کہیں سرکاری/ غیرسرکاری دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آج کل ہر جگہ پاک بھارت جنگ کی بات چلتی رہتی ہے۔ ہر بندہ خوش ہے۔ بڑے عرصے بعد سب کو لگتا ہے کہ دنیا میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ ہمیں بھی احترام کی نظروں سے دیکھا گیا۔ عربی‘ آزربائیجانی‘ چینی اور ترک شہری بھی پاکستان کی خوشی میں خوش ہوئے۔
شاید دنیا کو یقین نہ تھا اور نہ خود پاکستانیوں کو کہ وہ بھارت جیسی قوت کے سامنے یوں ڈٹ جائیں گے۔ پوری دنیا حیران ہوئی بلکہ بھارتی بھی حیران ہیں۔ ہر ایک کی حیرانی کی مختلف وجوہات ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ جس ملک کے پاس اپنا گھر چلانے کیلئے پیسے نہیں اور دنیا بھر کے الزامات کا سامنا کرتا ہے وہ بھارت جیسی پاور کو ٹکر گیا۔ ہندوستانی حیران ہیں کہ ہم تو خود کو امریکہ‘ چین اور روس جیسی پاور سمجھتے تھے اور پاکستان تو کسی حساب کتاب میں ہی نہیں تھا‘ پھر یہ کیا ہوا؟ چلیں 2019ء میں تو بھارت کے پاس فرانس کے جدید رافیل طیارے نہیں تھے‘ امریکی اسلحہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ اب کی دفعہ تو آٹھ ارب ڈالرز کے رافیل طیارے بھی آچکے تھے‘ امریکی اسلحہ اور اسرائیل کی جنگی ٹیکنالوجی اور سپورٹ بھی میسر تھی پھر بھی رافیل طیارے پاکستانی سرحد کے اندر نہ گھس سکے۔ گھسنا تو بعد کی بات ہے انڈین ایئر فورس اپنے تین رافیل طیارے اپنی ہی سرحد کے اندر شکار کرا بیٹھی اور حالت یہ ہو گئی کہ انہیں اپنے سارے رافیل طیارے پاکستانی سرحد سے تین سو کلومیٹر دور پارک کرنا پڑے اور پھر دوبارہ کسی نے رافیل کا ذکر نہ کیا جو ہر بات پر رافیل رافیل کی تڑی لگاتے تھے۔
باقی چھوڑیں مودی صاحب نے بھی اپنی تقریر میں ایک دفعہ بھی رافیل کا ذکر نہیں کیا۔ وہی مودی صاحب جو آٹھ ارب ڈالرز فرانس کو دے کر یہ Big Birdsلائے تھے اور سنبھالے نہیں جارہے تھے۔اب وہاں وہی سناٹا طاری ہے جو ' شعلے‘ فلم کا ڈائیلاگ مشہور ہوا تھا جو گاؤں کی مسجد کے نابینا مولوی صاحب نے گبر سنگھ کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بیٹے کی لاش پر کھڑے ہو کر بولا تھا کہ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟وہ یقین نہیں کرسکتے کہ 2019ء میں وہ اپنا روسی مگ پاکستان کے ہاتھوں شوٹ ڈائون کرا بیٹھے اور پائلٹ ابھینندن گرفتار ہوا۔ اس شرمندگی کا مداوا کرنے کے لیے فرانس سے آٹھ ارب ڈالرز کے جہاز خریدے کہ اب کی دفعہ رگڑ دیں گے مگر اپنے تین رافیل اور چار باقی جہاز گروا بیٹھے اور اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ روئیں یا ہنسیں۔
پاکستانی اس لیے حیران اور خوش ہیں کہ انہیں بھی یقین نہ تھا کہ بھارت جیسی فوجی قوت کا وہ مقابلہ کر پائیں گے۔ اس قوم اور اس کے نوجوانوں کو مسلسل اس پراپیگنڈے کا شکار کیا گیا کہ اس ملک میں کچھ نہیں رکھا‘یہ ملک ختم ہوچکا‘ اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ نوجوان نسل میں وہ مایوسی پھیلائی گئی اور خود کو اتنا احساسِ کمتری کا شکار کیا گیا کہ خود پر سے اعتماد ہی اُٹھ گیا۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اس جنگ کے تین بڑے سٹیک ہولڈرز پاکستان‘ بھارت‘ اور دنیا میں کسی کو اس نتیجہ کی توقع نہ تھی جو نکلا ہے۔ پہلی دفعہ قوم خوش ہوئی ہے کہ ہم اتنے بُرے اور نالائق بھی نہیں جتنی ہم نے اپنے بارے رائے بنا رکھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا یہ امیج ہم نے خود بڑی محنت سے بنایا ہے اور پوری دنیا میں ہمیں کوئی زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے اوورسیز بھائی ہر وقت ہمیں برا بھلا کہتے رہتے ہیں کہ ہماری وجہ سے ان کی بیرونی ملک عزت نہیں تھی۔ ہماری نالائقی‘ کرپشن یا نان سٹیٹ ایکٹرز کی داستانیں اپنی جگہ ہیں۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں کہیں پٹاخہ بھی چلتا تواس کا کھرا بھی پاکستان آ نکلتا۔ ہم نے بڑی بدنامی کمائی اور اپنے اوپر بہت برے برے لیبل لگوائے۔ یوں پوری دنیا میں ہمارا امیج کبھی بھی ایک ذمہ دار ریاست کا نہ رہا۔ ہماری طالبان سے یکطرفہ محبت اور انہیں رول ماڈل قرار دینے کا بھی ہمیں نقصان ہوا۔ یوں ہمیں چند دوست ممالک کے علاوہ کوئی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔
دوسری طرف بھارت کو دیکھیں تو مودی کو اس کا تکبر اور غرور کھا گیا۔ اگر آپ نے بھارت کا لہجہ اور انداز دیکھنا ہو تو ان دس سالوں کو دیکھ لیں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ واجپائی صاحب ہوں یا من موہن سنگھ‘ ان کی پاکستان کی طرف سافٹ پالیسی غلط تھی۔ بی جے پی کا ماننا تھا کہ جارحانہ انداز رکھنا پڑے گا۔ اب تک دونوں ممالک بڑا عرصہ براہِ راست جنگ سے اجتناب کرتے ہوئے پراکسی جنگیں لڑ رہے تھے اور دونوں ملکوں میں بے گناہ لوگ مارے جارہے تھے۔ بھارت نے جواباً بلوچستان کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا اور اس بارے میں ان کے لیڈروں یا میڈیا نے کبھی اپنی کارروائیوں کو چھپایا بھی نہیں بلکہ پاکستان کو توڑنے کی باتیں کھلے عام ہوتی تھیں۔ اکثر بھارتی دوست جب گلہ کرتے تو جواباً انہیں بتایا جاتا کہ پراکسی جنگوں میں عام لوگ مرتے ہیں۔ اکثر دوستوں کو بتایا کہ ہمارے جیسے پاکستانی جو جنگوں سے نفرت کرتے ہیں اور ہر حالت میں پاکستان انڈیا کی دوستی کی بات کرتے ہیں وہ بھی ہندوستانی قیادت کے اس رویے کی وجہ سے کمزور پڑ جاتے ہیں۔
آپ پاکستان سے اس رویے کی توقع رکھتے ہیں جو خطے کے دیگر ملکوں کا ہے۔ مان لیا ہماری بھی بہت غلطیاں ہیں‘ ہم نے بھی کئی جگہوں پر احتیاط نہیں کی اور کئی امن کے مواقع ضائع کیے ہیں لیکن اب بھی جس طرح کا رویہ بھارتی قیادت کا ہے اس سے بھارت ہی کو نقصان ہوگا۔ اگر اس نے بڑا ملک بننا ہے اور چین کا مقابلہ کرنا ہے تو دل بھی بڑا کرنا ہوگا۔ خطے میں آپ دھمکیوں یا غرور سے جگہ نہیں بنا سکتے کہ اب ہمارے پاس رافیل آگئے ہیں‘ دیکھتے ہیں کون ہمارا راستہ روکتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھارت کے پاکستان میں سابق ہائی کمشنر شیو شنکر مینن نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں بی جے پی حکومت کے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات جن میں کرکٹ پر بین‘ آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں پر بین‘ ویزے کی پابندی وغیرہ کو غلط قرار دیا تھا۔ یہی بات بھارتی ایجنسی را ء کے سابق چیف دلت صاحب نے بھی کی تھی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اس لیول پر نہ لے جائیں۔ عام لوگوں کو ایک دوسرے سے دور نہ کریں۔ جتنے بھی بُرے حالات ہوں پاکستان اور انڈیا کو ایک دوسرے کے ساتھ انگیج رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہنا چاہیے۔
اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ تقریباًپونے دو ارب آبادی کے دو ممالک جو ایک جیسی زبان بولتے ہیں‘ ایک جیسا کلچر ہے ‘ صدیوں سے اکٹھے رہے لیکن دس برس سے نہ ایک دوسرے کے ملک آتے جاتے ہیں نہ تجارت کرتے ہیں نہ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن وہی بات کہ بھارتی غرور اور اکڑ‘ اور ہمیں یہ رویہ ہمارے بھارتی دوستوں کی گفتگو میں بھی نظر آتا تھا۔ ایک پاکستانی دوست کا کہنا ہے کہ موقع اچھا ہے قوم بڑے عرصے بعد متحد ہوئی ہے‘ ایک نیا جوش جذبہ ہے ‘ اس کا فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنے اندرونی سیاسی اور دیگر مسائل کو کچھ لے دے کے نظریے پر حل کرناچاہیے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان ہے جہاں بھارت پہلے سے زیادہ زور لگائے گا۔ ان عناصر کے ساتھ بات چیت کا راستہ نکالیں کیونکہ وہ بھی بھارتی ناکامی کے بعد کچھ ڈھیلے پڑ گئے ہوں گے ۔ یہ موقع ہے اُن سب کو بلوچستان میں فیس سیونگ دی جائے اور معاملہ حل کیا جائے۔ ہر مسئلے کا حل بندوق سے نہیں نکلتا‘ جیسے بھارت نے نکالنے کی کوشش کی۔ اُس دوست کا کہنا تھا کہ ہمیں دس سال مزید اپنے سیاسی حالات کو مستحکم رکھنا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ سوچ ہے یا پھر ہم بھی فتح سے وہی انداز اپنا لیں گے جو ہمارے بھارتی دوستوں نے اپنا لیا تھا؟