ہے بڑے بڑے فین ملتے ہیں اور آپ کو compliments بھی ملتے ہیں لیکن ایک دفعہ ایسا compliment ملا کہ آج برسوں بعد بھی دل اور دماغ سے نہیں اترتا۔ ایک دفعہ نورالہدیٰ شاہ کراچی میں ایک جگہ اپنے دوست عزیزوں سے ملنے گئیں تو انہوں نے کہا: ان کے فلیٹ کے سامنے ان کی ایک فین رہتی ہے اور اس نے کہا ہوا ہے کبھی نورالہدیٰ شاہ سے ملاقات ہو سکے تو ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان شادی شدہ لڑکی گود میں ایک بچی اٹھائے وہیں آگئی۔ نورالہدیٰ شاہ کا خیال تھا کہ وہ بھی ایک روایتی فین ہوگی۔ وہی روایتی جنگل ڈرامے کی تعریف جن کی وہ اب تک عادی ہوچکی تھیں۔ وہ شادی شدہ جوان خاتون کہنے لگی: آپ کو پتہ ہے ڈرامے ''جنگل‘‘ نے کیسے میری زندگی ہمیشہ کیلئے بدل دی تھی۔ اگر وہ آج کراچی میں یہاں رہ رہی تھی تو اسکی وجہ ان کا لکھا ڈرامہ ''جنگل‘‘ تھا۔ اس ڈرامے نے ان کے پورے جاگیر دار خاندان کو ایک بھونچال کا شکار کر دیا تھا۔ یہ سن کر نورالہدیٰ شاہ پہلی دفعہ چونکیں اور اس نے اس جوان شادی شدہ خاتون اور اس کی گود میں موجود بیٹی کو دیکھا۔
اس نے بتایا کہ اس کا بھائی کراچی میں پڑھ رہا تھا۔ انہی دنوں ڈرامہ جنگل پی ٹی وی پر چل رہا تھا۔ اس نوجوان بھائی کو لگا جیسے جنگل ڈرامہ اس کے خاندان پر لکھا گیا ہے۔ وہی وڈیرہ اس کا باپ تھا‘ جو اپنی بیٹیوں اور اس کی بہنوں کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا۔ جوں جوں نوجوان طالب علم وہ ڈرامہ دیکھتا گیا اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھتی گئی وہ اپنی بہنوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونے دے گا۔
وہ سیریل ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا اور جونہی آخری قسط نشر ہوئی وہ اندرون سندھ اپنے گائوں روانہ ہو گیا۔ اس نے اپنے جاگیردار وڈیرے باپ اور بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی ہمیں یہ پرانی رسمیں ختم کرکے بہنوں کی شادی کرنی چاہیے۔ اس نوجوان کی اپنے باپ اور بھائیوں سے تلخی بڑھ گئی تو اس نے ایک فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے بہنوں کو کہا کہ اگر ان میں سے کوئی وڈیرہ ازم سے بغاوت کرکے شادی کرنے کو تیار ہے تو وہ اس کا ساتھ دے گا۔ صرف ایک بہن تیار ہوئی۔ وہ کراچی واپس آیا اور اپنے ایک کزن کو بہن سے شادی کے لیے تیار کیا۔ واپس گائوں گیا اور بہن کو بتایا۔ دونوں بہن بھائی اپنی زندگی کا بڑا خطرہ مول لینے پر تل گئے۔ رات کے اندھیرے میں بھائی اپنی بہن کو گھر والوں سے چھپا کر نکلا اور سیدھا کراچی لے آیا‘ جہاں اس کا کزن مولوی صاحب کو لے کر موجود تھا۔ وہیں اس نے اپنی بہن کا نکاح پڑھوایا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے اپنی بہن کو اس انجام سے بچا لیا ہے‘ جو سندھ میں جاگیردار گھرانے کر رہے تھے‘ جیسے جنگل ڈرامہ میں دکھایا گیا تھا۔ نورالہدیٰ شاہ گنگ ہو کر اس نوجوان لڑکی کی داستان سن رہی تھیں۔ انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ ان کا لکھا ڈرامہ ایک نوجوان پر اتنا اثر چھوڑے گا۔ وہ لڑکی بولی: آپ کا مجھ پر احسان ہے‘ آج میں کراچی کی آزاد دنیا میں سانسیں لے رہی ہوں تو اس کی وجہ آپ کا لکھا ڈرامہ جنگل اور میرا بھائی‘ دونوں ہیں۔ نورالہدیٰ شاہ کو زندگی میں بڑے کمنٹس ملے تھے‘ لیکن ایسی داد کبھی نہ ملی تھی۔ نورالہدیٰ شاہ کی حالت دیکھ کر وہ جوان خاتون بولی: آپ کو پتہ ہے میری اس شیرخوار بچی کا نام کیا ہے؟
جنگل کی لکھاری نورالہدیٰ شاہ کے چہرے پر تجسس ابھرا۔
اس بچی کی ماں بولی: میں نے اپنی اس بیٹی کا نام نورالہدیٰ شاہ رکھا ہے۔