"RKC" (space) message & send to 7575

عام سے خاص تک

اگر آج کل بھارتی میڈیا دیکھیں تو لگے گا کہ سب پاکستانی بھارت سے ڈر کرڈر کر افغانستان یا ایران پناہ لینے چلے گئے ہیں۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ کوئی بھی بندہ پانچ منٹ بھارتی چینل دیکھ لے تو اسے لگے گا کہ جیسے پاکستان پر قیامت گزر گئی ہے۔ میں ایک بھارتی چینل دیکھ رہا تھا جس میں وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان ڈر گیا ہے‘ خوفزدہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اپنے فوجی یا اپنا اسلحہ سرحد پر بھیج رہاہے۔ یعنی بھارتی میڈیا کے نزدیک اگر پاکستان ممکنہ جنگ کی تیاری کر رہا ہے تو یہ پاکستان کی بزدلی ہے اور پاکستان ڈر گیا ہے۔
بھارتی ٹی وی چینل کا خیال ہے کہ بہادر وہ ہوتا ہے جو جنگ کی دھمکیوں کے جواب میں چپ چاپ بیٹھا رہے اور اپنے دفاع میں کوئی تیاری نہ کرے۔ یہ ویسے بڑی عجیب منطق ہے جو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایک بھارتی چینل پر سنی ہے کہ آپ لوگ جنگ کی جوابی تیاری کیوں کر رہے ہیں یا اسلحہ کیوں محاذ پر بھیج رہے ہیں۔ میں ویسے بھارتی چینلز کے اُن صاحبان کو داد دیتا ہوں جو یہ سارا ڈرامہ لکھتے ہیں۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا سکرپٹ پاکستانی چینلز نہیں لکھ سکتے۔ بھارتی چینلز تو پاکستان میں ہونے والے ماضی کے بعض سیاسی مظاہروں کو بھی یہ کہہ کر دکھا رہے ہیں کہ پاکستان میں اُس وقت سے خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جب سے بھارت نے حملے کی دھمکی دی ہے۔ پورا ملک سہما ہوا ہے کیونکہ ہمارے (بھارت کے) پاس رافیل جنگی جہاز ہیں‘ جو فرانس سے خریدے گئے ہیں۔ ایک بھارتی چینل دیکھ رہا تھا‘ اس نے جس طرح رافیل طیاروں کی دیومالائی ٹائپ کہانیاں اور داستانیں سنانا شروع کیں تو میں ہنس پڑا کہ اتنا تو خود فرانس نے کبھی اپنے طیارے پر فخر محسوس نہیں کیا جتنا بھارتی چینل کررہا تھا۔ چینل کا کہنا تھا کہ رافیل جہاز سے پورا پاکستان ڈر رہا ہے اور ایک رافیل پورے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ رافیل جہاز کی شان میں تقریباً بیس منٹ تک قصیدے پڑھے گئے کہ اس طیارے کا کوئی توڑ پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ بھارتی چینلز تو یہ طے کر چکے ہیں کہ پاکستان جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ڈر کر ہار مان چکا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس اُس جنگی اسلحے کا مقابل اسلحہ نہیں جو بھارت امریکہ‘ اسرائیل‘ روس اور فرانس سے حاصل کر چکا ہے۔
بھارتی چینلز کے مطابق بھارت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت چکا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے کہ لوگوں میں اپنے دشمن کے حوالے سے اتنا جھوٹ پھیلاؤ کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ وہ جنگ لڑنے سے پہلے ہی جنگ جیت چکے ہیں۔ بعض بھارتی مبصرین نے اس صورتحال پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا کہ اس دفعہ جنگ نہیں ہو گی کیونکہ مودی صاحب نے جنگ کرنی ہوتی تو وہ اس کا اختیار آرمی جنرلز کے ہاتھوں میں نہ دیتے اور خود ہی ایک رات فیصلہ کرتے کہ حملہ کر دو‘ جیسے 2019ء میں کیا گیا تھا لیکن اب کی دفعہ فوج کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ مناسب وقت کا فیصلہ کریں۔
ایک بات طے ہے کہ دونوں ہمسایوں نے ایک دوسرے کا کام آسان کیا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں میں جب بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو فوراً ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یوں دونوں ملکوں کے عوام فوراً مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کوئی اپنے ملک کی سیاسی ایلیٹ‘ حکمرانوں یا اداروں سے نہیں پوچھتا کہ آپ کو اربوں روپے کے بجٹ کس لیے ملتے ہیں‘ہر واقعے کے بعد ان کا یہ جواب ہوتا ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ یہ کون سی بڑی خبر ہے جو لوگوں کو سنائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ملک اس دہشت گردی میں ملوث ہے۔ تو پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ کا کام ان دہشت گردوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ آپ کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اب تو ان کی مانیٹرنگ کے لیے ایسی ایسی نئی ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔
مان لیا کہ پاک بھارت سرحد بہت طویل ہے لہٰذا دہشت گردوں کا داخلہ ممکن ہے مگر کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ جو ملک اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کا داخلہ یا پھر ملک کے اندر دہشت گردی نہیں روک سکتے تو پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات اس سطح تک کیوں نہیں لے آتے کہ ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں نہ لڑنی پڑیں۔ ان پراکسی جنگوں میں ہمیشہ بے گناہ لوگ ہی مارے جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی سنا کہ ان پراکسی جنگوں میں کوئی سیاسی لیڈر‘ حکمران یا بڑے سرکاری افسران یا وہ پالیسی میکرز مارے گئے ہوں‘ جو یہ سب فیصلے کرتے ہیں۔ اگر آپ نوٹ کریں تو جعفر ایکسپریس میں مارے جانے والے بھی عام لوگ تھے‘ جیسے پہلگام میں مارے گئے سیاح عام لوگ تھے۔
برسوں گزر گئے مگر میرے دل سے ایک بوڑھے افغان کی بے بسی سے بھری تصویر نہیں اُترتی۔ کابل کی ایک مارکیٹ میں ایک نوجوان خاتون اپنی چھوٹی سی بیٹی کے ہمراہ موجود تھی جب طالبان نے مارکیٹ کو خودکش حملہ سے اڑا دیا۔ اس حملے میں وہ خاتون بھی ماری گئی۔ اُس خاتون کا بوڑھا باپ جس طرح اپنی بیٹی کی لاش کے قریب خاموش اور بے بس بیٹھا تھا وہ اذیت آج تک میں اپنے اندر محسوس کرتا ہوں۔ اس خطے میں برسوں سے جاری پراکسی جنگوں سے کسی نے کیا حاصل کر لیا؟ آج کل ایک نوجوان سردار کا کلپ بڑا مشہور ہے جس میں اس نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا کہ اس خطے کے حکمران کیسے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا کر حکومت کر رہے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے لیکن اس خطے کے ملک ایک دوسرے سے جنگیں لڑ رہے ہیں۔ مسلسل ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ چل رہا ہے۔
کبھی ہم بھی پُرامید تھے کہ پاکستان اور بھارت شاید کبھی دوستی کا معاہدہ کر ہی لیں گے۔ سب سے زیادہ یہ خیال مشرف دور میں آیا کرتا تھا‘ وہ تین چار سال پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بہترین تھے۔ کہا جاتا ہے کہ منموہن سنگھ اور پرویز مشرف مسئلہ کشمیر کے حل پر پہنچ چکے تھے‘ بس اعلان ہونا باقی تھا جو منموہن سنگھ نے اسلام آباد پہنچ کر کرنا تھا لیکن پھر پرویز مشرف جسٹس افتخار چودھری کو برطرف کر بیٹھے اور پھر جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔
دوسرا موقع 2019ء میں آیا جب جنرل باجوہ اور موجودہ بھارتی قیادت نے مسئلہ کشمیر کا حل نکالا تھا اور مودی صاحب نے پاکستان آنا تھا لیکن آخری لمحے پر عمران خان اور ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نہ مانے کہ ہم پر کشمیر کی سودے بازی کا الزام لگے گا اور ہم اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔ الیکشن تو وہ پھر بھی ہار گئے لیکن وہ ایسا موقع تھا جب جنرل مشرف کے بعد جنرل باجوہ بھی مقتدرہ کو اس بات پر راضی کر چکے تھے کہ ہم کشمیر پر بھارت سے کوئی ایسا حل نکالیں جس سے دونوں ملکوں کی خیر ہو۔ دونوں ملکوں کو یوں لگے کہ ان کا مؤقف کشمیر پر مانا گیا تھا لیکن پھر یہ موقع بھی ضائع ہوا۔اب جس طرح کی نفرت پھیلا دی گئی ہے‘ اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان اور بھارت دوبارہ کشمیر کو حل کرنے کا نام بھی لیں گے۔ اب تو یہی چلتا رہے گا جو اس وقت چل رہا ہے۔ ان ملکوں میں جب بھی مریں گے عام لوگ ہی مریں گے۔ عام لوگوں کو اس لیے مرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ عام ہیں اور خاص لوگ تو ان کے مرنے مارنے کا بندوبست کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں