انسانی مزاج ہے کہ وہ دوسروں سے ممتاز نظر آنا چاہتا ہے۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو کسی نے نہ کیا ہو اور اسے سب لوگ پہچاننے لگ جائیں۔ اس کی بلے بلے ہو جائے۔ وہ جہاں سے گزرے لوگ اسے سلام کریں۔ آج کے دور کی بات کریں‘ تو اس کے ساتھ سیلفی بنوائیں اور اس کی شان میں قصیدے لکھے جائیں۔ یہ شہرت کا جنون اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان خود۔ انسان اپنے ساتھ بہت ساری بیماریاں اور جرائم خود لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ آپ ان انسانی جبلتوں پر غور کرنا شروع کریں تو لگے گا انسان مجبور ہے۔ اس کے اندر جو سسٹم ڈال دیا گیا ہے وہ اس کو فالو کرتا ہے۔ اب تو سائنسی طور پر تحقیقات بھی ہو چکی ہیں کہ جرائم پیشہ اور قاتلوں کی ذہنی ساخت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ انہوں نے بڑے ہوکر جرائم کی دنیا میں پائوں رکھنا ہی رکھنا ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب معاشرے وجود میں آئے‘ وہ انسانی جرائم کو سو فیصد ختم کرنے میں ناکام رہے کیونکہ انسانی پروگرامنگ انہیں مجبور کررہی تھی۔
تو کیا پھر سب کو کھلا چھوڑ دینا چاہئے کہ یہ سب بے چارے مجبور ہیں؟ قرآن پاک میں بھی ان جبلتوں پر بات کی گئی ہے‘ ان سے منع کیا گیا ہے اور بعض کی اگر سزائیں مقرر کی گئی ہیں تو بعض کے بارے میں دعائیں بتائی گئی ہیں۔ خدا بھی جانتا ہے کہ اس نے جو مخلوق تخلیق کی ہے اس میں ایسی جبلتیں ہیں جو اسے جرائم کی طرف لے کر جائیں گی لہٰذا ان کا سدباب بھی بتایا گیا ہے۔ اس حسد کو ہی لے لیں۔ آپ لاکھ کوشش کریں لیکن زندگی کے کسی نہ کسی موڑ یا مرحلے پر آپ حسد کا شکار ہوتے ہیں‘ چاہئے سکول میں اپنے دوست کے فرسٹ آنے پر حسد کریں یا کسی کو اچھی نوکری یا دولت ملتے دیکھ کر۔ جو سہولتیں آپ کے پاس نہ ہوں اور وہی کسی دوسرے کے پاس ہوں تو پھر آپ کے اندر جلن اور حسد کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اب کچھ لوگ اس حسد اور جلن کو مثبت انداز میں لے کر خود اتنی محنت اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ سب چیزیں خود حاصل کر لیتے ہیں جو ان کو حسد پر مجبور کرتی تھیں۔ بعض لوگ وہ چیزیں دوسروں کے پاس دیکھ کر چھین لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ بعض ڈاکو بن کر وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ اور تو اور اگر انہیں موقع ملے گا تو وہ چیز توڑ پھوڑ دیں گے۔ پچھلے دنوں راولپنڈی فیض آباد پر طالب علموں نے مظاہرہ کیا تو وہاں سے ایک گاڑی گزری۔ چند طلبا نے اس گاڑی کو ٹھڈے اور ڈنڈے مار مار کر تباہ کر دیا۔ اب اس میں گاڑی والے کا قصور نہ تھا۔ ہاں اس کا قصور یہ تھاکہ اس کے پاس گاڑی تھی جو اس وقت وہاں موجود طالب علموں پاس نہیں تھی۔ جنہوں نے موٹر سائیکل پر سفر کیا ہو انہیں کسی کی پاس گاڑی دیکھ کر تپ چڑھتی ہے کہ اس کے پاس کیوں ہے میرے پاس کیوں نہیں ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو دیکھیں تو آپ ان طالب علموں کی اندرونی جنونی کیفیت دیکھ کر حیران ہوں کہ وہ کیسے اپنی تمام محرومیوں کا غصہ نکال رہے ہیں۔ آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ اگر کار سوار کی موٹر بائیک والے کے ساتھ ٹکر ہو جائے تو سب موٹر سائیکل والے کا ساتھ دیں گے کیونکہ وہاں رکنے والے سب بائیک والے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی موٹر سائیکل والے کو نہ غلط سمجھیں گے نہ غلط کہیں گے۔ ان سب کا خیال ہوتا ہے کہ سب غلطی اس کار والے کی ہے کیونکہ یہ کار پر سوار ہے جو ان سے بہتر گاڑی ہے۔ پھر اخبارات اور ٹی وی کے ڈیسک پر کام کرنے والے اکثر بائیک پر ہی دفتر آتے جاتے ہیں لہٰذا ان کی بھی ساری ہمدردیاں بائیک والے کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ اگلے دن اخبارات میں فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ تیز رفتار کار سوار نے موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی۔ آج تک میں نے نہیں پڑھا کبھی کہا گیا ہو یا لکھا گیا ہو کہ موٹر سائیکل والے کی غلطی سے ٹکر یا حادثہ ہوا۔ میں خود بڑ عرصہ موٹر سائیکل استعمال کرتا رہا ہوں لہٰذا مجھے اپنی بھی سائیکی کا اندازہ ہے۔
