جو کچھ وائٹ ہاوس میں ہوا اس کا اندازہ امریکی صدر ٹرمپ‘ نائب صدر وینس اور یوکرینی صدر زیلنسکی سمیت کسی کو بھی نہ تھا بلکہ یوں کہیں وہاں موجود میڈیا یا امریکی عوام بلکہ پوری دنیا تک کو نہ تھا۔ بات سے بات بڑھتی گئی اور پھر بہت بڑھ گئی اور سفارتی آداب بھی ملحوظ خاطر نہ رہے۔ اگر وہاں کیمرے نہ ہوتے اور صحافی نہ بیٹھے ہوتے تو شاید معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اس پورے معاملے میں کیمروں یا وہاں موجود صحافیوں کا کیا قصور ہے‘ وہ بے چارے تو وہاں بلائے گئے تھے کیونکہ وہ لیڈر میڈیا سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔
دراصل یہ انسانی مزاج ہے کہ جب دو افراد اکیلے ہوں تو معاملہ سلجھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ وہاں آپ کی اَنا کو ٹھیس نہیں پہنچ رہی ہوتی۔ وہاں آپ ایک دوسرے کی سخت باتیں بھی سن لیتے ہیں۔ چند لمحوں بعد اپنے سخت جملوں پر پشیمان ہو کر ایک دوسرے سے معذرت اور ماحول کو ٹھنڈا کرکے بات چیت دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ بند کمروں میں ہونے والی گفتگو آپ کی انا کیلئے خطرہ نہیں بنتی۔ آپ صورتحال کو سنبھال لیتے ہیں۔ لیکن جب وہی گفتگو بلکہ اس سے بھی کم اہم باتیں آپ پبلک میں کر رہے ہوں تو پھر آپ کو لگتا ہے کہ اب آپ کی اتھارٹی اور اَنا داؤ پر لگ گئی ہے۔ اب آپ کا ایک ایک لفظ سنا اور سمجھا جارہا ہے بلکہ یوں کہیں لاکھوں نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ آپ کی باتوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے۔ آپ کے پاس تب وقت نہیں ہوتا کہ خود کو دوبارہ ٹھیک کرکے بولیں۔ وہی بات کہ اُس وقت جو مکا مارنا ہے مار دیں۔ ایسی سفارتی جنگ جو کیمروں پر لڑی جارہی ہو اس میں آپ کے پاس نہ وقت ہوتا ہے نہ ہی سمجھ کر بولنے کا موقع۔ آپ نے وہی کچھ بولنا ہوتا ہے جو آپ کا مزاج یا طبیعت آپ کو ڈکٹیٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر آپ کی سفارتی مہارت جواب دے جاتی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اب سب اوپن ہو گیا ہے۔ اگر آپ اس زبانی لڑائی میں کہیں کمزور پڑ گئے تو آپ کا سیاسی کیرئیر خراب ہو گا۔ آپ کے ساتھ آپ کے ملک اور عوام کی عزت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ وہ لمحہ آپ کو میک یا بریک لگتا ہے۔ آپ نے اپنے عوام‘ فالورز اور ووٹرز کو مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ ان کا چوائس بہت ٹھیک تھا۔ وہ لیڈر کسی سے ڈرا یا دبکا نہیں بلکہ کھل کر جواب دیے اور اگلے کا منہ بند کر دیا۔
اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ اور زیلنسکی دونوں ایک جیسی سیاست کرکے اوپر آئے ہیں۔ دونوں پاپولزم کی لہر سے آگے آئے اور انہوں نے اپنے عوام کو وہ باتیں سنائیں یا خواب دکھائے جو اُن سے پہلے کوئی حکمران نہیں دکھا سکا۔ عوام دنیا کے کسی کونے کے ہوں‘ وہ مچھلی کی طرح سنہرا جال دیکھ کر اس میں پھنس جاتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو اس دنیا میں پچھلے دس برسوں میں وہی لوگ اپنے اپنے ملکوں میں اوپر آئے جنہوں نے اپنی قوم کو عظیم بنانے کے نعرے مارے۔ ہر بندہ عظیم بننا چاہتا ہے اور اپنے ملک کو دنیا میں عظیم دیکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا ان جعلی نعروں سے لوگوں کو پھنسانا یا بہلانا بڑا آسان ہوتا ہے۔ بس آپ نے روایتی سیاستدانوں کے مقابلے میں کوئی بڑا نعرہ مارنا ہوتا ہے۔ جیسے آپ کے پہلے والے سارے حکمران ڈرپوک‘ بزدل اور غلام ہیں۔ انہوں نے آپ کو غلام قوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ میں آپ کو دنیاکی عظیم قوم بناؤں گا۔
