نذیر ناجی بھی رخصت ہوئے۔ وہ کافی عرصہ سے علیل تھے۔ کالم لکھنا تو کب کا چھوڑ چکے تھے۔ اگرچہ مجھے علم تھا کہ وہ اب کالم نہیں لکھیں گے لیکن پھر بھی میں ہر روز اس اُمید پر دنیا اخبار کا ادارتی صفحہ کھول لیتا کہ شاید ان کی واپسی ہو گئی ہو۔ لیکن یہ واپسی کبھی نہ ہوئی۔ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جب سلیم بھائی نے گھر میں اردو اخبار لانا شروع کیے تو جن ناموں سے واقفیت ہوئی وہ سب ایک ایک کرکے رخصت ہوئے۔ آج کے کالم نگاروں کو پڑھتا ہوں تو عجیب سی اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ شام کو جب سلیم بھائی کی واپسی ہوتی تو ہماری آنکھیں ان کے سکوٹر کی ڈگی پر ہوتیں کہ وہاں سے اب کون سے اخبارات اور رسائل برآمد ہوں گے۔ سلیم بھائی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اب بھی ہے۔ ہر تین ماہ بعد وہ میسج کرتے ہیں کہ یار روفی! کچھ نئی بکس بھیجو۔ ہر دفعہ بنڈل خرید کر بھیجتا ہوں۔ اب کی دفعہ گگن شاہد کو کہہ کر پورا بنڈل بھجوایا۔ ہمیں سب رسائل اور اخبارات سے سلیم بھائی نے ہی متعارف کرایا۔ اُن دنوں 'روزنامہ جنگ‘ لاہور سے شائع ہوتا تو اگلے دن لیہ پہنچ جاتا۔ رات کو اماں کے چولھے پر اخبار پڑھا جاتا۔ اَجی بہن اماں کو کالم پڑھ کر سناتیں۔ اماں منو بھائی کے کالم سننا پسند کرتیں۔ پھر عبدالقادر حسن کا کالم سنتیں۔ ارشاد حقانی‘ مجیب الرحمن شامی‘ جمیل الدین عالی‘ زیڈ اے سلہری‘ نثار احمد‘ احمد ندیم قاسمی‘ سرور سکھیرا‘ حمید سیٹھی اور عطا الحق قاسمی کے کالموں اور رئیس امروہوی کے قطعہ کا چسکا پڑا۔ اُن دنوں اظہارالحق صاحب نے بھی کچھ عرصہ 'روزنامہ جنگ‘ میں کالم لکھے۔ بعد ازاں ہارون الرشید کے کالموں نے بھی دل میں جگہ بنائی‘ لیکن نذیر ناجی صاحب سے تعارف بڑی دیر بعد ہوا جب ملتان یونیورسٹی پہنچے اور 'روزنامہ نوائے وقت‘ کے ادارتی صفحات پڑھنا شروع کیے۔
میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن میں خود بھی صحافی بنوں گالیکن تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ میں جن کالم نگاروں کو پڑھ کر جوان ہوا‘ بعد ازاں نہ صرف ان کے ساتھ کام کیا بلکہ ان کے ساتھ ادارتی صفحات پر چھپا بھی جن میں نذیر ناجی‘ منو بھائی‘ ارشاد حقانی‘ حسن نثار‘ عطاالحق قاسمی‘ عبدالقادر حسن‘ اے حمید اور اظہارالحق جیسے بڑے کالم نگار شامل ہیں۔ میں اپنی تقدیر پر کبھی یقین نہ کر پایا کہ جو لڑکا لیہ کے ایک پسماندہ گاؤں میں بیٹھا جن کالم نگاروں کے کالم پڑھتا تھا‘ وہ ایک دن ان کے ساتھ چھپے گا۔ بعد ازاں ایاز امیر اور ہارون الرشید جیسے کالم نگاروں نے بھی خوب متاثر کیا اور ان کی تحریر کی لذت آج تک محسوس ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب 'روزنامہ دنیا‘ شروع ہو رہا تھا اس وقت اس ادارے کے مالک میاں عامر محمود بڑے ریلیکس تھے۔ ایک دن اسلام آباد دفتر آئے تو میں نے پوچھا کہ سر جی! چند دن اخبار نکلنے میں باقی ہیں اور ابھی تک کسی بڑے کالم نگار نے جوائن نہیں کیا۔ اردو اخبار تو چلتا ہی کالم نگاروں کے زور پر ہے۔ یہ اخبار کیسے نکلے گا؟ میاں عامر صاحب زیرِ لب مسکرائے اور پوچھا کہ آپ کے خیال میں کون کون بڑا کالم نگار ہے جسے اس اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپنا چاہیے تو پھر ہمارا اخبار چل پڑے گا؟ میاں عامر صاحب کی ایک خوبی ہے کہ انہوں نے جس پروجیکٹ میں ہاتھ ڈالا اسے چند دنوں میں کامیاب بنا ڈالا۔ مجھے حالانکہ امید کم تھی کہ جو کالم نگار میرے ذہن میں تھے‘ انہیں وہ نئے اخبار میں لانے میں کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ اُس وقت وہ سارے پہلے ہی بڑے اخبارات میں لکھ رہے تھے۔ وہ بھلا کیوں نئے اخبار میں چھپنے کا خطرہ مول لیں گے۔ جو پتا نہیں کامیاب بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ میں نے کہا: میاں عامر صاحب! جب تک کم از کم نذیر ناجی‘ ہارون الرشید اور حسن نثار نہیں ہوں گے‘ اخبار نہیں چلے گا ۔ کم از کم یہ تینوں کالم نگار پہلے دن اخبار میں چھپیں گے تو بات بنے گی۔ میاں عامر صاحب مسکرائے اور بولے کہ سمجھو یہ تینوں ہو گئے‘ کوئی اور بتاؤ۔ میں نے حیرانی سے کہا کہ سر جی! کیسے ہو گئے‘ وہ کیسے آئیں گے؟ میاں عامر صاحب بولے کہ یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ پھر تین روز بعد خبر بریک ہوئی کہ ان تینوں نے دنیا اخبار جوائن کر لیا ہے۔ پھر ہارون الرشید صاحب نے ملک کے سب بہترین کالم نگاروں کو اکٹھا کر لیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب دنیا اخبار سے بہتر کالم نگار کسی اخبار کے پاس نہ تھے۔