اب روز دیکھتا ہوں کیسے وہ سڑک پر تیز رفتاری سے بائیک چلائیں گے، اشارے توڑیں گے، گاڑیوں کے آگے سے کٹ ماریں گے، ریس لگائیں گے، گاڑیوں کو پیچھے سے ہٹ کریں گے لیکن اگلے دن اخبارات اور چینلز میں ساری غلطی کار والے کی بیان کی جاتی ہے کیونکہ جو خبر بنانے والے ہیں وہ خود بائیک پر سوار ہوتے ہیں۔ اس کا پورے معاشرے پر اثر ہوا ہے۔ جس طبقے کے پاس جو کچھ نہیں وہ اوپر والے کو دیکھ کر بائولا ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہر معاشرہ طبقات میں بٹ جاتا ہے اور یہ گروہ پھر اپنی اپنی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خواہشات کو دبا لیتے ہیں اور ایک حد تک کوشش کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ جائز طریقے سے پا لیں جو ان کے پاس نہیں۔ جو نہیں پا سکتے وہ بدمعاشی پر اتر آتے ہیں۔ انہیں شناخت چاہیے ہوتی ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت انہیں ادا کرنی پڑے۔
اسلام آباد کے ای الیون میں جو واقعہ ہوا جس میں عثمان مرزا نامی پراپرٹی ڈیلر نے ایک لڑکے اور لڑکی کے ساتھ جو بدسلوکی کی‘ وہ اس کی مثال ہے کہ آپ کو لگتا ہے آپ ہی بھگوان ہو‘ آپ ہی ان داتا ہو اور آپ ہی یہ دنیا چلاتے ہو۔ عثمان مرزا کی جو ویڈیوز اب ٹک ٹاک پر سامنے آ رہی ہیں‘ اس سے بھی واضح ہے کہ وہ ہم سب کی طرح شہرت کے خبط کا شکار ہے۔ اسے بھی راتوں رات مشہور ہونا ہے۔ اکثر لوگوں کیلئے بدنامی بھی شہرت کا پہلا اور بڑا زینہ ہے جس پر وہ چڑھتے جائیں گے تو ترقی ہوتی جائے گی۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ جرائم ہر دور میں ہوتے آئے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی ایجاد نے ان جرائم کو next level تک پہنچا دیا ہے۔ اب جرائم کی glorification کیلئے سوشل میڈیا حاضر ہے۔ فالورز، لائکس اور شیئر کرنے کے جنون نے اچھے اچھے گھرانوں کے بچوں کو وہ وہ کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بعض دفعہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی ٹک ٹاک پر اسلحے کی نمائش اور بڑھکوں نے اس میں مزید مصالحہ ڈال دیا ہے۔ اب یہ بدمعاش اور کن ٹٹے اس معاشرے کے نئے ہیروز اور رول ماڈل بنتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں عوام کو علم، شعور اور طاقت دی‘ وہیں اب یہ معاشرے میں لڑائی جھگڑوں، نفرتوں کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ شہرت کا خبط سب کو ڈبو رہا ہے۔ اب آپ نے ہر آتے جاتے کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالنی ہے۔ لوگ مررہے ہوتے ہیں لیکن لوگ مدد کے بجائے ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں اور انہیں جلدی ہوتی ہے کہ وہ فوراً اس ویڈیو کو اپنے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر ڈال کر ویوز، لائکس اور شیئرز لے سکیں تاکہ فالورز بڑھ سکیں۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ دیکھ کر کہ اب دھیرے دھیرے ہمارے ہاں کن ٹٹوں اور بدمعاشوں کی ویڈیوز اور اسلحے کی نمائش زیادہ دیکھی جا رہی ہیں۔
لوگ اب خود کرائم سین بناکر بھی ویڈیو ڈال رہے ہیں۔ عثمان مرزا کو دیکھ لیں کہ اسے پتہ ہے ویڈیو بن رہی ہے۔ وہ لڑکے لڑکی کو مار رہا ہے اور اسے علم ہے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اس نے خود کو ٹک ٹاک کا سٹار سمجھا ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ویڈیو میں وہ اپنے فالورز کو بتا رہا ہے کہ ان کا بھائی کسی مقدمے میں پندرہ دن کے لیے جیل جا رہا ہے۔ فون بند رہے گا۔ جلد ضمانت ہو جائے گی۔ پریشان نہ ہوں۔ واپسی پر یہیں (ٹک ٹاک) پر ملاقات ہو گی۔ اس کا اعتماد اور فالورز کو اپ ڈیٹ کرنے کا جنون ملاحظہ فرمائیں۔ جیل جاتے ہوئے مرزا کو فکر اپنے کاروبار، والدین یا بچوں کی نہیں بلکہ اپنے ٹک ٹاک فالورز کی ہے۔ ہر قیمت پر شہرت حاصل کرنے اور مشہور ہونے کا خبط بھی بندے سے کیا کیا کام کرواتا ہے۔
ہر قیمت پر دوسروں پر برتری، بدمعاشی اور شہرت کے جنون سے انسان کی جو حالت ہو جاتی ہے اس سے ایک بھارتی فلم کا ڈائیلاگ یاد آیا کہ کبھی کبھار اپن کو لگتا ہے ہم ہی بھگوان ہیں۔