"RKC" (space) message & send to 7575

پاک بھارت دلچسپ بھائی چارہ

ہو سکتا ہے کہ جنگ کے خطرے کی وجہ سے اس خطے کے لوگ پریشان ہوں‘ بزنس مین اور سرمایہ کار گھبرائے ہوئے ہوں مگر میڈیا اور سیاستدانوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ چند ماہ سے سیاست اتنا بوریت بھرا موضوع بن چکا تھا کہ لوگ سکرین سے دور ہٹ گئے تھے۔ میڈیا اور سیاستدانوں کا کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو رہا تھا اور پھر انڈیا میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور مودی نے طبلِ جنگ بجا دیا اور ساتھ ہی سکرینوں پر رونق لگ گئی۔
اس سال بھارتی ریاست بہار میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ پہلگام واقعہ سے اگلے روز مودی صاحب ہنستے مسکراتے وہاں پہنچے اور پاکستان کے خلاف دھواں دھار تقریر کی۔ پہلگام واقعے کے بعد وہ سعودی عرب کا دورہ ادھورا چھوڑ کر آ گئے تھے لیکن چند بھارتی صحافیوں کے بقول وہ کشمیر جانے کے بجائے سیدھے بہار پہنچے۔ بہار میں قہقہے مارنے والی ان کی وڈیو پر وہاں کے چند سمجھدار صحافی سوال کر رہے تھے کہ یہ کیا چل رہا ہے؟ ابھی تو اس دہشت گردی میں مارے جانے والوں کی لاشیں کشمیر کے ہسپتال میں ہی پڑی ہیں اور مودی صاحب بہار جلسے میں بیٹھے کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ کیا سعودی عرب کا دورہ جلد ختم کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اگلے روز بہار میں الیکشن ریلی سے خطاب کرنا تھا؟ کیا ہمارے سیاستدان واقعی اتنے بے رحم اور بے حس ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے اقتدار‘ اپنی ذات‘ اپنے گھر اور بچوں کے علاوہ کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ یہ سب مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں بلکہ ہمارے اس خطے میں تو کبھی کسی لیڈر کو دوسرے سیاستدان کے بچے کے مرنے پر بھی آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔ کچھ دیر افسردہ رہنے کی اداکاری کر کے پھر نارمل ہوکر گپیں مار رہے ہوتے ہیں۔
صرف بھارت میں ہی ایسا نہیں ہوتا کہ وہاں کا سیاستدان اتنی بڑی انسانی ٹریجڈی بھول کر اگلے روز قہقہے لگا رہا ہوتا ہے۔ راج نیتی کی پہلی شرط ہی بے رحمی اور بے حسی ہے۔ اس کے بغیر آپ بڑے سیاستدان نہیں بن سکتے۔ مودی صاحب کے تو نہ بچے ہیں‘ نہ ہی کوئی ایسا رشتہ جس سے ان کے دل میں کوئی رحم دلی کا عنصر پیدا ہوتا‘ کہ انسان دوسروں کے بچوں کی تکلیف کو دیکھ کر نرم ہو جاتا ہے کہ اگر ان کہ جگہ میرے بچے ہوتے تو پھر میں کیسا محسوس کرتا یا مجھ پر کیا گزرتی۔ اگر آپ کو یاد ہو جب 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 140سے زائد بچوں کا بے رحمانہ قتلِ عام ہوا تو اگلے روز پشاور میں وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمران خان نے اکٹھے ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ وہاں دونوں کے افسردہ چہرے دیکھ کر قوم نے محسوس کیا کہ انہیں بھی شدید دکھ ہوا ہے جیسے اُس وقت پوری قوم کو محسوس ہو رہا تھا۔ جونہی پریس کانفرنس ختم ہونے لگی نواز شریف صاحب کو ایک جگت سوجھی اور انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ہسپتال جا کر زخمی بچوں کو وزٹ نہ کرنا ہوتا تو میں بھی عمران خان کے ساتھ واپس اسلام آباد جا کر ان کے کنٹینر پر چڑھ جاتا۔ اس پر ایک بڑا قہقہہ لگا اور عمران خان بھی مسکرا پڑے۔ وہاں موجود سب لوگ قہقہے لگانے لگے۔ اندازہ لگائیں کہ 140سے زائد بچوں کے والدین پر قیامت گزر گئی تھی اور ملک کے سیاستدان اور حکمران اُس وقت بھی مذاق کر رہے تھے‘ جگتیں لگا رہے تھے۔ خدانخواستہ اگر ان کے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہوتا تو کیا یہی رویہ رکھا جاتا کہ بیٹھ کر جگتیں ماری جاتیں۔ اُس دن مجھے احساس ہوا تھا کہ اقتدار کے بھوکے لوگ کتنے بے حس اور بے رحم ہو سکتے ہیں۔