میں اُس وقت دنیا اخبار اسلام آباد میں ایڈیٹر تھا‘ رپورٹنگ کے علاوہ کالم بھی لکھ رہا تھا۔ ناجی صاحب ہمارے گروپ ایڈیٹر بن گئے لہٰذا اُن کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے تین مواقع پر میری بریک کی گئی خبروں پر دس‘ دس ہزار روپے انعام کا اعلان کیا (اگرچہ وہ کیش انعام آج تک وصول نہ ہوسکا) لیکن ان کا یہ اعلان کرنا ہی میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ ناجی صاحب کی گڈ بکس میں لینڈ کرنا کوئی مذاق نہیں تھا۔ انہوں نے ایک دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے حکومتوں کے عروج و زوال دیکھ رکھے تھے لہٰذا وہ آسانی سے کسی سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ایک سیلف میڈ انسان جو نہ صرف رویوں میں 'نو نان سینس‘ کے قائل تھے بلکہ ان کی تحریروں میں بھی وہی جھلک نظر آتی تھی۔ اگر پاکستانی پاور پالیٹکس یا سیاستدانوں کا مزاج سمجھنا ہو تو اس موضوع پر شاید ہی کسی نے نذیر ناجی سے بہتر لکھا ہو۔ جب میرے جیسے لوگ سیاست کو آئیڈیل ازم کی نگاہ سے دیکھ کر سیاستدانوں پر تبرا پڑھتے‘ اس وقت ناجی صاحب پاور پالیٹکس کا کھیل سمجھ کر اس پر لکھتے اور آتے جاتے میرے جیسوں کو بھی دو تین لفظی جگتیں لگاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ایک ایسا کالم لکھا کہ میں نے ان کے صاحبزادے انیق ناجی کو فون کیا اور کہا کہ میری طرف سے ناجی صاحب کو کہیے گا کہ جب وہ اپنی یاریاں دوستیاں ایک طرف رکھ کر صرف ہمارے جیسے قاری کیلئے لکھتے ہیں تو پھر ان جیسا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ میں نے ایک دن کہا: آپ سے بہت سارے سیاسی یا نظریاتی اختلافات کیے جا سکتے ہیں لیکن آپ سے بہتر سیاسی کالم شاید ہی کسی نے لکھے ہوں۔ مجھے کئی دفعہ ان سے ڈانٹ بھی پڑی۔ وہ بعض چیزوں پر ناخوش بھی ہوئے لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر مجھے سیاسی کالم نگاری میں کسی کو اعزازی ڈگری دینی ہوتی تو میں ناجی صاحب ہی کو دیتا۔ وہ اس بات کی پروا کم ہی کرتے تھے کہ اگلا بندہ کیا سوچے گا۔ اگر کوئی جملہ ان کے ذہن میں آجاتا تو وہ بلاجھجھک کہہ دیتے تھے۔ سیاسی حکمرانوں سے ان کی دوستیاں بھی رہیں جس پر وہ تنقید کا نشانہ بھی بنے لیکن انہوں نے اپنے لحاظ سے جسے بہتر سمجھا اس پر کھل کر لکھا‘ چاہے قاری کو اچھا لگے یا برا۔ وہ دوستیاں اور دشمنیاں نبھانا خوب جانتے تھے۔ جو ناجی صاحب کو قریب سے جانتے تھے‘ وہ ناجی صاحب کے دوستوں میں شامل ہونا چاہتے تھے‘ دشمنوں میں نہیں۔ وہ مخالفت میں Well left پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ جب تک لکھا ‘کھل کر لکھا‘ جو ٹھیک سمجھا وہی لکھا‘ چاہے قاری لاکھ ناک بھوں چڑھاتے رہیں‘ وہ کم ہی کسی کی پروا کرتے تھے۔ جب اسلام آباد آتے تو عامر متین کے گھر ان کی شان میں محفل جمتی‘ جس میں وہ اپنے سیاسی تجزیے دیتے اور ساتھ میں مخصوص قہقہہ۔ ایک دن مجھے کہا کہ حامد میر کے کالموں کی خوبی یہ ہے کہ وہ کالم میں سیاسی خبر دیتا ہے‘ تم سیاسی خبر نہیں دے سکتے تو کبھی کبھار سکینڈل کی خبر دیا کرو۔ کالم نگاروں میں دو تین ایسے ہوں گے جو وزیراعظم کے تقریر نویس رہے۔ ایک نذیر ناجی اور دوسرے عرفان صدیقی۔ وہ بارہ اکتوبر 1999ء کی بغاوت کے عینی شاہد تھے۔ اس کے بعد وہ بڑا عرصہ قید بھی رہے۔ رہائی کے بعد اُن دنوں کی کہانی بعد ازاں اپنے کالموں میں لکھی۔ ناجی صاحب پاور پالیٹکس اور سیاستدانوں پر لکھنے والے شاید آخری کالم نگار تھے جن سے میں نے بہت ساری ڈانٹیں کھائیں تو چند انعامات بھی پائے۔