یہی نعرہ امریکہ میں ٹرمپ نے لگایا اور اس دوڑ میں باقی سب پیچھے چھوڑ دیا۔2016ء میں کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ریپبلکن امیدواروں کی ریس جیت جائیں گے۔ اگر جیت بھی گئے تو ہیلری کلنٹن کو ہرا کر ملک کے صدر بھی بن جائیں گے۔ اس سے بڑھ کر جو کرشمہ ہوا وہ یہ تھا کہ چار سال بعد وہ بائیڈن کو ہرا کر پھر وائٹ ہاؤس میں آگئے حالانکہ اس دوران عدالت میں ان پر بتیس الزامات بھی ثابت ہو گئے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ جو لیڈر پاپولزم کا کھیل کھیلتے ہیں ان کے فالورز پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنے لیڈروں کو نیک اور پاک صاف سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے لیڈر کو اپنا مرشد یا گرو سمجھ لیتے ہیں جو کوئی بھی غلط بات یا کام نہیں کر سکتا۔ وہ جو بھی کرتا ہے‘ درست ہی ہوتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی پر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون کا الزام تھا لیکن اسے اس کے ووٹرز نے تیسری دفعہ وزیراعظم بنا دیا کیونکہ اس نے ہندو ازم کا نعرہ مارا جو کانگریس کے سیکولر نعرے سے زیادہ مسحور کن تھا اور آج بھی ہے۔ ٹرمپ نے بھی یہی کچھ کیا کہ میں امریکہ کو عظیم بناؤں گا اور امریکیوں کو لگا کہ ٹرمپ اکیلا ہی انہیں اوپر لے جائے گا۔ یوں وہ نوجوان ووٹرز کو ساتھ ملانے میں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ بائبل بیلٹ بھی ٹرمپ کے بہت کام آئی۔ یہی کام پاکستان میں عمران خان نے کیا‘ جب انہوں نے نعرہ مارا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں اور یہ کہ میں آپ کو ایک عظیم قوم بناؤں گا۔ اس عظمت میں سے بعد میں خود خان اور ان کے ساتھیوں کے جو مبینہ مالی سکینڈلز سامنے آئے ان کے فالورز اور ووٹرز انہیں سچ نہیں مانتے۔ عمران خان کو بھی علم تھا کہ وہ عظمت کے نعرے لگائیں گے تو ان کا ووٹ بینک بڑھے گا۔ یہی کچھ ہم نے برطانیہ میں دیکھا جہاں بورس جانسن نے بریگزٹ کا نعرہ مارا اور برطانوی لوگوں کو بتایا کہ اگر ہم یورپی یونین سے علیحدہ ہو گئے تو برطانیہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو گئیں۔ بریگزٹ کامیاب ہوا اور اب وہی برطانوی رو رہا ہے کہ اس معاہدے کو توڑنے سے یورپ سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ٹیکس مراعات ختم ہو گئیں اور وہاں مہنگائی نے لوگوں کو ہِٹ کیا۔ اب برطانوی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کا بریگزٹ کا ووٹ ڈالنا غلط تھا۔ لیکن بورس جانسن اپنا کام دکھا کر وزیراعظم بن کر ریٹائرمنٹ کی زندگی مزے سے گزار رہا ہے۔
یہی کچھ زیلنسکی نے یوکرین میں 2019ء میں کیا جب اس نے یوکرین کی نوجوان نسل کو بتایا کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں۔ پہلے والے سب حکمران روس کے ٹاؤٹ تھے۔ میں آپ کو عظیم قوم بناؤں گا۔ ہم نیٹو کا حصہ بن کر روس کو سبق سکھائیں گے۔ سب نے اسے سمجھایا کہ تم یورپ اور امریکہ کی باتوں میں نہ آؤ۔ تم ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھو۔ ہزاروں میل دور امریکہ پر تکیہ نہ کرو۔ اگر جنگ چھڑ گئی تو تمہارے جوان ہی قربانیاں دیں گے‘ کوئی یورپی ملک اپنے فوجی نہیں بھیجے گا۔ لیکن وہی بات کہ جو لوگ پاپولر نعرے مار کر سیاست میں آتے ہیں وہ سمجھداری سے کام نہیں لیتے۔ اگر سمجھداری سے کام لیتے تو وہ پاپولر نہ ہوتے۔ پاپولر سیاست کرنے کیلئے عقل سے زیادہ جذباتی نعروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس آپ نے اتنی سمجھداری دکھانی ہے کہ آپ کے منہ سے کوئی سمجھداری کی بات نہ نکلے۔ جن سیاسی قوتوں کے خلاف آپ اُبھرے ہیں وہ اپنے تئیں سمجھداری کی باتیں کرکے اَن پاپولر ہوئیں تھیں اور آپ کو ان کی جگہ موقع مل گیا تھا۔ اگر آپ نے بھی سمجھداری دکھانے کی کوشش کی تو آپ کا انجام بھی وہی ہوگا جو آپ سے پہلے خود ساختہ سمجھداروں کا ہوا تھا۔ سیاست میں سمجھداری نہیں‘ جذباتیت اور عظمت کے نعرے چلتے ہیں۔ جو مخالفوں کو بڑی گالی دے وہی کامیاب ہوگا‘ جو قوم کو عظیم بنانے کا نعرہ مارے گا وہی ووٹ لے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو جدید دنیا کے ٹرمپ‘ مودی‘ بورس جانسن‘ عمران خان یا زیلنسکی کے عروج کو دیکھ لیں۔ آپ کو ان پانچوں میں بہت سی باتیں مشترک نظر آئیں گی۔
جو کچھ وائٹ ہاؤس میں ہوا اس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کا قصور نہیں۔ دونوں پاپولزم کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے ہیں اور دونوں اپنے اپنے فالورز کے سامنے اپنی اپنی مقبولیت کے گھوڑے پر سے گرنا ہرگز افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