یہی کچھ میں نے مودی صاحب کو بہار ریلی میں قہقہے لگاتے دیکھ کر سوچا کہ ابھی پہلگام میں مارے جانیوالوں کی لاشیں کشمیر کے ہسپتال میں پڑی ہیں لیکن وہ ووٹ لینے کیلئے بہار پہنچ گئے ہیں اور اب پاکستان کے خلاف دھواں دھار تقریر کرکے ووٹ بینک بڑھائیں گے اور اس نفرت کی بنیاد پر الیکشن جیتیں گے۔ ووٹرز کو بھی انکا اس تقریر سے پہلے والا ہنستا مسکراتا‘ قہقہے لگاتا چہرہ نظر نہیں آئے گا۔ وہ صرف انکا مائیک کے پیچھے والا چند منٹ کیلئے افسردہ چہرہ دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ان کا وزیراعظم ان کے دکھ میں بہت دکھی ہے اور اب پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کر رہا ہے۔ اگر کوئی جماعت محض ایسی تقریروں سے بار بار الیکشن جیت سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو سبق سکھائے گی تو وہ بار بار یہ تقریریں کیوں نہ کرے۔ سیاستدان بھی بزنس مین کی طرح اخلاقیات کے چکر میں نہیں پڑتا۔ ایک کو منافع سے غرض ہے تو دوسرے کو ووٹ سے۔ منافع یا ووٹ کہیں سے بھی آئے اس سے غرض نہیں۔ جو بزنس مین منافع اور جو سیاستدان ووٹ کے حوالے سے اخلاقیات اور ضمیر کے چکر میں پڑے گا تو وہ خوار ہوگا اور دونوں یہ افورڈ نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ڈٹ کر وہی کام کرتے ہیں جو نیرو نے روم میں کیا۔
سیاست ایک مسلسل اداکاری کا نام ہے۔ ہم اینکرز بھی اداکاری کرتے ہیں اور مجھے بڑی ہنسی آتی ہے جب میں بڑے بڑے کروڑ پتی اینکرز کو ٹی وی شوز میں غریبوں کے دکھ درد میں آنکھیں نم کرتے اور روتے دیکھتا ہوں۔ اکثر کو دیکھا ہے کہ ان کا رویہ عام لوگوں کے ساتھ کیسا ہے یا کتنے ان میں سے اپنے گھر کے ملازمین کو سرکار کی طرف سے مقرر کی گئی کم سے کم 37 ہزار تنخواہ دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا اپنے دفتر میں اپنے آفس سٹاف کے ساتھ رویہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ ہم اینکرز صرف تیس منٹ کیلئے یہ اداکاری کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں اس قوم اور ملک کیلئے کتنا درد ہے۔ جونہی شو ختم اور کیمرہ آف ہوتا ہے‘ ہماری رعونت اور ہمارا تکبر واپس لوٹ آتا ہے اور ہم سیلیبرٹی بن جاتے ہیں۔ ہم عام دِکھنے کی اداکاری صرف ٹی وی سکرین کی حد تک کرتے ہیں‘ لیکن سیاستدان تو 24 گھنٹے مسلسل اداکاری کرتے ہیں کہ وہ آپ کی وجہ سے راتوں کو نہیں سو سکتے۔ اور مزے کی بات ہے وہ لوگوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیتے ہیں اور ایسا یقین دلاتے ہیں کہ کروڑوں لوگ ان کے دیوانے اور ان کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور ان کیلئے اپنے دوستوں سے تعلقات تک ختم کر لیتے ہیں۔
یہی کچھ مودی نے کیا ہے۔ سیاستدان یہی کرتے ہیں کہ اگر آپ کی مقبولیت گر رہی ہے تو لوگوں کے بچے سڑکوں پر لا کر مروا دو۔ کسی ٹریجڈی میں لوگ مارے جائیں تو سکیورٹی فورسز یا انٹیلی جنس ناکامی پر سوالات اٹھانے اور احتساب کا سوال پوچھنے سے پہلے ہی طبلِ جنگ بجا دو۔ جو یہ سوال پوچھے کہ آخر پہلگام‘ جو لائن آف کنٹرول سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے‘ وہاں دہشت گرد کیسے پہنچے‘ اسے رگڑ دو۔ اگر دہشت گرد وہاں تک پہنچ گئے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ آپ سات لاکھ فوج اور باقی سکیورٹی اداروں کو گھر بھیج کر پاکستان سے صلح کر لیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر بحران ایک موقع بھی ہوتا ہے کہ آپ مردِ بحران بن کر اس صورتحال کو سنبھالیں اور نام پیدا کریں۔ لیکن سیاستدان کا مقصد اس بحران سے فائدہ اٹھا کر بڑا بحران پیدا کر کے ووٹ لینا ہی ہوتا ہے۔
جب بھی بھارت میں الیکشن ہونے لگتا ہے تو کوئی نہ کوئی حادثہ یا ٹریجڈی ہو جاتی ہے‘ جس پر دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں اور یوں حکومتوں کی نالائقی ان تقریروں اور نعروں کے شور میں دب جاتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی ہو تو ہم بھارت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ بھارت میں کچھ ہو جائے تو وہ پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یوں دونوں ملکوں کا کام چل رہا ہے۔ نہ پاکستانی عوام حکمرانوں سے جواب طلبی کرتے ہیں اور نہ بھارتی عوام اپنے حکمرانوں اور میڈیا سے سوال کرتے ہیں۔ اس سے بڑا بھائی چارہ بھلا دنیا میں اور کہاں ہو گا۔ اس سے بڑا تعاون کون کرتا ہوگا کہ عوام ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں اور جن کو حکومت ملتی ہے ان سے نہ پاکستان میں کوئی سوال کرنے کی جرأت رکھتا ہے اور نہ بھارت میں۔ چلیں کسی ایک چیز پر تو دونوں ملکوں میں برابری ہوئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں